غامدی فکر کی بنیادی گمراہی
غامدی فکر کی بنیادی گمراہی
مولانا محمد یحیٰ نعمانی
گزشتہ تقریبا بیس سال سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار کا ذرائع ابلاغ میں چرچا خاصا سرگرمی سے جاری ہے۔ یہ عاجز ان کی چیزیں اس وقت سے پڑھتا اور دیکھتا آیا ہے جب غالبا انڈیا میں ان کو معدودے چند لوگ جانتے تھے۔ ان کا رسالہ اشراق الفرقان میں آتا تھا۔ اور کم از کم ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۸ تک نظر سے گزرتا رہا۔ وہ اپنی نسبت محترم مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی طرف کرتے ہیں، میں ان کی چیزیں پڑھ کر محسوس کرتا تھا کہ مولانا مرحوم نے حد رجم کے سلسلے میں جس خطرناک جرأت اور شذوذ پر انتہا کی ہے، جناب غامدی صاحب نے وہاں سے اپنا آغاز کیا ہے۔
پھر انٹرنیٹ نے ان کے افکار کی تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع کردیا۔ ادھر کچھ عرصے سے ملک کے مختلف علاقوں میں لوگ ان کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ان کے لیکچرز سے کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی متأثر ہونے لگے ہیں۔
مغربی تہذیب کے بین الاقوامی غلبے اور پھیلاؤ کی وجہ سے مسلمانوں میں ہر جگہ کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا ہے، جس کو اپنے مسلمان ہونے کے باوجود، اپنے خاص ماحول کے زیر اثر علماء اور اہل دین سے ایک نفسیاتی الجھن اورذہنی دوری ہے۔ ایسے لوگ ہر گمراہ کن تحریک ودعوت کے سب سے جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ تجربہ ہورہا ہے کہ یہی طبقہ جناب غامدی صاحب سے متأثر ہورہا ہے۔
میں سوچتا تھا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر متعدی مرض وبا کی طرح پھیلتا ہے، یہ بھی اسی طرح پھیل رہا ہے، لیکن ابھی مورخہ ۳۱/ اپریل ۲۰۱۹ کو معلوم ہوا کہ ان کے ادارے المورد کی بھارتی شاخ قائم ہوچکی ہے۔جہاں سے ان کی کتابیں، رسائل اور ویڈیو لیکچرز وغیرہ کی نشر واشاعت کا کام ہورہا ہے۔
اب مجھے اپنی دینی ذمے داری محسوس ہوئی کہ ان کے فکر کی بنیادی گمراہی کو واضح طور پر پیش کیا جائے۔ تاکہ ان کی چیزیں سننے اور پڑھنے والا واقف ہو کہ اُن کے افکار کی اصل بنیاد کس غلط فکری پر ہے۔ اور ان کی آراء کیوں دین کی صحیح بنیادوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گمراہی اور اہل سنت واہل حق سے ان کا اصل انحراف کوئی معمولی قسم کا نہیں ہے۔ افسوس وہ مقام رسالت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی طور پر رسول اللہ ﷺ اس کے اہل وحق دار ہی نہیں کہ اُن کے ذریعے (قرآن کے علاوہ) دین کا کوئی عقیدہ یا عمل انسانوں کو دیا جائے۔ وہ منصب رسالت کا یہ مقام تسلیم نہیں کرتے کہ و ہ دین کا کوئی حکم قرآن کے علاوہ جاری کرے۔ ہاں مشرکین مکہ اور یہود ونصاریٰ میں جو دینی روایت جاری چلی آرہی تھی جناب غامدی صاحب کے نزدیک رسول اس کو اصلاح وتجدیدکے ساتھ جاری کرسکتا تھا۔ لیکن اللہ اپنے رسول کو اپنے بندوں کے لیے کوئی نیا اور مستقل حکم دے اور وہ دین اسلام کا کسی درجے کا بھی حصہ قرار پائے یہ نبی ورسول کا منصب ومقام نہیں ہے۔
ان کا نظریہ ہے کہ حدیث کے ذریعے دین کا کوئی نیا حکم ثابت نہیں ہوتا۔ وہ واضح طور پر منکر حدیث ہیں۔البتہ ان کے انکار حدیث کی نوعیت مشہور اور عام منکرین حدیث سے قدرے مختلف اور نسبۃً کم درجے کی ہے۔ ان کے فکر کی شاید سب سے بنیادی کتاب ”میزان“ ہے۔ اس میں انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ اور کسی اشتباہ کے بغیرصاف واضح کیا ہے کہ حدیث دین کا ماخذ ہے ہی نہیں۔ جناب غامدی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
نبی ﷺ کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی جو روایتیں زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں، اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا“
