Slide
Slide
Slide

انوار قرآنی کو عام کرنے کے لیے آسان ترین ترجمہ کی ضرورت، اور مفتی اشتیاق احمد کی طرف سے اس کی تکمیل کی کامیاب کوشش

تعارف وتجزیہ

مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

_____________

نام ترجمہ :سب سے آسان ترجمه قرآن مجيد (حافظی)
حسب ايماء: حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند
مترجم: مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دار العلوم دیوبند
ناشر :مكتبه ادیب دیوبند
صفحات:616

_____________

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے، کتاب رحمت ہے، کتاب ِشفاء ہے، دستور حیات ہے، محورِ شریعت ہے، معراجِ بلاغت اور منتہائے فصاحت ہے، منبع اسرار وحکم ہے، مخزن انوار وبرکات ہے اور معدن حقائق و دقائق ہے؛ کیوں کہ یہ عظیم رب کا عظیم کلام ہے.
دنیا میں جتنی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں، یا تصنیف ہوں گی، ہر کتاب کا ایک موضوع ہوتا ہے؛ اس موضوع سے متعلق جو مباحث ہوتے ہیں؛ مصنف انھیں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے؛ سوال یہ ہے کہ کہ قرآن کریم جو اللہ رب العالمین کا کلام ہے، جو مالک الملک کا فرمان ہے، اور "کلام الملوک ملوک الکلام” کے مصداق یہ سارے کلاموں کا سردار ہے، ظاہر ہے یہ عظیم الشان کلام موضوع سے خالی کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن کریم کی آیات مبارکہ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی عظمت کے مطابق اس کا موضوع بھی عظیم تر ہے اور اس کی غرض وغایت بھی اعلیٰ ترین ہے.
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے موضوع کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-(البقرہ 185)
ترجمہ:
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں.
سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ :
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں (٢) یہ ہدایت ہے؛ متقیوں کے لیے ()
سورہ اسراء میں ارشاد فرمایا :
اِنَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ يَهۡدِىۡ لِلَّتِىۡ هِىَ اَقۡوَمُ وَ يُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا كَبِيۡرًا ۙ‏ ۞
ترجمہ:
بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا اور مستحکم ہے اور جو ایمان والے نیک کام کرتے ہیں ان کو بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔(الإسراء آیت 9)
مذکورہ آیات کریمہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا موضوع” ہدایت” ہے، صحیح راستہ کی نشاندہی کرنا، منزل مقصود کی رہبری کرنا، حق و باطل کے درمیان فرق کرنا یہی قرآن کریم کا موضوع ہے،
اگرچہ قرآن کریم نے ہر ایک کو صحیح راستہ دکھایا ہے. خواہ وہ مومن ہو یا کافر. اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے؛ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھاجائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی کو پہنچتا ہے، جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ، اس لئے فرمایا گیا کہ یہ قرآن ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے.
سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۶)
ترجمہ:
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی(قرآن) آئی ہے، اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کر دینے والی ہے، جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرتا ہے.
قرآن کا ذکر کرنا، اسے حفظ یادکرنا ،اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ اگر بغیر سمجھے تلاوت کریں تب بھی ثواب ملے گا، لیکن مقصد تنزیل کی تکمیل نہ ہو گی.
اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن کریم کتاب ہدایت یا گائڈ بک ہے؛ تو اس سے ہدایت کیسے حاصل کی جائے اور اس کی روشن شعاؤں سے اپنے دلوں کو منور اور اپنی زندگی کو تاباں کیسے بنایا جائے؟
اس مقصد کو پانے کے لیے اللہ رب العالمین نے اس کتاب میں تدبر وتفکر کا حکم فرمایا. اور اس امر کی نشاندہی فرمائی کہ اگر تمہیں ہدایت چاہیے تو اس کتاب میں تدبر وتفکر کرو اس کو سمجھنے کی کوشش کرو.
عدم تدبر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا.. اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُـهَا (24)
پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے. کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں؟
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا(82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے (82)
(كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)
ترجمہ:(یہ قرآن) بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔
ممکن ہے کہ کوئی یہ سوال کرے کہ یہ کتاب تو عربی زبان میں ہے اسے عربی نہ جاننے والے افراد کیسے سمجھ سکتے ہیں، یا اتنے عظیم رب کا عظیم الشان کلام کسی انسان کے سمجھ میں کیسے آسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں جواب دیا کہ جب یہ کتاب ہدایت پوری انسانیت کے لیے ہے. تو سمجھنا بھی ہے پوری انسانیت کو ہے. چاہے وہ عربی ہو یا عجمی، حسبِ استطاعت سمجھنے کی کوشش کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (القمر 22)
یہاں پر ذکر کے متعدد ترجمے کیے گئے ہیں؛ البتہ اس عاجز کو سب سے شاندار ترجمہ سرخیل علماء دیوبند شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رح کا لگتا ہے.
حضرت کا ترجمہ یہ ہے :
اور ہم نے آسان کر دیا قرآن سمجھنے کو، پھر ہےکوئی سوچنے والا؟
مولانا فتح محمد جالندھری نے بھی ذکر کا ترجمہ سمجھنے سے کیا ہے. لکھتے ہیں :
"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے ؟” مولانا محمد جونا گڑھی نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے لغوی طور پر” ذکر” کے مفہوم میں وسعت ہے سمجھنا، یاد کرنا، نصیحت حاصل کرنا سب اس میں داخل ہے.
حضرت تھانوی رح تحریر فرماتے ہیں :
یعنی آسان کردیا سب کے لیے عموماً بوجہ وضوح بیان کے اور عرب کے لیے؛ بوجہ عربیت لسان کے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ترغیب و ترہیب کے متعلق قرآن میں جو مضامین ہیں وہ نہایت جلی ہیں۔ اور وجوہ استنباط کا دقیق ہونا تو خود ظاہر ہے
اس کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:” قرآن سے نصیحت حاصل کرنا بالکل آسان ہے کیونکہ جو مضامین ترغیب و ترہیب اور انذار و تبشیر سے متعلق ہیں وہ بالکل صاف سہل اور مؤثر ہیں۔ پر کوئی سوچنے سمجھنے کا ارادہ کرے تو سمجھے!”
انسان اگر اپنے قلب وذہن کے دریچے وا رکھ کر اسے عبرت کی آنکھوں سے پڑھے، نصیحت کے کانوں سے سنے اورسمجھنے والے دل سے اس پر غور کرے. تودنیا وآخرت کی سعادت کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں اور یہ اس کے قلب ودماغ کی گہرائیوں میں اتر کر کفر ومعصیت کی تمام آلودگیوں کو صاف کر دیتی ہے۔
مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اس سورہ میں چار مرتبہ ذکر فرمایا.
قرآن مجید کے نزول سے لے کر اب تک اس کی تفسیر ، تشریح اور توضیح کا کام جاری و ساری ہے۔ یہ کار خیر سر انجام دینے کی ذمہ داری سب سے پہلے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر سونپی کہ "وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(44) ) "اور ہم نے آپ کی طرف یہ نصیحت اتاری، تا کہ آپ لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دیں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غور کریں. یعنی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی وضاحت اور تفسیر کر کے انہیں بتائیں کہ ان کی طرف اللہ تعالی کی طرف سے کون کون سے احکامات
