۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ہندوستانی معاشرے میں ” مولانا” کا تصور!

✍️ ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

zafardarik85@gmail.com

___________________

ہمارے معاشرے میں مولانا اس شخص کو کہا یا سمجھا جاتا ہے جو کسی مدرسہ میں باضابطہ تعلیم حاصل کرتا ہے اور اس مدرسہ کا تجویز کردہ نصاب مکمل کرکے فراغت حاصل کرلیتا ہے۔ مدارس میں عالم یعنی مولانا کا نصاب الگ الگ ہے۔ مثلاً دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ اداروں میں اس نصاب کو درس نظامی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ البتہ یہ بات تمام اداروں میں یکساں ہے کہ مدارس دینیہ کے فارغین کو مولانا کہا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک اور مکتب فکر سے ہو ۔ مولانا کے دیگر سماجی تصورات پر گفتگو کرنے سے قبل ضروری ہے لفظ مولانا کا مفہوم بیان کر دیا جائے ۔
مولیٰ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ اورکلامِ عرب میں موجودہے، ماہرین نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ عام لغات میں بھی اس کے متعدد معانی بآسانی دست یاب ہیں، مثلاً : پروردگار، مالک و آقا ، کسی کام کا منتظم یا انجام دہندہ ، مخلص دوست ، ساتھی رفیق ، معاہد، حلیف ، آنے والا مہمان ، پڑوسی، شریک، ساجھی ، آزاد کردہ غلام ، غلام ، تابع، پیرو ، غلام آزاد کرنے والا۔ قرآن مجید اور کتب احادیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا درج ذیل آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریلِ امین اور نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِير .(التحريم: 4)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ سے فرمایا :
ما أنت يا زيد فأخونا ومولانا۔ اے زید آپ ہمارے بھائی اور مولیٰ ہیں۔
ان دونوں شواہد کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآن اور احادیث میں مولانا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
ہمارے سماج میں اس لفظ کو ایک خاص طبقہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی ان افراد کے لیے جو مدارسِ دینیہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چند برسوں پر مشتمل ایک نصاب پڑھ کر فراغت پاتے ہیں ۔ مدارسِ دینیہ سے فارغین کے لیے مولانا کا لفظ استعمال کرنا مناسب ہے یا نہیں؟
اس بابت اگر ہم دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ علماء کرام کے لیے بھی مولانا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے:
آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے استعمال فرمایا ہے، من کنت مولاہ فعلي مولاہ، اور آزاد کردہ غلام کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، مولی القوم منہم اس سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے مخصوص اسماء وصفات میں سے نہیں ہے، جس کا استعمال غیر کے لیے جائز نہ ہو، اسی بناء پر لوگ علمائے کرام بزرگان دین کے لیے مولانا کا لفظ استعمال کرتے ہیں مولانا کا ترجمہ ہوا ہمارے سردار”
متذکرہ ثبوت کی روشنی میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا استعمال مدارس دینیہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالم دین کے لیے ہمارے ہاں احتراماً "مولانا” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ "مولانا” ملّا‘‘ اور ’’مولوی‘‘ یہ الفاظ بالعموم اسلامی پیشواؤں کے لیے احترام و تعظیم کی غرض سے بولے جاتے تھے اور اب بھی شرفاء کے ہاں تعظیم کے لیے ہی مستعمل ہیں۔ بہت سارے مسلم ممالک میں ’’دینی عالم‘‘ کو ازراہِ احترام یا علمی فراوانی کی وجہ سے "ملا”کہا جاتا تھا،