کیا اس جملے میں کسی ایسی تاویل وتوجیہ کی کوئی گنجائش ہے جس کے ذریعے یہ کہا جا سکے کہ جناب غامدی صاحب منکر حدیث نہیں ہیں؟ اور پڑھیے اس جملے کے معاً بعدتحریر کرتے ہیں:
اس مضمون کی تمہید میں ہم نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“ (میزان، صفحہ: ۱۶ ایڈیشن ۲۰۱۴)۔
کیا اب بھی کوئی اشتباہ باقی رہ جاتا ہے؟
ہاں یہاں ایک چیز غور کرنے لائق ضرور ہے۔ مندرجہ بالا عبارت میں جناب غامدی صاحب نے حدیث کے بارے میں یہ بات کہہ کر کہ حدیث کے ذخیرے کی زیادہ تر روایات اخبار آحاد ہیں، غالبا یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ حدیث کو جو دین میں حجت نہیں مانتے اس کا سبب ان کا خبر واحد ہونا ہے۔ اس طرح ان کے موقف کا شذوذواجنبیت اور عام مسلمانوں کے لیے اس سے وحشت کم ہوجائے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عبارت میں اخبار آحاد کا لاحقہ بس ایک ”شےءِ زائد“ ہے۔ جناب غامدی صاحب کے یہاں متواتر حدیث سے بھی دین کا کوئی نیا عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ اوپر مذکور ان کی عبارت میں غور کیجیے:
”یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“
یہاں غامدی نظریے کی ایک خاص بنیاد اور جان لیجیے۔ جس سے اوپر کی عبارتوں میں حدیث کے بارے میں ان کے الفاظ کہ اس سے ”عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا“ اور یہ بات کہ حدیث ”دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ“ نہیں بن سکتی، کا پورا مفہوم سمجھ میں آسکے۔
جناب غامدی صاحب نے اپنی اس کتاب میں، جو اُن کے فکر کی بنیاد ہے، بتایا ہے کہ، دین ہم تک دو صورتوں سے پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید ۲۔ سنت
https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran-home
فکر غامدی کو سمجھنے کے لیے ’’البیان‘‘ کا مطالعہ درج لنک پر جاکر کر سکتے ہیں۔
دھوکہ نہ کھا جائیے گا! صحابہ سے لے کر آج تک مسلمان سنت سے جس حقیقت کو مراد لیتے ہیں اور جس کا نام لیتے ہی ذہن وتصور میں رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ملنے والی احادیث واعمال کا خیال آتا ہے، غامدی صاحب کے یہاں سنت اس معنیٰ میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ کچھ اور ہی تصور ہے۔
جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ:
سنت سے ہماری مراددین ابراہیمی کی وہ روایت ہے“(جو عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ میں چلی آرہی تھی)، ”جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں جاری کیا(۱)“۔ (میزان صفحہ:۴۱)
اسی مقام پر غامدی صاحب کہتے ہیں کہ دین کے ماخذ بس یہی دو ہیں اور کچھ نہیں۔ فرماتے ہیں:
دین لاریب، انہی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺکے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم ”حدیث“ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو انہیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں (۲)، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ (صفحہ:۵۱)
جناب غامدی صاحب کی بنیادی گمراہی انکار حدیث ہے۔ وہ ایک نئے طرز کے منکر حدیث ہیں۔ مجھے بڑا قلبی قلق رہا کہ جس وضاحت کے ساتھ اور متعین ودوٹوک (Pin Point) نشان دہی کے ساتھ ان کی یہ گمراہی عوام کے سامنے آنی چاہیے تھی نہیں آئی۔ پاکستان میں ان کے افکار مختلف رسائل اور حلقوں میں زیر بحث آتے رہے، حیرت ہوتی تھی کہ ان کے افکار کے تجزیے میں، اہل حق کی نمائندگی کرنے والوں نے نہ جانے، کیوں ان کی تردید میں بڑی لمبی چوڑی بحثیں کیں؟ جب کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ جناب غامدی صاحب کہہ چکے ہیں کہ ملت ابراہیمی کی جو روایت رسول اللہ ﷺ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمائی اس کا نام ”سنت“ ہے اور اس کا دائرہ صرف اور صرف اعمال کی حد تک ہے۔ عقیدہ کی کوئی قسم اس سے ثابت نہیں ہو سکتی(میزان صفحہ: ۸۵)۔ ان کے نزدیک حدیث اِس سنت کے علاوہ ہے۔ اورجیسا کہ اوپر گزر چکا ان کے نزدیک حدیث سے دین میں کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہو سکتا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے جو باتیں آخرت، جنت جہنم اور دیگر عقائد کے سلسلے میں ارشاد فرمائیں اور عالم غیب کے جن بے شمار واقعات وحقائق کی خبر دی، چاہے ان کی روایت متواتر ومشہور اور صحیح ہی کیوں نہ ہو، ان سے دین اور اس کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین کے کسی عقیدے یا حکم کا ماخذ بن سکے۔
ناظرین کرام غور فرمائیں کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ آپ ﷺ ساری زندگی اپنی مجلسوں میں جو گفتگو فرماتے رہے، اورعالم غیب کی جو تفصیلی خبریں دیتے رہے اگر ان کا دین سے کوئی تعلق (بقول جناب غامدی صاحب) نہیں ہے، تو کیا وہ سب فضول اور بے مطلب باتیں تھیں؟۔
مجھے پاکستان کے بعض ان جلیل القدر علماء پر شدید حیرت ہے، جنہوں نے اس جیسی گمراہی اور کج فکری کی تردید میں بڑی لمبی چوڑی علمی گفتگو کرکے جناب غامدی صاحب کو کسی سنجیدہ علمی گفتگو کا مستحق سمجھا؟ اور ان کے ان نامعقول افکار پر فلسفیانہ گفتگوئیں کیں۔
اب غور فرمائیے وہ تمام احادیث جن میں مثلاً پل صراط اور حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول وغیرہ کی خبر دی ہے، غامدی اصول دین میں ان میں سے کسی پر دینی عقیدہ اور یقین رکھنا غلط ہے، اس لیے کہ حدیث کی یہ ”مجال“ ہی نہیں کہ وہ ہمیں کوئی عقیدہ دے سکے۔ واضح رہے کہ یہ وہ حقائق اور اخبار ہیں جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ ﷺ سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلا محال اور ناممکن ہے۔اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔
ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ضروریات دین کہتے ہیں۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں بدیہی یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔
علماء امت کا اجماع واتفاق ہے کہ ان ضروریات دین میں سے کسی ایک بات کا انکار کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ علم کلام واصول اور دیگر اسلامی علوم کی کتابوں میں اس مسئلے کو پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ آخر دور میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف اکفار الملحدین میں اس سلسلے میں عقل صریح کی روشنی میں اور علماء امت اور سلف کی بے شمار تصریحات جمع کرکے ہر صاحب فہم کے لیے مسئلے کو بے غبار کر دیا ہے۔
اپنے اسی اصول کی وجہ سے جناب غامدی صاحب حضرت عیسیٰ کی حیات اور نزول ثانی کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہوچکی۔ اب نہ وہ زندہ ہیں نہ قیامت سے قبل دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (میزان ۸۷۱)
حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی حیات اور قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے بارے میں یقینا خبر دی ہے اور پوری صراحت کے ساتھ دی ہے۔ اور آپ سے اس کی روایات متواترہیں یعنی اتنے بہت سے راویوں نے ہر دور میں بیان کی ہیں جن کے غلطی کرنے کا امکان بھی نہیں ہے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی کتاب التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں ان روایات کو جمع کر دیا گیا ہے، جس کے بعد اس میں شبہہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ ﷺ نے یقینا حضرت مسیحؐ کے قبلِ قیامت دنیا میں تشریف لانے اور عظیم کارنامے انجام دینے کی خبر دی تھی۔ مگر غامدی صاحب کے یہاں اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہو چکی ہے۔ اور ان کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کا عقیدہ بے حقیقت ہے۔ (میزان: ۸۷۱۔۰۸۱)۔ اگرچہ یقینا رسول اللہ ﷺ نے اس کی خبر دی ہے مگر ان کے نزدیک یہ چیز تو حدیث کے دائرے ہیں میں نہیں آتی ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدے یا عمل کا اضافہ ہو سکے۔
https://www.javedahmedghamidi.org/#!/mizan
فکر غامدی کو سمجھنے کے لیے ’’میزان‘‘ کا مطالعہ درج لنک پر جاکر کر سکتے ہیں۔
عقائد ہی کی طرح جناب غامدی صاحب کے دین میں رسول اللہ ﷺ کے دیے ہوئے ان احکام وقوانین کا کوئی درجہ نہیں ہے جن کی اصل قرآن میں نہیں ہے اور جو ”دین ابراہیمی کی روایت“ میں انہیں نہیں ملتے۔ ہم زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے فکر وتصور دین کا جو اصول پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ بیان کردیا ہے، اس سے خود بخود وہ تمام واجبات ومحرمات اور سنن ومستحبات دین کی فہرست سے خارج ہو جاتے ہیں جن کی اصل قرآن میں نہ ہو، اور جو دین ابراہیمی کی روایت کی حیثیت سے رائج نہ رہی ہوں۔ مثلا بے شمار احکام ایسے ہں جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے اور نہ ان کا کوئی سراغ ”دین ابراہیمی کی روایت“ میں اس طور پر ملتا ہے کہ عرب یا یہود ونصاریٰ ان پر کار بند تھے۔ مثلا سونے کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے، مردوں کے لیے سونا اور ریشم کے لباس حرام ہیں،عورتیں ماہواری ایام میں نماز نہیں پڑھیں گی، اور بعد میں ان کی قضا بھی نہیں کریں گی۔ ڈاڑھی رکھنا اور بڑھاناواجب ہے۔بات کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ وغیرہ نہ جانے کتنے حلال وحرام کے احکام ہیں جو غامدی صاحب کے اصول کے ذریعے دین کا حصہ نہیں رہیں گے اور ”خارج از اسلام“ قرار پائیں گے۔ ان کے تصور دین اور فکری اصول کا لازمی تقاضہ یہی ہے۔
جناب غامدی صاحب کا حلقہ یہاں ایسے مقامات پر احادیث کی کچھ تاویل وتوجیہ، یا تضعیف، یا قرآنی آیات سے ان کے خلاف استدلال کی کچھ کوششیں کرتا ہے۔ مگر ان کو اس تکلف کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ وہ مختصر یہ ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمارے عقیدے میں حدیث سے دین میں کسی عقیدے یا عمل کا اضافہ نہیں ہو سکتا اس لیے ہم ان باتوں کو نہیں مانتے۔ مگر عموما وہ اور ان کے متبعین اپنا عقیدہ صاف کہنے کے بجائے پردہ داری سے کام لیتے ہیں۔ اسی پردہ داری کی وجہ سے ہم کو ان کے فکر کی اس بنیادی گمراہی کو کھولنا پڑ رہا ہے۔
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست:
غامدی تصور دین میں رسول اللہ ﷺ کا یہ منصب نہیں ہے کہ ان کے ذریعے، قرآن کے علاوہ اور یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب میں چلی آرہی دین ابراہیمی کی روایت کے علاوہ، کوئی نیا دینی حکم یا سنت ومستحب عمل دیا جائے۔ وہ اگر حدیث میں دیے گئے کسی حکم کو قبول کرتے ہیں یا رسول اللہ کے حرام قرار دیے گئے کسی فعل کو حرام مانتے ہیں تو بس اسی وقت جب مشرکین عرب اور یہود ونصاریٰ کی دینی روایت میں اس کی سند مل جائے۔ اسی لیے میزان میں جو ان کے فہم دین کا مکمل صحیفہ ہے، رسول اللہ ﷺ کے جو بھی احکام قبول کیے گئے ہیں ان کی سند بھی ذکر کی گئی ہے کہ بائبل میں اس کی اصل ملتی ہے یا عربوں کی جاہلیت میں اس پر عمل تھا۔
رسول اللہ ﷺ سے تواتر سے ثابت ہے کہ آپ نے مسواک کو دینی عمل قرار دیا اور اس کا اجر وثواب بیان فرمایا۔ جناب غامدی صاحب اس کو قبول کرتے ہیں مگر کیوں؟ اس لیے کہ جواد علی نے اپنی کتاب المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام میں المحبرکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عرب مسواک کیا کرتے تھے(میزان: ۱۴۶)۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ محمد رسول اللہ کے قول کو دین قرار پانے کے لیے ابولہب، ابوجہل اور گمراہ وبد مذہب پولَس کی سند کی ضرورت ہے!!
میزان میں جناب غامدی صاحب نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کو دین تسلیم کیا ہے کہ جس کسی کا قربانی کا ارادہ ہو وہ ذی الحجہ کے شروع سے قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے نہ ناخُن(صحیح مسلم)۔ اس پر کسی نے سوال کیا کہ آپ نے اس حکم نبوی کو دین کیسے مان لیا؟ یہ تو آپ کے اصول کے خلاف ہے کہ کسی ایسی چیز کو دین مانا جائے جس کی اصل یہود ونصاریٰ یا مشرکین عرب میں چلی آرہی ملت ابراہیمی کی دینی روایت میں نہ ملتی ہو۔ اس کے جواب میں جناب غامدی صاحب کے رسالے (شمارہ نومبر ۸۱۰۲ء)میں بڑی تفصیلی تحریرشائع کی گئی، جس میں یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ غامدی صاحب کا یہ اصول ہے کہ رسول اللہﷺ کے ارشاد سے کوئی مستقل بالذات چیز اسی وقت دین کا حکم قرار پا سکتی ہے جب اس کی سند ملت ابراہیمی کی دینی روایت (یعنی عربوں کی ما قبل اسلام دینی روایت یا یہود ونصاریٰ کے یہاں) ملتی ہو، یہ دکھایا گیا کہ یہ چیز ملت ابراہیمی کی روایت میں موجود تھی، اور اس سلسلے میں بائبل کے بھی بہت سے حوالے دیے گئے۔ اور بالآخر یہ نتیجہ ثابت کیا گیا کہ غامدی اصول دین کے نقطۂ نظر کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے اس حکم کو دین کا حصہ ماننا صحیح ہے۔
لہٰذا غامدی صاحب اور ان کے حلقے کی طرف سے اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حدیث کو حجت مانتے ہیں، اور یہ کہ ان کی کتاب میزان اس اعلان سے شروع ہوتی ہے کہ دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے اور انہی کے قول وفعل اور تقریر وتصویب سے کوئی چیز دین قرار پاسکتی ہے، تو یہ بس ایک خاص قسم کی مغالطہ آرائی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایسی باتوں کے وقت اپنے اس عقیدہ واصول کو چھپا لیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم کو دین کا مستقل بالذات حصہ ماننے کے لیے شرط ہے کہ وہ دین ابراہیمی کی تاریخی روایت کا حصہ ہو یعنی: اس کی تقریر وتصویب اہل کتاب یا مشرکین عرب کریں۔
ہماری جناب غامدی صاحب سے اصرار کے ساتھ اپیل ہے کہ اگر وہ اس خطرناک گمراہی کے قائل نہیں ہیں تو صاف طور پر کہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے دین کے مستقل بالذات عقائد واحکام بھی ثابت ہوسکتے ہیں، اس کے لیے ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہونا شرط نہیں ہے۔ورنہ ان کی کتاب اور ان کے رسالے کی سالوں کی تحریریں اسی فکر کی ناطق ہیں جو ہم نے اوپر پورعلمی امانت کے ساتھ نقل کی ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے ہم کو ایسے بہت سے احکام ملے ہیں جن کا کوئی سراغ ملت ابراہیمی کی قدیم وموروث دینی روایت میں نہیں ملتا اور قرآن نے بھی ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، مگر جناب غامدی صاحب ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عیدین دین کا حصہ ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کیا عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا رواج عہد نبوی میں ملت ابراہیمی کی روایت میں کہیں تھا؟ عرب کے مشرکانہ تہوار اور میلوں ٹھیلوں کو ختم کرکے حدیث نے ہم کو عیدین کے دینی تہوار دیے۔ یہ سب حدیث ہی سے ہم کو ملا ہے۔ پھر وہ عید کی نماز کو بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ کیا عیدین کا کوئی تذکرہ قرآن میں ہے؟ کیا مشرکین مکہ بیت اللہ میں یا عیسائی ایلیاء میں اس کو قائم کرتے تھے؟ کیا یہود مدینے میں عیدین کی نماز پڑھتے تھے؟
غامدی حلقے کو نماز جنازہ کا بھی قائل نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے نزدیک دین کے جو دو اور صرف دو مآخذ قرار دیے ہیں یعنی قرآن اور ”ملت ابراہیمی کی وہ روایت جس کو آپ ﷺ نے باقی رکھا اور جاری فرمایا“ اس روایت میں ہم کو نمازہ جنازہ نہیں ملتی ہے۔ مگر غامدی صاحب اس کو دین کا حصہ مان رہے ہیں۔ یہ کسی طرح خدا کی عبادت والی وہ نماز نہیں ہے، جس کا حکم ”اقیمو الصلوٰۃ“ کہہ کر دیا گیا ہے۔ یہ اصل میں میت کے لیے دعا کی ایک واجب رسم ہے اور کوئی شک نہیں کہ خدا کی عبادت والی نماز سے بالکل الگ ایک مستقل حکم اور دین کا مستقل حصہ ہے۔ یہ تمام وہ احکام ہیں جن کو اللہ کی وحی غیر متلو کے زیر حکم منصب رسالت سے دین قرار دیا گیا۔قرآن میں اس کی طرف اشارہ ہے لیکن امت کو یہ حکم ملا رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ہی ہے۔
بوالعجبی کی انتہا:
جناب غامدی صاحب کے لیے ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ، ان کے بقول، قرآن نے جانوروں میں سے صرف چار چیزوں یعنی مردار جانور، خون (دم مسفوح)غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور اور سوَر کے گوشت کی حرمت بتائی ہے۔ باقی بہت سی اشیاء کے اللہ کی طرف سے حرام ہونے کی خبرہمںس صرف رسول اللہ ﷺ سے ملی ہے۔ مثلا تمام درندے جیسے شیر، چیتا، کتا،بھیڑیا، جانوروں میں ہاتھی گدھا، نیز پرندوں میں چیل، عقاب، گدھ،وغیرہ، تمام امت ان کوصرف ارشاد رسول ہی کی وجہ سے حرام مانتی آئی ہے۔
تو غامدی صاحب کیا کریں؟
اگر وہ یہ کہیں کہ یہ سب چیزیں حرام نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک حدیث سے تو شریعت ثابت ہی نہیں ہوتی، تو بڑی گھناونی بات ہوگی۔ اور اگر ان چیزوں کو حرام کہیں تو اپنی فکر کی ساری عمارت زمیں بوس ہوئی جاتی ہے۔
اس مخمصے کا انہوں نے ایک حل نکالا۔ اور کیا ”خوب“ حل نکالا!!
