محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
غوث العالم مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانیؒ برصغیر کے مشہور و معروف صوفی بزرگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو دین کی خدمت اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کیا۔ ان کی شخصیت اور خدمات کو تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ان کی ولادت، تعلیم، روحانی منازل، خلافتیں، تصانیف اور معاشرتی خدمات کا جامع جائزہ اس مقالے کا مقصد ہے۔
ولادت اور خاندانی پس منظر
مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانیؒ کا اصل نام سید اشرف تھا۔ آپ کے والد گرامی کا نام سلطان سید محمد ابراہیم نور بخشی تھا جو سلطان سید عماد الدین شاہ نور بخشی سمنانی کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام حضرت بی بی خدیجہ تھا جو اولاد شیخ احمد یسوی سے تھیں۔
آپ کا سلسلہ نسب 20 واسطوں سے امام جعفر صادق، 23 واسطوں سے امام حسین، اور 25 واسطوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے، سید اسماعیل اعرج رضی اللہ عنہ کے ذریعے۔ آپ کا مادری نسب بی بی نصیبہ ہمشیرہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
آپ کی ولادت 708ھ/1309ء (دوسرے قول کے مطابق 712ھ/1313ء) میں ہوئی۔
حفظ قرآن و تکمیل علوم
مخدوم اشرف نے سات سال کی عمر میں 715ھ/1315ء میں حفظ قرآن اور قراءت عشرہ مکمل کی۔ آپ نے 14 سال کی عمر میں 722ھ/1322ء میں علوم و فنون مروجہ کی تکمیل کی۔ 25 سال کی عمر میں 723ھ/1333ء میں آپ کی تخت نشینی ہوئی اور دس سال تک حکومت کے فرائض انجام دیے۔
بیعت و خلافت
آپ نے 735ھ/1335ء میں سمنان سے پنڈوہ شریف، بنگال کا سفر کیا اور حضرت شیخ علاء الحق والدین چشتی گنج نبات کے ہاتھ پر بیعت و خلافت حاصل کی۔
پنڈوہ میں اولین قیام
آپ نے پنڈوہ شریف میں 735ھ-741ھ/1335-1341ء تک چھ سال اولین قیام فرمایا۔ 742ھ/1342ء میں آپ پنڈوا شریف سے روانہ ہوئے۔
سفر و سیاحت
742ھ/1342ء میں آپ جون پور آئے اور وہاں سے مختلف بلاد شرقیہ و ممالک اسلامیہ کی سیر فرمائی۔ آپ نے جزیرۃ العرب، مصر، شام، عراق، اور ترکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں کا سفر کیا۔ اس دوران آپ نے مشہور علما، مشائخ اور اولیا اللہ سے ملاقاتیں کیں اور فیوض و برکات حاصل کیے۔
750ھ/1350ء میں آپ کے مشہور مرید و خلیفہ حضرت حاجی نظام یمنی داخل سلسلہ ہوئے۔
ہندوستان واپسی
758ھ/1357ء میں آپ ہندوستان واپس آئے۔ بلاد شرقیہ کی سیاحت سے واپسی کے بعد آپ نے دوسری بار پنڈوہ شریف، نزد مالدہ، مغربی بنگال کا سفر کیا اور چار سال تک اپنے پیر و مرشد کے فیوض و برکات حاصل فرمائے۔
764ھ/1363-1364ء میں آپ نے جیلان تشریف لے جا کر اپنے بھانجے نورالعین حضرت سید عبدالرزاق جیلانی ابن حضرت سید عبدالغفور جیلانی کو اپنی فرزندگی میں قبول فرمایا۔
ملاقاتیں اور مناصب
پہلے دورۂ ہند کے دوران آپ نے مخدوم جہانیاں جہان گشت سید جلال الدین بخاری سے ملاقات فرمائی۔
768ھ/1367ء میں آپ نے دوبارہ ہندوستان واپس آ کر ممالک شرقیہ کی دوسری سیاحت مکمل کی۔
770ھ/1369ء میں گلبرگہ شریف، دکن میں آپ کو منصب غوثیت عطا ہوا۔
