معصوم مرادآبادی
__________________
یادش بخیر! یہ 1980 کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ہم نے میدان کارزار میں قدم رکھا ہی تھا کہ شعر وشاعری کے ذوق نے گھیرلیا۔ اس زمانے میں معیاری مشاعرے اپنے عروج پر تھے۔ یہاں دہلی میں جن مشاعروں کو بڑی اہمیت حاصل تھی، ان میں پہلا نمبر ڈی سی ایم کے مشاعرے کا تھا اور دوسرا لال قلعہ کے مشاعرے کا۔ دونوں ہی مشاعروں میں چوٹی کے شعراء شرکت کرتے تھے۔ لیکن فرق یہ تھا کہ ایک طرف جہاں لال قلعہ کے مشاعرے کا دعوت نامہ آسانی سے دستیاب ہوجاتا تھا تو وہیں ڈی سی ایم کے مشاعرے کا دعوت نامہ حاصل کرنے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ ایک روز ہم کسی طرح ڈی سی ایم کے مشاعرے کا دعوت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور شام کو ماڈرن اسکول جاپہنچے۔ اس مشاعرے کی سب سے بڑی کشش مشہور ہندوستانی شعراء کے ساتھ ساتھ ممتاز پاکستانی شعراء کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ فہمیدہ ریاض کو پہلی بار اسی مشاعرے میں دیکھا اور سنا۔ وہ پاکستان سے جلاوطن ہوکر دہلی آئی تھیں اور یہاں کی ادبی محفلوں میں سب کی توجہ کا مرکز تھیں۔ اسی دور میں انہوں نے اپنی مشہور نظم "تم بالکل ہم جیسے نکلے” کہی تھی، جو ان سے ہر مشاعرے اور نشست میں بہ اصرارسنی جاتی تھی۔ ڈی سی ایم کے اس مشاعرے میں فہمیدہ ریاض نے یہ نظم ممتاز صحافی کلدیپ نیر کے اصرار پر دومرتبہ سنائی اور سامعین کا دل جیت لیا۔ خوبصورت آنکھوں، چوڑی پیشانی اور لمبی ناک والی فہمیدہ ریاض کی آواز میں خاص سوز وگداز تھا۔ وہ اپنی بیاض ساتھ رکھتی تھیں اور اسی میں دیکھ کر اپنا کلام سناتی تھیں۔ تاہم ان کی ایک ادا ہمیں کچھ اٹ پٹی سی لگی اور وہ تھی ان کی نرم وگداز انگلیوں میں سگریٹ۔ ہم نے پہلی بار کسی شاعرہ کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تھا۔ فہمیدہ ریاض ترقی پسند تحریک کی پیداوار تھیں اور اپنے خیالات کے اعتبار سے خاصی لبرل بھی واقع ہوئی تھیں۔ ہندوستان میں ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی زبان تھی جو ہندوستان کی مٹی میں رچی بسی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زہرہ نگاہ، پروین شاکر اور کشورناہید جیسی پاکستانی شاعرات برصغیر ہندوپاک میں خاصی مقبول تھیں۔ ان شاعرات کی زبان پر فارسی اور عربی کے اثرات تھے جبکہ فہمیدہ ریاض عام فہم زبان میں شاعری کرتی تھیں۔ اپنی مقبول نظم ’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘ میں انہوں نے ہندی کے الفاظ بڑی خوبصورتی سے استعمال کئے ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے ہندوستان میں پرورش پارہی فرقہ وارانہ عصبیت کا موازنہ پاکستانی معاشرے کی شدت پسندی سے کیا ہے اور دونوں ملکوں کے انتہا پسندوں کو ایک ساتھ دوزخ میں رہنے کی نوید سنائی ہے۔
پاکستانی معاشرے کی جس گھٹن سے نکل کر وہ ہندوستان آئی تھیں، یہاں کے ایک طبقے میں اسے پروان چڑھتا دیکھ کر وہ پریشان ہو اٹھیں۔ فہمیدہ ریاض نے اپنی زندگی کے کوئی سات برس دہلی میں گزارے ۔اس دوران وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ رہیں۔ فہمیدہ ریاض ایک انقلابی شاعرہ کے علاوہ منفرد ادیب اور انسانی حقوق کی کارکن بھی تھیں۔ جدید عہد کی نمائندہ شاعرہ کے طورپر انہوں نے ادب کی دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔وہ ممتاز شاعرہ، دانشور اور مترجم ہونے کے ساتھ نسائی ادب اور روایات شکنی کا معتبر حوالہ بھی تھیں۔ انہوں نے تمام عمر جمہوریت اور حقوق نسواں کے تحفظ کے لئے جنگ لڑی ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ایک سیاسی کارکن کے طورپر سرگرم رہیں۔ وہ پاکستان میں عورتوں کی آزادی کی بھی سب سے بڑی علمبردار تھیں۔ انہوں نے 22نومبر 2018 کو جب 73برس کی عمر میں مہینوں کی علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا تو لوگوں کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ فہمیدہ ریاض اپنی اذیت ناک زندگی کے جتنے دن بھی زندہ رہیں وہ حالات سے جنگ کرتی رہیں۔