جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
ظفر امام قاسمی
دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج، بہار
___________________
چند ہفتے پہلے کی بات ہے،شادی کی ایک تقریب میں مخدومِ گرامی،ٹیڑھاگاچھ کی ہردالعزیز اور معروف شخصیت حضرت مولانا محمود عالم صاحب پھلواڑی سے دعوت کی میز پر اتفاقیہ ملاقات ہوئی،علیک سلیک کے بعد کھانے میں مصروف ہوگئے،کھانے سے فراغت ہوئی تو کچھ دیر گپ بازی کرنے کو جی چاہا،ویسے بھی مولانا محمود صاحب کی مقناطیسی شخصیت جلدی چھوڑتی کہاں ہے،جب تک تفصیلی حال احوال کا باہمی تبادلہ نہ ہوجائے نہ ہمیں انہیں چھوڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی وہ ہمیں چھوڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں،موسم چونکہ نہایت گرم تھا،آسمان انگارے برسا رہا تھا،زمین تپ رہی تھی، اور ہوا کا روٹھنا الگ قیامت ڈھا رہا تھا،لہذا ہمیں ایک ایسی جگہ کی تلاش ہوئی جہاں سکون کی چند سانسیں فراہم ہوسکیں،اس کے لئے ہمیں سب سے موزوں جگہ مسجد نظر آئی جو پاس ہی آم کی گھنیری چھاؤں کے درمیان ایستاد تھی،مزید برآں وہاں برقی ہوا کا بھی معقول نظم تھا سو ہم مسجد کے ایک گوشے میں جاکر بیٹھ گئے۔
چند ہی لمحوں مجلس جم گئی، گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو مولانا کے سازِ دل نے ماضی کے راگ چھیڑدئے،یہ راگ ایسا دلکش تھا کہ میں اُس کی دُھن پر ازخود رفتہ ہوگیا،اور بےقراری کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گیا،میرا پورا دھیان اسی راگ کے تانے بانے پر ارتکاز ہوگیا،مولانا کہنے لگے:بھائی کشن گنج میں ایک ہی تو نستعلیق شخصیت تھی جو ہر میدان کا شہسوار ہونے باوجود سادگی،بےساختگی بےنفسی،اخلاص اور بےلوثی کا حسین مرقع تھی،محفل کی چکاچوند انہی کی شمعِ وجود کا رہینِ احسان تھی،وہ کیا بچھڑے کہ محفل ایک دم سونی ہوگئی،آج بھی جب اُن کی یاد آتی ہے تو دل کے سارے تار فراقِ غم کی بانسری بجانے لگتے ہیں۔
؎ بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے
جی ہاں! مولانا اُس عظیم،مایہ ناز،مردِ درویش،رشکِ فنون،نازشِ چمن سلطان القلم،مرتجل ادیب،خطیبِ بےمثال غمگسارِ غم خورداں اور یکتائے زمانہ انسان کے ذکرِ خیر کے تار چھیڑدئے تھے کہ جن کا نام سنتے ہی اعضاء و جوارح عقیدت و محبت سے خم ہوجاتے ہیں،آنکھیں محبت سے مُسکا اٹھتی ہیں اور بےساختہ زبان سے جاری ہوجاتا ہے کہ:
ہائے کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
مولانا کہنے لگے: نوے کی دہائی کی بات ہے،ہمارے علاقے میں ایک تاریخ ساز اجلاس ہونا طےپایا،جس کی تاریخ کے لئے مجھے دلی مفکرِ ملت حضرت مولانا اسرارالحق صاحب قاسمیؒ سابق ایم پی کشن گنج کی خدمت میں باریابی کا اتفاق ہوا،میرے ہمراہ ایک اور شخص تھے،ہم نے جس وقت آپ کی کنڈی کھٹکھٹائی آپ اس وقت ظہرانے کے دسترخوان پر بیٹھے تھے،ہمیں دیکھتے ہی بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اٹھے اور سیدھا دسترخوان پر لے بٹھایا،اُس وقت جو کچھ میسر تھا وہی ہمارے لئے غنیمت تھا کہ ہم ایک لمبے سفر کے بعد دلی پہونچے تھے،اس کے بعد ہم نے حضرت کے سامنے اپنی آمد کا مقصد واضح کیا،حضرت نے بڑی خوش دلی اور خندہ جبینی کے ساتھ ہمارے مقصد کو نہ صرف یہ کہ شرف قبول بخشا بلکہ اور بھی کئی عبقری شخصیات جن میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام صاحبؒ کا نام سرِفہرست ہے، سے ہمارا رابطہ کروایا،پھر جب ہم نے آپ سے اجازت مانگی تو اولا تو آپ ہمیں اپنے پاس ٹھہرانے پر بضد ہوگئے،مگر جب ہم نے کہا کہ حضرت آج کہیں اور ٹھہرنے کا پروگرام ہے تو آپ نے اِس شرط کے ساتھ ہمیں وہاں سے رخصتی کی اجازت مرحمت فرمائی کہ” کل کی شام ہر حال میں آپ کے پاس گزاریں“ ہم نے اگلے دن کی شب باشی کا وعدہ کیا اور وہاں سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
