محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
__________________
بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں ہو رہے عوامی احتجاج اور مظاہروں نے آج رنگ لایا، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو استعفیٰ دینا پڑا اور ملک سے فرار ہونا پڑا۔ فوج نے شیخ حسینہ کو 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا جس کے بعد انہیں استعفیٰ دینا پڑا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے باہر جانا پڑا۔ جن مظاہرین کو گولی مارنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اب وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر ملک میں جشن کا ماحول ہے اور عوام ایک نئے دور کی امید کر رہے ہیں۔
شیخ حسینہ: زندگی اور تاریخ
شیخ حسینہ، بنگلہ دیش کی ایک اہم سیاسی شخصیت اور ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم، 28 ستمبر 1947 کو پیدا ہوئیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ ان کی زندگی اور سیاسی کیریئر پر ایک نظر ڈالنا بنگلہ دیش کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے اہم ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
شیخ حسینہ نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی۔ انہوں نے 1968 میں یونیورسٹی آف ڈھاکہ سے گریجویشن کیا۔ ان کی تعلیم اور ابتدائی زندگی میں ان کے والد کا کردار بہت اہم رہا، جو بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے سب سے بڑے رہنما تھے۔
سیاست میں داخلہ
شیخ حسینہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1981 میں کیا جب انہیں بنگلہ دیش عوامی لیگ کی صدر منتخب کیا گیا۔ ان کی قیادت میں عوامی لیگ نے کئی سیاسی چیلنجز کا سامنا کیا اور 1996 میں پہلی بار حکومت میں آئی۔ ان کی سیاست کا بنیادی مقصد بنگلہ دیش کو ایک مستحکم اور خوشحال ملک بنانا تھا۔
وزارت عظمیٰ کی پہلی مدت (1996-2001)
شیخ حسینہ نے 1996 میں پہلی بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی پہلی مدت میں انہوں نے کئی اہم اقدامات کیے جن میں معاشی اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری، اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ شامل ہیں۔ اس دوران بنگلہ دیش کی معیشت میں استحکام آیا اور عوامی سطح پر کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے۔
وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت (2009-2018)
2008 کے انتخابات میں عوامی لیگ کی شاندار فتح کے بعد شیخ حسینہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں۔ اس دوران انہوں نے معاشی ترقی کو فروغ دینے، بجلی اور توانائی کے شعبے میں بہتری لانے، اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے اہم اقدامات کیے۔ ان کی حکومت نے ڈیجیٹل بنگلہ دیش کے منصوبے کا آغاز کیا جس کا مقصد ملک کو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں لانا تھا۔
وزارت عظمیٰ کی تیسری اور چوتھی مدت (2018-2023)
شیخ حسینہ نے 2018 میں سہ بارہ انتخابات جیت کر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس دوران ان کی حکومت نے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی توجہ دی۔ ان کی قیادت میں بنگلہ دیش نے کئی اہم بین الاقوامی معاہدے کیے اور علاقائی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ تاہم، ان کی حکومت پر تاناشاہی کے الزامات بھی لگتے رہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
احتجاج اور استعفیٰ
حال ہی میں بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس کا مقصد شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔ ان مظاہروں میں شدت آنے کے بعد فوج نے وزیر اعظم کو 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا جس کے نتیجے میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ شیخ حسینہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ مظاہرین کی کامیابی کے بعد ملک میں جشن کا ماحول ہے اور عوام ایک نئے دور کی امید کر رہے ہیں۔
تاناشاہی کا انجام
یہ واقعات یاد دلاتے ہیں کہ تاناشاہی کا انجام ایک دن اسی روپ میں سامنے آتا ہے۔ بنگلہ دیش کی عوام نے اپنے حقوق کے لئے لڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی بھی حکومت زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتی۔ اس تبدیلی کے بعد ملک میں جشن کا ماحول ہے اور لوگ ایک نئے دور کی امید کر رہے ہیں۔
شیخ حسینہ کی زندگی اور ان کی سیاسی سفر کے اتار چڑھاؤ نے بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی حکومت کے دوران ملک نے بہت سی ترقی کی، مگر ان کی تاناشاہی حکومت کا انجام ایک یاد دہانی ہے کہ جمہوریت اور عوامی حقوق کی بالادستی ہی کسی بھی ملک کی اصل طاقت ہے۔ ان کی قیادت نے بنگلہ دیش کو ایک نئی راہ پر گامزن کیا، مگر ان کی طرز حکمرانی اور اس کے انجام نے یہ ثابت کیا کہ عوام کی رائے اور حقوق کا احترام ہی کسی بھی حکومت کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔
ہندوستان میں تبدیلی کی امید
شیخ حسینہ کی تاناشاہی حکومت کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے عوام کے ذہنوں میں بھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہاں کب ایسا دن دیکھنے کو ملے گا؟ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت بھی تاناشاہی کے راستے پر گامزن ہے اور بہت سے لوگ ان کی حکومت کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ عوامی احتجاج اور جمہوری حقوق کی حفاظت کے لئے جدوجہد ایک دن ہندوستان میں بھی تبدیلی لا سکتی ہے۔ جمہوریت کی طاقت اور عوام کے حقوق کا احترام ہی کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ بنگلہ دیش کی حالیہ صورتحال ایک سبق ہے کہ عوام کی طاقت کے سامنے کوئی بھی تاناشاہی حکومت زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتی۔
شیخ حسینہ کی زندگی کی داستان آئندہ نسلوں کے لئے ایک سبق آموز داستان کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ہندوستان کے عوام بھی اس داستان سے سبق لے کر جمہوریت اور حقوق کی جدوجہد میں اپنی طاقت کو پہچان سکتے ہیں اور ایک بہتر مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