782ھ/1381ء میں روح آباد کچھوچھہ شریف میں آپ کو ’’محبوب ربانی‘‘ کا خطاب ملا۔
تعمیر آستانہ اشرفیہ
793ھ/1391ء میں آپ نے آستانہ اشرفیہ کی تعمیر کی، جس کا مادۂ تاریخ ’’عرش اکبر‘‘ ہے۔
پنڈوہ شریف میں آخری حاضری
801ھ-803ھ/1399-1401ء میں آپ نے پنڈوہ شریف میں آخری بار حاضری دی اور پیر و مرشد کے وصال کے بعد پیر زادہ حضرت نور قطب عالم پنڈوی کو جانشین مقرر کیا۔
وصال
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کا وصال 28 محرم الحرام، 808ھ/1405ء-1406ء میں روح آباد، کچھوچھہ مقدسہ میں ہوا۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی ولادت 712ھ/1313ء میں ہوئی اور آپ نے 120 سال عمر پائی اور 832ھ/1429ء میں وصال فرمایا۔
جانشین
آپ کے جانشین حضرت مخدوم آفاق عبدالرزاق نورالعین جیلانی اشرفی کچھوچھوی تھے۔
علمی و روحانی اسناد
آپ نے مختلف مشائخ سے علمی و روحانی اسناد حاصل کیں، جن میں محدث مکہ امام عبداللہ یافعی شافعی، امام نجم الدین کبریٰ، حضرت امام بابا مغرج، اور حضرت معلاج احمد حقانی شامل ہیں۔
خلافتیں
آپ نے مختلف سلاسل کی خلافتیں حاصل کیں، جن میں سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ، سلسلہ عالیہ قادریہ جیلانیہ، سلسلہ عالیہ قادریہ جیلانیہ بخاریہ، سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ جلالیہ، سلسلہ عالیہ حسنیہ حسینیہ، سلسلہ کبرویہ، سلسلہ زاہدیہ، سلسلہ شطاریہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ مداریہ، سلسلہ تابعیہ خضریہ، اور سلسلہ تابعیہ رضائیہ شامل ہیں۔
بیش بہا تصانیف:
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کی بیش قیمت تصانیف میں ترجمہ قرآن بزبان فارسی، رسالہ تصوف و اخلاق، رسالہ حجۃ الذاکرین، بشارۃ المریدین و رسالہ قبریہ، تحقیقات عشق، رسالہ غوثیہ، رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفا راشدین، بشارت الاخوان، ارشاد الاخوان، فواید الاشرف، اشرف الفوائد، رسالہ بحث وحدت الوجود، مکتوبات اشرفی، اشرف الانساب، مناقب السادات، فتاویٰ اشرفیہ، دیوان اشرفی، شرح ہدایہ، نحو اشرفیہ، شرح عوارف، شرح فصوص الحکم، فوائد العقائد، اصول فصول، شرح تربیت و بیان، بحرالاذکار، بشارۃ الذاکرین، تنبیہ الاخوان، زیچ سامانی، تفسیر نور بخشیہ، کنزالاسرار، اور مکتوبات اشرفی شامل ہیں۔
نتیجہ
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کی زندگی اور خدمات اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ آپ کی تعلیمات، تصانیف، اور خدمات نے مسلمانوں کی فکری اور روحانی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی شخصیت آج بھی اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کے تفصیلی حالات کے لیے لطائف اشرفی، صحائف اشرفی، حیات غوث العالم، حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی، اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ جیسی کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
آپ کی زندگی کا ہر پہلو ایک مثال ہے اور آپ کی خدمات کو یادگار بنانے کے لیے آپ کے بارے میں مزید تحقیق اور مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