اگلی شام کا جھٹپٹا جب افقِ عالم پر نمودار ہوا تو حسب وعدہ ہم آپ کی خدمت میں جاپہونچے،آپ نے نہایت تپاک سے ہمارا استقبال کیا،آپ کے ملنے کا انداز اتنا والہانہ تھا کہ ہمیں یہ احساس ہونے لگا جیسے آپ ہمارے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھے تھے،حضرت کا کمرہ ہی کیا تھا،بس سادگی کی ایک تصویر تھا،جس کے ایک گوشے میں ایک پرانا سا تخت لگا تھا اور زمین پر بوسیدہ قسم کے ٹاٹ بچھے تھے، دوسرے گوشے میں ضرورت کے کچھ معمولی قسم کے سامان بکھرے پڑے تھے، عشاء کی نماز کے بعد آپ نے نہایت محبت سے ہمیں کھانا کھلایا اور ملکی حالات پر تبادلۂ خیال کے بعد جب سونے کا وقت آیا تو آپ نے ہمارے لئے اپنی سیٹ خالی کرکے ہمیں وہاں سونے کے لئے کہا،اور خود فرش زمین پر اپنا بستر لگانے لگے،ہم ایک دم سٹپٹا اٹھے، ہمارے اوسان خطا ہوگئے،اللہ اکبر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ہم جیسے تن پرور لوگ اوپر سوتے اور وقت کے ایک کامل ولی کا جسم زمین کی ریت بالو سے رگڑا کھاتا،ہم بصد اعتذار آپ کی خدمت میں عرض رساں ہوئے:حضرت!یہ ظلم ہم پر نہ کیجیے،ایسی بےادبی اور گستاخی کا ہمیں مکلف نہ بنائیے،ہماری بےچارگی پر رحم فرمائیے، مگر آپ اپنی بات پر اڑے رہے، اور بطور دلیل بار بار اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ: نہیں! آپ ہمارے مہمان ہیں،مہمان کے بجائے خود اوپر سونا یہ اخلاقی تقاضے کے سراسر خلاف ہے“ مولانا کہہ رہے تھے کہ بھائی! اسی پس و پیش میں مکمل دو گھنٹے بیت گئے مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اوپر سونے کی ہامی نہ بھری،مجبورا ہمیں اوپر سونا پڑا“۔
؎ سوچا تھا تیری سادگی پر لکھوں گا ایک غزل
افسوس تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے
اللہ اکبر کیسی بےنفسی تھی اور فنائیت کا کیسا جذبہ موجزن تھا اُس خدامست انسان کے اندر،آج اگر ہم کو اپنے محدود دائرے میں تھوڑی سی شہرت اور ناموری مل جاتی ہے،تو ہم پھولے نہیں سماتے، ہمارے پاؤں زمیں پر نہیں ٹکتے،ہم اُڑے اُڑے پھرنے کو اپنا گراں قدر سرمایہ سمجھتے ہیں، ہماری نگاہ میں اپنوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی چہ جائیکہ ایک پردیسی مسافر کو ہم اپنی آنکھوں میں جگہ دے سکیں،حضرت مرحوم نے اپنے مہمانوں کے ساتھ جو حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا وہ یقینا آپ ہی کے بلند اخلاق اور اعلی کردار کا مظہر اتم تھا،آپ کی یہی وہ دلربا ادائیں تھیں جنہوں نے جیتے جی خلقِ خدا کے دلوں پر اپنا قبضہ جمالیا تھا،نہ جانے آپ کی آنکھوں میں کیا کشش تھی کہ آپ کی آنکھیں جسے ایک بار دیکھ لیتیں اسے اپنا گرویدہ بنا لیتیں۔
؎ میری آنکھوں میں چشمِ مست ساقی کا وہ عالم ہے
نظر بھر کر جسے دیکھ لوں مےخوار ہوجائے
بہرحال مخدوم گرامی (مولانا محمود صاحب) مجھے اپنا واقعہ دل افزا سنا رہے تھے اور میں چشمِ تصور سے دلی کے ایک بوسیدہ سے حجرے کے ٹوٹے ہوئے ٹاٹ پر لیٹے اُس حسین اور دلنشیں شخص کو دیکھ رہا تھا جس کے پہلو پر ٹاٹ کے داغ نمایاں ہوگئے تھے،میری سوچوں کے محور پر کافی دیر تک اسی شخصیت کا قبضہ جما رہا اور جب سوچوں کا بندھن ٹوٹا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری آنکھوں نے بھی اشکوں کے چند بوند ٹپکادئے ہیں،آج جب کہ اس واقعے کو سنے کئی ہفتے بیت چکے ہیں مگر اب بھی جب اس واقعہ کو سوچتا ہوں تو بےاختیار اس عظیم اور عبقری شخصیت کی ذات میں حلول کرجاتا ہوں اور بےقرار ہوکر میرے لب یہ کہتے ہوئے نغمہ ریز ہوجاتے ہیں کہ :
؎ کرتی جاتی ہے سرایت جان و تن میں اُن کی یاد
رفتہ رفتہ جانے کیا سے کیا ہوجاتا ہوں میں