زمانے نے انہیں جو دکھ دیئے تھے، وہ انہیں وقت سے پہلے ہی ماردینے کے لئے کافی تھے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی زندگی کے دن پورے کئے۔ ان کا جواں سال خوبصورت بیٹا کبیر 26برس کی عمر میں امریکہ کی ایک نہر میں ڈوب کر فوت ہوگیا۔ اس ذاتی غم کو سنبھالنے کی انہیں مہلت ہی کہاں ملی کہ جلاوطنی کا کرب جھیلنا پڑا۔ 1979 میں انہوں نے بھٹو کی پھانسی پر لکھا کہ”آج بھٹو کو نہیں جمہوریت کو پھانسی دی گئی ہے۔“ یہ جملہ ان پر اتنا بھاری پڑا کہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے کارندے ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے ارباب اقتدار کے اتنے ظلم سہے تھے کہ انہیں مرنے کے بعد بھی اس سلسلے کے ختم ہونے کا یقین نہیں تھا۔ بقول خود:
یارو بس اتنا کرم کرنا
پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی
مت کہنا جوشِ خطابت میں
دراصل یہ عورت مومن تھی
مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
مت کوشش کرنا اپنالیں حکام کم از کم لاش ہی۔
فہمیدہ ریاض 28جولائی 1945کو مغربی یوپی کے شہر میرٹھ کے ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض احمد خاں سرکاری ملازم تھے اور ان کے ٹرانسفر کی وجہ سے ان کا خاندان حیدرآباد سندھ منتقل ہوگیا۔ ابھی وہ چار سال کی ہی تھیں کہ اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئیں۔ ان کی پرورش وپرداخت والدہ نے کی۔ انہوں نے بچپن میں ہی سندھی زبان سیکھی اور سندھی ادب کا مطالعہ کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی طلباء کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔ ایوب خاں کے زمانے میں انہوں نے طلباء یونین پر پابندی کے خلاف قلم اٹھایا۔ انہوں نے اوائل عمری میں ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ زور بیان کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ محض 15برس کی عمر میں ان کی نظم احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’فنون‘ میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967میں اس وقت منظرعام پر آیا جب وہ 22برس کی تھیں۔
اسی زمانے میں ان کی شادی ہوئی اور وہ لندن چلی گئیں جہاں بی بی سی اردو سروس سے بطور براڈکاسٹر وابستہ رہیں۔ پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد ڈالی اور اپنا جریدہ ’آواز‘ جاری کیا۔ وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو ڈکشنری بورڈ کی سربراہ بھی رہیں۔شعری مجموعوں کے علاوہ ’گوداوری‘ کے عنوان سے ان کا ایک ناول بھی شائع ہوا جس کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے۔’خط مرموز‘اور ’کراچی‘ کے عنوان سے بھی ان کے ناول شائع ہوئے۔ 2011 میں ان کی کلیات ’سب لعل وگوہر‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ آصف فرخی نے ان کی نظموں کا ایک انتخاب اوکسفرڈ سے شائع کرایا۔ ’بدن دریدہ‘ (1978) آدمی کی زندگی (1999) ان کی نظموں کے مجموعے ہیں۔ان کا پہلا مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ جو 1967میں پاکستان سے شائع ہوا تھا، اس کا ہندوستانی ایڈیشن 1982میں ان کے دہلی کے قیام کے دوران مکتبہ جامعہ سے شائع ہوا۔ اسی طرح 1978میں پاکستان سے شائع ہونے والے مجموعے ’بدن دریدہ‘ کو 1987میں والی آسی نے لکھنؤ سے شائع کیا۔ انہوں نے سندھی شاعر شیخ ایاز کے کلام کا اردو ترجمہ کرنے کے علاوہ مثنوی مولانا روم کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا۔ ان کی دیگر اہم تصنیفات میں ’کیا تم پورا چاند نہ دیکھوگے‘،’گلابی کبوتر‘، ’آدمی کی زندگی‘، ’دھوپ‘،’کھلے دریچے سے‘،’حلقہ میری زنجیر کا‘، ’قافلے پرندوں کے‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد 15ہے۔