نازل ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام نے اس کار خیر میں قابل قدر حصہ ڈالا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن لوگوں نے قرآن مجید سیکھا انہوں نے جہاں قرآن مجید کے الفاظ سیکھے وہیں اس کے معنی اور مفہوم کو بھی سمجھا۔
ہمیں کتب تفسیر اور کتب حدیث میں صحابہ کرام کے بے شمار تفسیری اقوال ملتے ہیں ۔ حتی کہ ضرورت پڑنے پر صحابہ کرام نے قرآن مجید کے مفہوم کو غیر عربی زبان میں بھی واضح کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور دیگر صحابہ کرام کے اس طرح کے اقوال
ملتے ہیں کہ انہوں نے قرآن مجید کا مفہوم فارسی زبان میں بیان کیا۔(ابن ابی شیبہ، 473/10 کتاب فضائل القرآن)
صحابہ کرام کے بعد ائمہ کرام اور مفسرین میں سے ہر کسی کے لیے جس قدر ممکن تھا، اس نے اسی قدر قرآن مجید کی تفسیر اور تفہیم میں حصہ لینا اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔ اس کے نتیجے میں آج ہمارے پاس تفاسیر کا گراں قدر ذخیر ہ موجود ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی قرآن مجید سے محبت اور تعلق کا ثبوت ہے کہ اور اس ذخیرے میں آئے روز کوئی نہ کوئی خوبصورت اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
قرآن کریم کی نورانی شعاؤں کو ہر فرد بشر تک پہنچانے کی ہر زمانہ میں اکابر اولیاء اللہ نے بھرپور کوششیں کیں.
جب اسلام فارس کے علاقے میں داخل ہوا تو فارسی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے ہوئے، ایک زمانے میں بر صغیر ہندوستان کی زبان بھی فارسی تھی. اس وقت کے اکابر علماء نے یہاں کی ضرورت کے مطابق فارسی زبان میں قرآن مجید کا آسان ترجمہ کیا.
ہندوستان میں اس سلسلے کا محوری کام اور عوام کو قرآن کریم سے جوڑنے کی مہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے شروع کیا… پھر شاہ ولی اللہ دہلوی کے دو صاحب زادگان حضرت شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو ترجمہ کے ذریعے اس تحریک کو آگے بڑھایا، ان کے ترجمہ کو اردو کا الہامی ترجمہ کہا جاتا ہے.
شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے ”موضح قرآن“ کے مقدمے میں اپنے اردو ترجمہ قرآن کو آسان زبان و عام فہم اسلوب میں پیش کرنے کی وہی غرض و غایت بیان کی ہے جو ان کے مرحوم والد محترم نے اپنے فارسی ترجمہ قرآن ( فتح الرحمن) کے مقدمہ میں واضح کی تھی ۔
"اس (اللہ) کے کلام میں جو ہدایت ہے دوسرے میں نہیں، پر کلام پاک اس کا عربی زبان میں ہے اور ہندوستانی کو اس کا ادر اک محال ہے۔ اس واسطے اس بندہ عاجز عبد القادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ ابن عبد الرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کر گئے ہیں سہل اور آسان، اب ہندی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔ الحمد للہ کہ سن ۱۲۰۵ھ میں میسر ہوا۔۔۔ اور اس کتاب کا نام ”موضح قرآن“ ہے۔ یہی اس کی صفت ہے اور یہی اس کی تاریخ ہے ۱۲۰۵ھ(۔معارف. جنوری ۲۰۲۳ء مقالہ نگار ڈاکٹر محمد انس حسان ")
مسند ہند حجۃ الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فارسی ترجمہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ :
قرآن مجید کا متن اور فارسی کے مختصر رسائل پڑھنے کے بعد جب فارسی زبان بے تکلف سمجھنے کی استعداد پیدا ہو جائے تو اس ترجمے کو شروع کرانا چاہئے خصوصا سپاہیوں اور پیشہ ور لوگوں کے بچوں کے سن شعور کو پہنچنے کے ساتھ ہی اس کی تعلیم دینی چاہئے کیوں کہ ان سے یہ امید نہیں کہ وہ علوم
