حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت: ایک مختصر جائزہ
محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
_________________
تہران: 31 جولائی 2024 کو ایرانی دارالحکومت تہران میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اپنے محافظ سمیت شہید ہو گئے۔ اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے جب انہیں قیام گاہ پر نشانہ بنایا گیا۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، ایران کی پاسداران انقلاب اور حماس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے، تاہم اسرائیل نے تاحال اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق رات 2 بجے تہران کے قلب میں میزائل داغا گیا تھا جہاں اسماعیل ہنیہ اپنے محافظ سمیت ٹھہرے ہوئے تھے۔ حماس نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔
زندگی اور کارنامے
اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ کے طور پر، انہوں نے فلسطینی کاز کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔ ان کے خاندان کے کئی افراد غزہ جنگ کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ ان کی شہادت فلسطینی مزاحمتی تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
ایرانی پاسداران انقلاب نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا۔ ایرانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائی جائیں گی۔
حماس نے اس واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ملوث افراد کو سزا دی جائے گی اور اسرائیل کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس واقعے کے بعد فلسطین کے مقبوضہ علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
فلسطین کے لیے ایک عظیم نقصان
اسماعیل ہنیہ کی شہادت فلسطینی عوام کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ ان کی قیادت میں حماس نے نہ صرف فلسطینی حقوق کے لیے جدوجہد کی بلکہ عالمی سطح پر بھی فلسطینی مسئلے کو اجاگر کیا۔ ان کی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی تحریک میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے، لیکن حماس اور فلسطینی عوام نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
اسماعیل ہنیہ کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی شہادت نے ایک بار پھر عالمی برادری کی توجہ فلسطینی مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے اور اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