انہیں اوائل عمری میں ہی شاعری کا ذوق پیدا ہوا اوراس کا آغاز انہوں نے عشقیہ شاعری سے کیا لیکن وہ جلد ہی انسانی حقوق کی علمبردار بن گئیں۔ انہوں نے غزل کی بجائے نظم میں طبع آزمائی شروع کی۔ نظم کا میدان منتخب کرنے کی وجہ انہوں نے خود یہ بتائی کہ وہ قافیہ اور ردیف کے لئے شاعری نہیں کرنا چاہتیں لیکن شاید اس کی ایک وجہ غزل کی روایت اور اس کے موضوعات بھی تھے کہ وہ ’عورتوں سے باتیں کرنے‘ کی نہیں بلکہ ’عورتوں کی بات‘ کرنے کے لئے شاعری کررہی تھیں۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورت کے اپنے وجود کا بھرپور احساس نمایاں ہے۔ فہمیدہ کی عورت دوسروں کے وجود کا سایہ نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت ہے۔ 1973میں دوسرے شعری مجموعے ’بدن دریدہ‘ کی اشاعت کے بعد ان پر فحاشی کے الزامات عائد کئے گئے۔
ان کی شاعری کو غیر شائستہ قرار دیا جاتا رہا کیونکہ انہوں نے جنس، تخلیق اور بہت سے منفرد موضوعات پر قلم اٹھایا۔ فہمیدہ کی شاعری میں مشرقی عورت کی مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں اور بیسویں صدی کی عورت کی روایات سے آزاد اور خود مختار ہونے کی خواہش بھی۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت اور مرد کو برابری مل سکے۔ جہاں عورت دوسرے درجے کی مخلوق نہ ہوں۔ آمنہ مفتی نے بی بی سی اردو سروس کے لئے ان کے انتقال پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے لکھا تھا:
”فہمیدہ کو لکھنا تھا، وہ سب جو وہ محسوس کرتی تھی۔ وہ مناظر جو عام نظر سے پوشیدہ تھے مگر اس کی سیاہ آنکھ کی پتلی انہیں پردوں میں بھی بھانپ لیا کرتی تھی۔ وہ انسانوں کے باطن سے اٹھتی سڑاند کو سونگھ لیا کرتی تھی۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی بصارت خون کے ان دھبوں کو بھانپ لیا کرتی تھی جو آستینوں پہ سوکھ کے کتھے کے سے بھورے داغ بن جاتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کا فرد منافقوں کے معاشرے میں کب قبول کیاجاتا ہے۔ اس کے لفظوں کی طاقت، اس کے لفظوں کا آہنگ، اس کے لہجے کی تپک سہی نہیں گئی۔“
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مارشل لاء کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں انتہائی اذیت والی زندگی گزارنے والی فہمیدہ ریاض کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور بے شمار اعزازات سے بھی نوازا گیا اور ان کی پذیرائی بھی ہوئی لیکن وہ تمام عمر ایک کرب اور بے چینی کا شکار رہیں۔ ایسا ہی کرب جو اپنی ہی طرح زندگی گزارنے والوں اور ایک عقیدے و نظریے پر قائم رہنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ فہمیدہ ریاض دراصل ایک بے چین روح کا نام تھا وہ ہمیشہ جمہوری قدروں اور نسائی حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہیں اور انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی جگہ نرم ونازک خدوخال والی کوئی دوسری خاتون ہوتی تو نہ جانے کب کا حالات سے سمجھوتہ کرلیتی لیکن فہمیدہ ریاض کی سرشت میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑنا لکھا ہوا تھا۔ سماج کی روایتی قباحتوں سے بغاوت اور ظلم وناانصافی کے خلاف مزاحمت ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔
فہمیدہ ریاض کی شاعری پر اعتراض کرنے والوں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو عصمت چغتائی کے فکشن کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن فہمیدہ ریاض کسی کے اعتراض یا چڑھی ہوئی بھنوؤں کی پروا کب کرتی تھیں۔ وہ نظمیں لکھتی رہیں اور لفظوں کا جادو جگاتی رہیں۔ انہوں نے صرف اپنی جدوجہد کو قلم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان کارزار میں بھی اسی زوروشور کے ساتھ اتریں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اپنی جرأت اور بے باکی کی بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن انہوں نے لڑتے ہوئے جان ہاری۔