عربیہ کی مکمل تحصیل کریں گے تاکہ ان کے دلوں میں پہلی چیز جو جاگزیں ہو وہ کتاب اللہ کے معانی و مطالب ہوں، اس سے ان کی فطری سلامتی باقی رہے گی“۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ترجمہ قرآن کے مقدمے کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس قابلِ توجہ اور مشعلِ راہ ہے. فرماتے ہیں :سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جانا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے، لیکن جیسا حق تعالی نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلا سکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدائے تعالی کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے، اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں۔
ان اکابر کے بعد قرآن کریم کے اردو زبان میں متعدد تراجم کیے گئے، اور تفسیریں بھی لکھی گئیں جو اس وقت کے لحاظ سے بہت آسان اور مترجمین مفسرین کے علمی قد کے مطابق مستند اور معیاری تھیں . لیکن فلسفہ لسانیات کا یہ اصول ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد زبان اور اسلوب بیان میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور ہوجاتی ہے، ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ الفاظ متروک ہوجاتے ہیں اور کچھ تعبیرات میں اجنبیت پیدا ہوجاتی ہے. اس صورت حال میں تمام تر اہمیت کے باوجود بعض مستند تراجم تفاسیر کا سمجھنا عام افراد اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، اور ضرورت ہوتی ہے کہ ہر بیس پچیس سال کے بعد غیر عربی داں امت مسلمہ کے رشتہ کو خالق کائنات کے کلام سے جوڑنے کے لیے آسان ترین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا جائے.. اس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے متعدد اہل علم نے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قرآن کریم کے ترجمے کیے؛ لیکن آسان سے آسان تر کی ضرورت اور جستجو ہمیشہ باقی رہتی ہے…
اللہ جزائے خیر دے ہمارے فاضل دوست، ممتاز عالم دین مستند صاحب قلم جناب مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو. کہ انھوں نے حضرات اکابر بالخصوص محدث یگانہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری نوراللہ مرقدہ کی ایماء پر اس ضرورت کا ادراک کیا. اور حضرت پالن پوری کی نگرانی میں آسان ترین ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا. کام جس شخصیت کی نگرانی میں شروع ہوا وہ جلد ہی جنت سدھارگئے؛ لیکن مترجم نے ہمت نہیں ہارا. کام عظیم، راستہ دشوار گزار اور منزل کٹھن تھی، لیکن پوری محنت مستعدی اور استقامت کے ساتھ اس کی تکمیل میں لگے. مسلسل سالہا سال کی شبانہ روز کی محنت شاقہ کے بعد تراجم قرآنی کے زریں سلسلہ میں "سب سے ترجمہ قرآن مجید” کے نام سے ایک عظیم شاہکار کا اضافہ ہوا.
اس عاجز کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ مفتی اشتیاق احمد زید مجدہم نے ترجمہ کے مختلف مراحل میں اس عاجز سے مشورے کیے، اور بندہ کے طالب علمانہ مشوروں کو بڑی اہمیت کے ساتھ قبول کیا.
مترجم نے ترجمہ کے مراحل میں جن تفاسیر کی خوشہ چینی کی اور جن امور کی پابندی کی ہے، وہ نہ صرف یہ کہ ترجمہ کو استناد بخشتے ہیں بلکہ ترجمہ کے حسن میں بھی اضافہ کررہے ہیں
مترجم خود لکھتے ہیں :
چنانچہ علامہ جرجانی اور شاہ ولی اللہ کے فارسی ترجمے ، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے اردو ترجمے کتب خانہ دارالعلوم دیو بند سے حاصل کیے، ان کے ساتھ اکابر کے پندرہ تراجم تک رسائی ہوگئی ، یعنی ترجمہ شیخ الہند، حقانی، تھانوی، دریا بادی، فتح محمد جالندھری، احمد لاہوری، احمد سعید دہلوی، سرفراز خان صفدر، اکرم اعوان، عبد القیوم مہاجر مدنی ، عاشق الہی بلند شهری، صوفی عبد الحمید سواتی، محمد تقی عثمانی، خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہما اورمفتی صاحب کی ہدایت القرآن کے لفظی و محاوری ترجمے ؛ اس طرح انیس (19)قابل اعتماد تراجم کے لفظ لفظ اور حرف حرف پر غور وفکر کرنے کا حوصلہ لے کر بیٹھا، ان میں پانچ تراجم کو نا چیز ام التراجم تصور کرتا ہے، یعنی حضرت شاہ ولی اللہ ، شاہ رفیع الدین ، شاہ عبد القادر دہلویؒ، حضرت تھانوی اور فتح محمد جالندھری کے ترجمے ؛ اس لیے کہ بعد کے سارے ترجمے انھیں کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہیں. (اختتامیہ، عرض مترجم)