جیسے عہد اکبری کے معروف مؤرخ اور منتخب التواریخ کے مصنف عبد القادر کو ملا عبد القادر بدایونی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ علم منطق کی معروف کتاب اور شامل نصاب سلم العلوم کے مصنف کو ملا محب اللہ بہاری سے جانا جاتاہے ۔ اسی طرح مرقاة المفاتیح بشرح مشکاة المصابیح کے کے مصنف بھی ملا علی قاری کے نام سے معروف ہیں ۔ اصول فقہ کی معروف کتاب نور الانوار کے مصنف کو بھی ملا احمد جیون کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اہل علم ہیں جنہیں ملا کے لقب سے یا کیا گیا ہے ۔ در اصل ملا کے معنی ہے جس کا سینہ علم سے بھرا ہوا ہو ۔ یعنی ہر اس شخص کو ملا کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جس کے سینہ میں علم و تحقیق کا دریا بہتا ہو ۔ لیکن عہد حاضر میں ملا کو بطور حقارت کے استعمال کیا جاتاہے ۔ جاہلوں میں ہر داڑھی ٹوپی والے کو ملاجی کہا جاتا ہے ۔ ملاجی بول کر سامنے والے کی توہین مقصود ہوتی ہے ۔ یعنی ملاجی کے نام سے ایک یہ بھی تصور ابھرتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو دنیا و مافیہا سے دور ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملاجی کا مطلب ہوا وہ شخص جو دنیاوی معاملات سے بالکل بے دخل ہو ۔
ہمارے ہاں لفظ "علامہ” اسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ملا کے بالمقابل علامہ میں احترام پایا جاتا ہے ۔ یعنی علامہ اسی شخص کو کہا جاتاہے جو خاصا علم والا ہو ۔ اسی طرح خداترس ماہرِ علم کے لیے فارسی بولنے والے خطوں میں "مولوی” کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور وہیں سے ہمارے ہاں بھی وارد ہوکر عام استعمال میں آچکا ہے. مولانا اشر ف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التبلیغ میں لکھا :”مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علمِ دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو”
مولانا کا سماج میں جو تصور اور نظریہ ہے وہ بالکل الگ ہے ۔ ہندوستانی معاشرے میں مولانا کے حوالے سے دو نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ایک نظریہ عوام کا ہے اور دوسرا نظریہ کالیجیز اور دانش گاہوں کے فضلاء کا ہے ۔ عوام اس شخص کو سب سے بڑا مولانا سمجھتی ہے جو تعویذ کرنا جانتا ہے ۔ لچھے دار تقریر کرلیتاہے ۔ حتی کہ یہاں تک سننے کو ملتا ہے کہ فلاں مولانا نے فلاں کو تعویذ دیا تو اس کی بیماری دور ہوگئی ۔ جو عالم دین تعویذ وغیرہ نہیں کرتاہے تو اس کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کیا لکھا ہے یہ تو جانتے ہیں ۔ اس کے باجود یہ کام آپ نہیں کرسکتے ۔ گویا عوام کی نظروں میں عالم یا مولانا بول کر جو تصور سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو تعویذ کرنا جانتا ہو ، لچھے دار تقریر کرلیتا ہو ۔
عوام کو اس کے علمی و تحقیقی اور فکری کارناموں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں مولانا کا ایک تصور ان افراد کے یہاں ہے جو عصری دانش گاہوں سے تعلیم یافتہ ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ میں پڑھنے یا مولانا کا مطلب ہے کہ اسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ کے مسائل یا دینی باتوں سے واقفیت ہوگی اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں آتا ہے ۔ در اصل مولانا کے متعلق دونوں طبقوں کے نظریات ناقص اور ادھورے ہیں۔
عوام کا مولانا کے بارے میں تعویذ و تقریر تک محدود رکھنا بھی ٹھیک نہیں ہے، تو وہیں عصری علوم سے وابستہ افراد کا نظریہ کہ عالم دین صرف مسائل عبادت تک محدود رہتا ہے ۔ برعکس اس کے جو طبقہ دانش گاہوں سے تعلیم یافتہ ہوتا ہے ان کے متعلق علماء کا نظریہ بھی متوازن نہیں ہے یعنی وہ ان کو دنیا دار تصور کرتے ہیں ۔ دونوں طبقے افراط و تفریط کا شکار ہیں اس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس خیلج کو پاٹنے کی بھی ضرورت ہے ۔
بات در اصل یہ ہے کہ یہ نظریات معاشرے میں اس لیے وجود آئے کہ ہم نے یعنی طبقہ علماء نے علوم کی تقسیم نافع اور غیر نافع کے نام سے نہیں کی بلکہ دنیوی علوم اور دینی علوم کے نام سے تفریق کرکے کے معاشرے میں ایک خلیج قائم کرنے کا کام کیا ہے ۔ اسی طرح عوام میں اس شخص کو بڑا عالم سمجھنا جو تعویذ گنڈے میں مہارت رکھتا ہے تو یہ نظریہ بھی خود ہم ہی نے دیا ہے، ہمارے بہت سارے نام نہاد علماء اس عمل کو کرتے ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرتی سطح پر مولانا کی بابت جو تصورات راسخ ہوچکے ہیں ان کو معدوم کیا جانا چاہیے ۔
قدیم و جدید کے نام پر یا عصری و دینی علوم کے نام پر جو تفریق ہے وہ معاشرے کو بری طرح متاثر کررہی ہے اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے تبھی جاکر ہمارا سماج ترقی کی راہ حاصل کر پائے گا ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: