تاثرات
سید عباس، پونے، مہاراشٹر
_______________
پس غروب روشنی
مصنف: سید سعادت اللہ حسینی
صفحات: 384، قیمت: 400 روپے
ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
رابطہ نمبر: 9891051676
_______________
” پس غروب روشنی” ایک کتاب ہی نہیں بلکہ تحریک اسلامی کے اکابرین کے حالات زندگی اور ان کی فکر اور ان کے عمل کی گویا کہکشاں سجی ہے۔ درخشاں ستاروں کی مانند تحریک کی عظیم شخصیات کے خاکوں کا یہ منفرد اور شاہکار مجموعہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس شاہکار مجموعہ میں ان شخصیات کی حیات اور تعلیمات کو بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا گیا ہے۔ مصنف کی تحریر ان شخصیات کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کو نہ صرف خوبصورت انداز میں اجاگر کرتی ہے بلکہ تحریک اسلامی سے ان حضرات کی گہری وابستگی اور تحریک کے تناور شجر کی آبیاری میں ان کی لگن اور سوچ وفکر کے منفرد زاویوں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ اور پھر ان شخصیات سے آپ کی ملاقاتیں اور ذاتی تعلقات ان زاویوں کو خوب اجاگر کرتے ہیں۔
میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ زیر نظر مجموعہ کی بلند قامت شخصیات میں سے ایک عظیم شخص سے میرا ذاتی تعلق رہا ہے اور پھر یہ تعلق ایک مستحکم رشتہ میں بدل گیا ۔ جی ہاں ! مرحوم ہدایت اللہ حسینی صاحب سے رفاقت کی مجھے سعادت حاصل رہی ہے۔ اپنی ملازمت کے ابتدائی ایام میں جائیکواڑی پراجیکٹ پر مجھے چند ماہ ہی سہی اس ولی صفت شخص کا پڑوسی ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ پھر میرے تبادلے مختلف مقامات پر ہوتے رہے اور برسوں بعد شہر ناندیڑ میں دوبارہ ہمارا ساتھ ہوا۔ ہمارے آفیس الگ تھے لیکن مسجد میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، خوب شفقت سے ملتے اور محکمہ جاتی کاموں میں بڑی محبت سے رہنمائی فرماتے جو مرحوم کے مزاج کا خاصہ تھا۔ میں اپنے پرموشن کے بعد آفیس کے معاملات سے اکتا کر بلکہ چڑ کر قبل از وقت مستعفی ہو گیا تھا۔ لیکن مرحوم نے اپنے مشفقانہ انداز میں مجھے اس نقصان دہ اقدام سے باز رکھا اور استعفی واپس لینے پر آمادہ کیا تھا۔ اس وقت مخصوص انداز میں میرے کندھے اور پیٹھ پر ان کا وہ ہاتھ پھیرنا مجھے آج بھی یاد ہے اور اکثر اپنی کسی پریشانی کے عالم میں اس لمس کو میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ مرحوم اپنے والدین کے تجویز کردہ نام "ہدایت اللہ” کے اسم بامسمی تھے۔ خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کے لۓ ہدایت کا ذریعہ! مصنف اس کتاب میں بجا طور پر رقمطراز ہیں کہ ان کی رحلت کے برسوں بعد بھی ان کا ہمارے بیچ ہونے کا ایک عجیب سا احساس ہوتا رہتا ہے۔ بے شک ولی صفت شخصیات اس جہاں سے جاکر بھی ہم پر سایہ فگن رہتی ہیں ۔ بہرکیف میں یہی کہوں گا اس عظیم شخصیت کے رابطے میں رہا ہر وہ شخص جو اس کتاب کا مطالعہ کرے گا، یہی کہے گا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے جو لفظوں میں ڈھل گئی ہے۔
ہاں ! حامد حسین صاحب(مرحوم لکھتے ہوۓ قلم رک سا جاتا ہے)، جناب کمالی ماسٹر صاحب اور جناب شیخ چاند صاحب سے میری واجبی سی واقفیت رہی ہے،البتہ جناب فیروز خاں غازی صاحب سے بھی "دور سے دیکھا کئے” کے باوجود کبھی ملاقات کاشرف حاصل نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں تھا کہ اس سیدھی سادی شخصیت میں خوبیوں ایک سمندر موجزن ہے۔
کتاب مصنف کے گہرے مشاہدے کا مظہر ہے اور اپنے مشاہدات کو آپ نے بہت ہی خوبصورت اور جذباتی انداز میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ سلیس زبان اور بہترین طرز تحریر کتاب کی اضافی خصوصیت ہے۔ ہر شخصیت کے لئے عمدہ اور جدت آمیز عنوانات آپ کی دلنشین طرز تحریر کے غماز ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے تحریک کی بیشتر مقتدر شخصیات کے حالات زندگی، فکر وعمل اور تحریک کے تئیں ان کی بے لوث وبے مثال قربانیوں سے کماحقہ واقفیت ہوتی ہے اور یہ سوچ کر رشک بھی آتا ہے کہ زندگیاں یوں بھی گذاری جاتی ہیں۔ اللہ تعالی انہیں ان کے مجاہدانہ طرز زندگی کا آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے۔
مصنف زیر نظر کتاب میں ایک جگہ رقمطراز ہیں کہ ہماری بڑی شخصیتوں پر مضامین لکھنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی رہنمائی ہو اور نوجوان انہیں اپنے لئے نمونہ بنائیں اور اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ پر کیا جاسکے۔
اللہ کرے ہماری نوجوان نسل اس کو اپنی گرہ میں باندھ لے جو کہ ان کی تربیت کا بلاواسطہ وسیلہ بھی ہے!
دعا ہے کہ "پس غروب روشنی” کی تابناک کرنیں تحریک کی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں۔