انہوں نے ارشاد فرمایا کہ یہ دراصل انسان اپنی فطرت سے ہی جانتا ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں، اور کھانے پینے کے لیے نہیں بنی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان چیزوں کو جو حرام قرار دیا ہے وہ کوئی شریعت کا بیان اور حکم نہیں ہے۔ محض فطرت انسانی کا بیان ہے۔ ان کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں (یعنی پوری امت کے تمام علماء)سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ان باتوں کو شریعت کا بیان سمجھ لیا حالاں کہ وہ صرف فطرت کا بیان ہیں۔ حال آں کہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن نے بیان کی ہیں ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ:
”جانوروں کی حلّت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلا یہ چار ہی چیزیں ہیں“۔یعنی مردار جانور، خون (دم مسفوح)غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانور اور سوَر کا گوشت۔ ”چنانچہ قرآن نے بعض جگہہ”قل لا أجد فی ما اوحی اليّ“ اور بعض جگہ ”اِنما‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ …………(میزان صفحہ: ۶۳)
باقی وہ چیزیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا جیسے تمام درندے جیسے شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا، جانوروں میں ہاتھی، گدھا، نیز پرندوں میں چیل، عقاب، گدھ،وغیرہ۔ ان کے بارے میں جنابِ موصوف فرماتے ہیں ہم حضور ﷺ کی ان باتوں کو شریعت کا بیان نہیں سمجھتے، محض فطرت انسانی کا بیان سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:
انسان کی فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ:
بعض روایتوں میں (یہ جو) نبی ﷺ نے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اُسی فطرت کا بیان ہے، جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اِسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، درآں حالیکہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
یعنی کتا، بلی، گدھا، سانپ، بچھو،چیل اور گدھ کھانامحض فطرت انسانی کے خلاف ہے، کوئی کھائے تو یہ دینی طور پر حرام نہیں ہے۔
اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ غامدی صاحب کے یہاں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے دین کا کوئی مستقل بالذات حکم ثابت نہیں ہو سکتا جب تک کے اس کی اصل ہم کو ملت ابراہیمی کی روایت میں نہ مل سکے۔
غرض بوالعجبیوں اور تضادات کی ایک دنیا ہے۔ غامدی صاحب نے ایک غلط تصور دین قائم کرلیاپھر خود ان کو اس کے نتائج کا یارا نہ رہا۔ یہاں غامدی صاحب کا اصول ان سے تقاضہ کرتا تھا کہ وہ کہیں کہ حدیث سے دین میں چوں کہ کوئی نیا حکم ثابت ہی نہیں ہو سکتا اور ”یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“ (میزان، صفحہ: ۱۶ ایڈیشن 2014ء )اس لیے ان کی حرمت کا خیال شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے کتے، بلی، گدھے، شیر چیتے، چیل، باز اور سانپ بچھو کو حرام سمجھ رکھا ہے۔ جب جناب غامدی صاحب کا اصول یہ ہے کہ ”یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“، اور اس سے” دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا“۔ (میزان: صفحہ:۵۱) تو پھر یقینا وہ کتے، بلی، چیتے، شیر، گدھے اور سانپ بچھو کو دین میں حرام نہیں کہہ سکتے۔
جناب غامدی صاحب کے انکار حدیث کا یہی منطقی تقاضہ اور لازمی نتیجہ ہے۔مگر وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ یہ تو ان کے عقیدے ومسلک سے لوگوں کو متنفر کردے گا۔ اور پھر کون مسلمان ان کے لیکچرز سنے گا اور ان کو ”اسلامی اسکالر“ مانے گا؟ اور کون ان کے حقیقی فکر کے نتائج کو سن کر کان نہ پکڑے گا کہ ایسی گمراہی سے خدا کی پناہ!!
اس لیے انہوں نے ایک مضحکہ خیز تاویل اختیار فرمائی۔ اور ایساعجیب وغریب جوڑ بٹھایا کہ یہ کسی طرح ذہن قبول نہیں کرتا کہ غامدی صاحب جیسا ذہین وزیرک انسان ایسی لچر باتوں پرکبھی اپنے دل کو مطمئن کرسکا ہوگا۔
کل کو غامدی صاحب کا کوئی خوشہ چیں ان کے اسی اصول کو لے کر یہ کہہ سکتا ہے کہ:
”استاذ امام“ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ کتا، بلی، لکڑبگھا، چیتا، ہاتھی،گدھا اورگدھ، چیل وغیرہ انسانی فطرت کی رو سے کھانے پینے کی چیز نہیں۔ نہ جانے کتنی اقوام کی مرغوب غذا میں کتا اور بندر شامل ہے۔چینیوں کے یہاں سانپ نہایت لذیذ وپسندیدہ کھانا ہے۔ جن اقوام نے یہ چیزیں نہیں کھائیں یہ ان کے ”کلچر“ کی روایت ہے۔ یہ مزعومہ کہ ان چیزوں سے ابا فطرت انسانی میں ودیعت ہے اس کی کوئی دلیل سوائے ”استاذ امام“ کے ذوق کے نہیں۔
رہی یہ بات کہ نبی ﷺ نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے؟ تو وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے کہ ہمارے موقف میں جس کو ہم نے”پوری قطعیت کے ساتھ واضح“ کردیا ہے، ”یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“۔ لہٰذا کتے، چیتے، بلی، ہاتھی، بندر، سانپ، بچھو کولوگوں نے غلط حرام قرار دے دیا ہے۔ نہ فطرت انسانی کی رو سے یہ چیزیں کھانے کے نا قابل ہیں اور نہ خدا کی شریعت کے محرّمات میں سے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس شاگرد رشید کا موقف بڑا کریہہ اور وحشت انگیز ہے، لیکن ہے سو فیصد غامدی صاحب کے اصول ومنطق اور ان کے دینی عقیدہ پر قائم۔ دین کے اگر غامدی اصول قبول کر لیے جائیں تو شریعت کے تین چوتھائی حصے کو دریا برد کرنا بس اسی جیسی چند تقریرہائے دل پذیر کا محتاج رہ جائے گا۔
سارے انحراف کی بنیاد:
سب سے بڑی حیرت کی یہ بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ورسالت کے 14 صدیوں بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ، دین کا ماخذ کیا ہے، یہ مسلمانوں کے اگلوں نے سمجھا نہ پچھلوں نے۔ میں وہ فرد فرید ہوں جو یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوا ہے کہ دین کا ماخذ کیا ہے۔
حیرت سے دماغ ششدر رہ جاتا ہے کہ جناب غامدی صاحب جیسا ایک اچھا خاصا سمجھ دار آدمی کیسی باتیں کررہا ہے! وہ کہتا ہے کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والے صحابہ ہزارہا ہزار کی تعداد میں ہوئے، یہ بھی مانتا ہے کہ وہ چمن انسانیت کے گل سرسبد اور شجر اسلام کے بہترین ثمرتھے، اور یہ بھی کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے دین کی تبلیغ وتفہیم میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ رسول، اپنے ان صحابہ کے لیے جو خلاصۂ انسانیت تھے، یہ تک واضح نہ کرسکا کہ اسلام کے ماخذ کیا ہیں؟صحابہ کے بعد امت کی جو ساری علمی تاریخ ہے جس کے تسلسل میں تابعین عظام، ائمۂ اسلام، اور بے شمارعلماء کی قطاریں کھڑی ہیں وہ سب دین کے معاملے میں (معاذ اللہ) ایسے جاہل وکم مایہ ہوئے کہ ان کو یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ دین ان کو کہاں سے لینا ہے!!
آج جناب غامدی صاحب نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح فرمائی کہ ”دین لاریب صرف دوصورتوں میں ہے: ایک قرآن اور دوسرے ملت ابراہیمی کی وہ روایت جو یہود ونصاریٰ میں اور عرب کے مشرکین میں چلی آرہی تھی، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی تائید وتصویب کے ساتھ امت میں دین کی حیثیت سے جاری کیا۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی چیز نہ دین ہوسکتی ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے“۔
پھر طرفہ دیکھیے! جناب غامدی صاحب اس قدر بڑا دعویٰ فرماتے ہیں اوردین کا ماخذ واصل (Source) ایسا نیا بیان کرتے ہیں جوآج تک کسی نے نہیں بتایا، اور ماشاء اللہ پوی کتاب ’میزان‘ اپنے اس دعوے کی دلیل سے خالی!! یعنی دلیل کے نام پر کوئی معمولی سی چیز بھی اس کی جناب پیش نہیں فرماتے کہ محمد رسول اللہ کا کوئی حکم یا تحلیل وتحریم کا کوئی ارشاد صرف اسی وقت دین اور شریعت قرار پائے گا جب وہ ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہو۔ اتنا بڑا دعویٰ، اور حجت بس یہ کہ میں یہ سمجھتا ہوں!!
سبحان مظہر العجائب! خدایا! رحم فرما۔
اس تحریر کا مقصد جناب غامدی صاحب کی تردید اور ان کے افکار کا علمی جائزہ لینا نہیں ہے۔ بس مطمح نظر یہ ہے کہ یہ واضح کردیا جائے کہ وہ بنیادی طور پر ایک خاص طرح کے منکر حدیث ہیں۔ اور یہ کھول کر سامنے رکھ دیا جائے کہ ان کے فکر ومسلک کے کیا لازمی نتائج ہیں۔
انہوں نے اپنے نزدیک جو دین طے کیا اور اپنی کتاب میزان کے دیباچہ میں اس اظہار واعلان کے ساتھ پیش کیا ہے کہ:
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ کم وبیش ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق سے میں نے اس دین کو جو کچھ سمجھا ہے،وہ اپنی اس کتاب میں پیش کردیا ہے۔
اس میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ قرار پا سکے۔ہاں اگر رسول اللہ ﷺ کے حکم وارشاد کی تائید ”ملت ابراہیمی کی روایت“سے ہوجائے تو آپ ﷺ کا حکم دین میں جگہ پا جائے گا۔ ورنہ چاہے آپ ﷺ کسی چیز کو حرام کہیں، یا اس کے مرتکب پر لعنت بھیجیں، یا اس پر اللہ کے عذاب کی وعید سنائیں، یا کسی چیز کو من جملہئ واجبات فرمائیں اور حکم دیں، وہ چیزیں ضروری یا دینی حکم کا درجہ نہیں پا سکیں گی۔ ایسے موقعے پر کسی خوبصورت سی عبارت کے ذریعے ان احکامِ رسول کو غامدی دین ومسلک میں ”لغو“ قرار دے دیا جائے گا۔ اس لیے کہ ان کے یہاں تو ”یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے“۔
جناب غامدی صاحب اپنی ان واضح عبارتوں کے باوجود اگر یہ اصرار فرماتے ہیں کہ حدیث وسنت کے بارے میں ان کا اور عام علماء سلف کا موقف حقیقت میں ایک ہی ہے، اختلاف صرف اصطلاح کا یا علمی ترتیب کا ہے، جیسا کہ انہوں نے بھی کہا ہے اور ان کے کارپردازان وکلاء صفائی گھما پھرا کر کہتے رہتے ہیں، (اور ہماری بھی دلی دعا ہے کہ ایسا ہوجائے) تو ان کو واضح طور پر اپنی اِن مذکورہ عبارتوں سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہ عبارتیں انہوں نے اپنی سب سے مرکزی کتاب میں لکھی ہیں۔ ان کا مطلب بالکل واضح ہے۔ اور خود ان کے رسالے نے اسی مفہوم کے مطابق ان کی آراء کی توجیہ کی ہے، اور یہ دکھایا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم یا عمل اسی وقت دین قرار پاتا ہے جب اس کی اصل ملت ابراہیمی کی قدیم روایت میں پائی جاتی ہو۔
اس بنیادی مسئلے کی وضاحت کے بعد ان کی تاویلات وتوجیہات اور اختراعات کے تفصیلی جائزے کی ضرورت شاید نہیں رہتی۔ان کی بعض آراء صحیح ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایسی بنیادی گمراہی کا حامل شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ قطعا نہیں رہتا۔ ایسے حضرات سے دین سیکھنا بڑی غلطی کی بات ہے۔
جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
ہم اللہ سے جہاں اپنے لیے بھی ہدایت واستقامت اور توفیق ارزانی کی دعاکرتے ہیں، اُن کے لیے بھی کرتے ہیں کہ اللہ ان کو محمد رسول اللہ ﷺ کے دین حق کی سمجھ اور امت کی بہترین نسل صحابہ کرام کے طرز پر دین کے فہم کی توفیق عطا فرمائے۔