قرآن کریم کے ترجمے تو کئی آزاد خیال دانشوروں نے بھی کیے ہیں، لیکن ان کی استنادی حیثیت ہمیشہ مشکوک رہی ہے، اور اس لیے مترجم نے اکابر کے تراجم کے اندر رہنے کا اہتمام کیا ہے.
مترجم لکھتے ہیں :
اس ترجمے میں اکابر کے تراجم کے اندر رہنے کا التزام کیا گیا ہے؛ عربی اور فارسی مفردات سے بچنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، متروک اور اجنبی الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں، کافی آسان کرنے کی کوشش کی گئی ہے. اب یہ ترجمہ علماء حق کے تراجم کا آسان ترین انتخاب ہے؛ اس میں ممکن حد تک ہر لفظ کے متبادل مفرادات لانے کا التزام کیا گیا ہے؛ حاشیہ پر مختصر تفسیر، لغات اور نحوی صرفی تحقیق لکھنے کا ارادہ ہے. سر دست خالص ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے تاکہ شائقین کی تسکین کا سامان ہو جائے. ”
مترجم کے جملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ خالص ترجمہ کے بعد انشاءاللہ وہ مختصر اور مستند تفسير لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ تفسير کے مرحلہ کو بھی آسان فرمائے.
اس ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے حافظی قرآن مجید کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے، اس سے انشاءاللہ حفاظ کرام کے لیے سہولت ہوگی اور آیات کریمہ کا تلاش کرنا آسان ہوگا. دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ باشعور افراد جو قرآن مجید حفظ کرتے ہوئے مراد الہی کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں ترجمہ سے مدد ملے گی. گویا حفظ کے طلبہ کے لیے بھی یہ ترجمہ نادر تحفہ ہے وہ اس کی مدد سے آہستہ آہستہ قران کریم کو سمجھنے لگیں گے.
مصنف کے اخلاص محنت اور جانفشانی اور اکابر کے نقش پا کی جستجو کے داعیہ کا نتیجہ ہے کہ ممتاز علماء عصر مثلاً حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی محمد امین پالن پوری وغیرہ نے آپ کے اس ترجمہ پر اعتماد کا اظہار فرمایا.
مہتمم دارالعلوم دیوبند کا یہ جملہ مترجم کے لیے یقیناً نیک فال اور سند ہے :
"یہ بات بندہ کے علم میں تھی کہ موصوف اکابر علماء کے ترجمہ اور مستند تفسیروں کے دائرہ میں رہتے ہوئے ترجمہ قران پاک کو سہل سے سہل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں الحمدللہ وہ اپنی سعی میں کامیاب ہوئے.”
یہ قیمتی سوغات بندہ کے پاس رمضان المبارک سے قبل پہنچا اور رمضان کے مقدس لمحات میں اس سے مستفید ہونے اور اس کے خوبیوں سے واقف ہونے کا موقع ملا، بندہ علی وجہ البصیرہ عرض کرتا ہے کہ ماشاءاللہ مفتی صاحب کی کوششیں قابل قدر اور لائق تعریف ہیں. اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کے ذریعہ انوار قرآنی اور سرچشمہ ہدایت کی روشنی کو ہر اردو داں تک پہنچا دے. آمین
بعض الفاظ اورتعبیرات ہیں جنہیں مزید سہل اور رواں بنایا جاسکتا ہے، امید ہے کہ اس کا نقش ثانی جب یہ ترجمہ مختصر تفسير کے ساتھ اشاعت پذیر ہوگا تو انشاءاللہ وہ نقش اول سے بہتر ہوگا. اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور مترجم کو ان کی کوششوں کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین.
نام ترجمہ :سب سے آسان ترجمه قرآن مجيد (حافظی)
حسب ايماء:
حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند .

مترجم:مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دار العلوم دیوبند
ناشر :مكتبه ادیب دیوبند
صفحات :616

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: