حضرت سیدناحافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ
✍️ مولانامحمد محفوظ قادری
________________________
اللہ رب العزت اپنے مقرب ومحبوب بندے اولیاء کاملین کا ذکرفرماتے ہوئے اپنی مقدس کتاب قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے’’بیشک وہ( لوگ)جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے،ان پر فرشتے اتر تے ہیں،کہ نہ ڈرواور نہ غم کرو اورخوش رہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے‘‘۔ (قرآن)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انبیاء کرام ومرسلین عظام کو جلوہ گر فرمایا اور سب نے اپنے اپنے دور میں اللہ کے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ہمارے آخری بنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیااب قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔اس ہدایت ورہبری کے سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے اولیاء کرام بھیجے گئے تا قیامت یہ سلسلہ ان کے ذریعہ جاری رہے گا۔
اللہ کے وہ خاص بندے جو اس کی ذات وصفات کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنے رب کی عبادت وریاضت میں لگے رہتے ہیں ان کو اللہ رب العزت اپنا قرب خاص عطا فرماتا ہے ان ہی نیک بندں کو اولیاء کاملین کہتے ہیں ان خوش نصیب بندوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوتا اور نہ غم ان مقبولان بارگاہ سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
یہ کرامتیں درحقیقت انبیاء کرام کے معجزات کی جھلک ہوا کرتی ہیں۔یہ اولیاء کاملین اللہ کے محبوب بندے و مقربان بارگاہ ہوا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر یہ گوارہ نہیں کہ کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے،ان اولیاء صالحین کی تعریف و شان کوبیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے،اور بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ محبوب چیز وہ ہے کہ جو میں نے اس پر لازم کی ہے اور میرا بندہ فرائض و واجبات کے علاوہ بھی نوافل کی کثرت سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرامحبوب بندہ بن جاتا ہے اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے (یعنی اللہ کا ولی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں سنتا ہے)اور میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے(اللہ کا ولی وہی دیکھتا ہے جو اس کارب چاہتا ہے)اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ پکڑتا ہے (اللہ کے ولی کے ہاتھ ظلم وگناہ میں مبتلا نہیں ہوتے)اور میں اس کے قدم ہوجاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چلتا ہے(اللہ کے ولی کے قدم برائی کی طرف نہیں اٹھتے)اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تومیں اسے پناہ بھی عطا فرماتا ہوں۔( بخاری شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرابندہ ایک بالشت میری طرف کو بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف کو بڑھتا ہوں،اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف کو بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف کو بڑھتا ہوں،اور جب وہ دو ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں۔(مسلم شریف)
اولیاء کرام کے مقام کو ظاہر کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اوران سے فرماتا ہے کہ میں فلاں (بندے)سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جبریل علیہ السلام آسمان پر ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں (بندے)سے محبت فرماتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کروپھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں،پھر اس بندے کی (محبت و مقبولیت) زمین پر رہنے والوںکے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔ اگراللہ تعالیٰ کسی بندے کو (اس کی نافرمانی کی وجہ سے)ناپسند فرماتا ہے تو جبریل کو بلاکر فرماتا ہے میں فلاں شخص کو ناپسند کرتا ہوں تم بھی اسے ناپسند کروپھر جبریل علیہ السلام بھی اسے پسند نہیں کرتے ہیں،پھر وہ آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے کو پسند نہیں فرماتا ہے تم بھی اسے پسند نہیں کروپھر وہ بھی ا سے پسند نہیں کرتے ہیں،پھر اس بندے کیلئے زمین والوں کے درمیان بھی نفرت رکھ دی جاتی ہے۔(مسلم شریف)
الغرض اللہ رب العزت کے دربار عالی میں پہنچنے کے دو طریقے ہیں ایک’’جذب‘‘ دوسرے’’سلوک‘‘۔جذب اس حالت کو کہتے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل وکرم سے بہت ہی جلد بغیرعبادت و ریاضت اورمجاہدے کے اپنے بندے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ایسی ہستی کو مجذوب،محبوب،مخلَص،مُراد کہتے ہیں۔جذب کی حالت میں ہوش وہواس باقی نہیں رہتے اور آدمی پر ایسی کیفیت و حال طاری ہوجاتا ہے کہ وہ دیکھنے میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔اس جذب کی حالت میں مجذوب شریعت مطہرہ کا بھی مکلف نہیں رہتاکیونکہ شریعت کا مکلف ہونے کیلئے ہوش وحواس کی ضرورت ہونی چاہئے ۔اس حال والے فقیر،صوفی،درویش کو ’’مجذوب‘‘ کہتے ہیں۔دوسرے طریقہ سلوک میں انسان کو آہستہ آہستہ ترقی وعروج اور بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔ایسے بندے کو مخلِص، عاشق اور مُرید کہتے ہیں۔یہ بندہ اپنے ہوش وحواس میں رہتا ہے اورشریعت کا بھی مکلف ہوتا ہے۔ایسے فقیر،درویش،صوفی کو ’’سالک‘‘ کہتے ہیں۔
کچھ بندے اللہ کے ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر اس کی خاص عنایات ہوتی ہیں اور ان کو جذب و سلوک دونوں منزلوں سے گزارتا ہے۔اگر مرشد معظم وشیخ کامل کی دربار الٰہی میں اعلیٰ درجہ کی رسائی ہے تو ایسا شیخ کامل اپنے مرید کی جذ ب کے ذریعہ بہت جلد دربارالٰہی تک رسائی کرادیتا ہے،یہ دربار الٰہی تک رسائی جذبی کہلاتی ہے۔خدا رسیدہ ہونے کے بعد مرشد کامل جذبی کیفیت سے نکال کر اسے میدان سلوک کی طرف لگا دیتا ہے۔میدان سلوک میں سالک آہستہ آہستہ اعلیٰ منازل طے کرتا رہتا ہے۔اس مرتبہ ومقام والے صوفی کی اہمیت ومقام کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویہد ی الیہ من ینیب’’اللہ چن لیتا ہے اپنی بارگاہ کیلئے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی بار گاہ کی اُس کو جو جھکتاہے‘‘(قرآن)
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مکاتیب میں تحریر فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرور کونین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بیعت کرتے تو نگاہ مصطفی سے آنے واحد میں خدا رسیدہ ہوجایا کرتے تھے اور یہ خدا رسیدگی ان کی جذبی ہوتی تھی پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میدان سلوک کی راہیں طے کرانے کیلئے عبادات،ریاضات اورمجاہدات کراتے تھے اوراِن اعمال کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے اورحضرات صحابہ جذب و سلوک کا پیکر ہوجاتے تھے۔(از۔۔فیوضات وزیریہ)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہوئے شمالی ہندوستان کے خطہ روہیل کھنڈ کے سردارسلطان الاولیاء حضرت سیدنا حافظ شاہ جمال اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔جو صوبہ لاہور کے مضافات میں ایک قصبہ گجرات شاہ دولہ کے نام سے مشہور ہے اس قصبہ میں حضرت سیدنا غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے ایک بزرگ رہاکرتے تھے ان کا نام سید سلطان شاہ تھا۔عرف عام میں ان کو سید محمد روشن کہتے تھے ان کے یہاں فضل الٰہی سے ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کی پیشانی سے رشدوہدایت کا نور چمک رہا تھا۔جس کے وجود کی شمع سے راز ولایت کی کرنیں روشن تھیں یہ بچہ گھر میں سب کا محبوب نظر تھا اسم مبارک ’’سید محی الدین‘‘ رکھا گیاجمال اللہ،محی سنن نبویہ،مروج شریعت،قطب ارشاد،قیم طریقت،غوث زماں،قطب عالم اور سلطان الاولیاء جیسے القاب سے آپ مشہور ہوئے۔
پیدائش کے چند روز بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت غوث اعظمؒ نے آپ کو تلقین فرمائی۔اس تلقین کے اثرات جب حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ رامپور تشریف لائے اس وقت ظاہر ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:
- فقیہ عصر مفتی آل مصطفی مصباحی کٹیہاری
- شرد پوار پر تنقید فایدہ کے بجائے؛ نقصان نہ پہنچ جائے
- شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
- علم و فضل کے کوہ طور مفتی عبدالشکور
شاہ امام الدین صاحبؒ بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد بزرگ وار کو انتہائی محبت کے سبب اس قبلہ زمن کی خدمت میں مرتبہ معشوقی حاصل ہوگیا تب حضرت حافظ صاحبؒ ان کے سامنے اپنے احوال ظاہر فرمادیا کرتے تھے ایک روزحضرت شاہ امام الدین صاحبؒ کے والد نے حضرت سےعرض کی کہ مشہور ہے کہ آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت غوث اعظمؒ نے شیر خوار گی کے زمانہ میں تلقین فرمائی تھی تو حضرت حافظ صاحبؒ نے فرمایا کہ حالت شیرخوار گی کی کس کوخبر،مگر بچپن ہی تھا کہ پھر اُسی روز سے بے خودی اور بے خبری میرے اندرایسی پیدا ہوئی کہ کچھ عرصہ کے بعد اپنے وطن سے نکل کر وزیر آباد آیاجو پنجاب کا ایک قصبہ ہے،اس مقام پرایک باعمل بزرگ رہتے تھے جن سے بے شمار کرامتیں ظاہر ہو چکی تھیں میں نے ان کی شاگردی اختیار کی،عرصئہ دراز تک ان کی خدمت کرتارہا ان ہی سے قرآن پڑھا وحفظ کیا ساتھ ہی روحانی فوائد بھی حاصل کئے۔کچھ عرصہ کے بعد ان درویش کامل نے میرے احوال پر نظر ڈالی اورارشاد فرمایا کہ اے جمال اللہ! تمہاراحصہ ہندوستان میں تیار رکھاہے ہند کی طرف جلدی جاؤاور اپنی امانت حاصل کرو کثیر مخلوق خدا تم سے فیضیاب ہوگی۔
اس خوش خبری کے بعد ان بزرگ عامل نے مجھے کچھ اورادووضائف کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔اس کے علاوہ مجھے وہ تلقین جو بچپن میں ہوئی تھی دوبارہ حاصل ہوئی اور میں نے مشاہدئہ ثانی کو پہلے کے مطابق پایا۔اس کے بعد استاد محترم کی اجازت سے وزیر آبادسے روانہ ہوااور سفر کرتا ہوا دہلی پہنچاوہاں شاہ جہاں آباد کی آبادی سے باہر ایک مسجد تھی جس کے تین دروازے تھے مسجد کے آس پاس آبادی بالکل نہیں تھی چاروں طرف ویران تھا مسجد کے دروازے مٹی سے بند تھے ایک دروازہ کھلا ہوا تھا میں نے خدا کے اس ویران گھر کو خدا کی رضا اور اس کی عبادت کیلئے پسند کیا اورایک سلسلہ عالیہ،نقشبندیہ کے فقیہ فقیر کو اپنا استاد بنایا۔ان سے کتب فقہ پڑھنی شروع کیں ساتھ ہی رات اور دن میں ختم قرآن کو اپنا معمول بنالیا رات میں مسجد کے تیسرے دروازے کو ایک پتھر سے بند کردیا کرتا تھا۔رضائے پرور دگاراور فقیری کی منزلیں حاصل کرنے کیلئے رات اور دن میں دو قرآن عظیم ختم کیا کرتا تھا دوقرآن کے بعد جس قدر دن باقی رہتا اس میں اپنے استاد کی بارگامیں حاضر ہوتا ان کی خدمت اور کتب فقہ پڑھنے کیلئے۔رات کے وقت جب ان کی خدمت سے فارغ ہوتا تو تلاوت کلام اللہ میں مشغول ہوجاتا تیسرے دن استاد کے تقاضہ اور اصرار پر غذاکے واسطے ایک مٹھی جو لے لیتا اس سے’’قوت لایموت حاصل کرتا ‘‘۔
اس زمانہ میں اگر میں اپنے معتقدوں میں سے کسی کو کوئی عمل یا وظیفہ بتاتا تو وہ نہایت سریع التاثیر ہوتا۔لیکن میں اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ میرے استاد کو طریقت میں حضرت سیدقطب الدین محمد اشرف حیدر حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت حاصل ہے اس لئے وہ اکثر میرے سامنے اپنے مرشد معظم کا ذکر فرماتے تھے اور فرماتے’’مرید کو اس پر ترجیح حاصل ہے کہ جس کا کوئی پیر نہ ہو‘‘۔
لیکن میں خود ہی کے ذریعہ خدا تک رسائی حاصل کرنے کا تصور رکھتا تھا اس لئے استاد کے اس قول کی طرف میری توجہ مائل نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ بات ناپسند سی معلوم ہوتی اور دل میں خیال آتا کہ اس ریاضت سے زیادہ ریاضت کیاہوسکتی ہے۔اس لئے ہر کسی کا احسان لیکر کیا فائدہ اور ہر کسی کی منت پذیری کی کیا ضرورت۔اس وجہ سے استاد محترم کے حکم کے خلاف دن گذر رہے تھے ان ہی ایام میں ایک شب کہ جو ’’لیتہ القدر خیرمن الف شہر‘‘کی طرح روشن تھی۔اس رات میں حسب معمول تلاوت قرآن میں مشغول تھا کہ مردان خدامیں سے کسی نے ازروئے کرامت نزول کرکے مسجد میں جو مسدودالابواب تھی میں خطاب کیا کہ ’’اے جمال اللہ!اگرچہ تلاوت قرآن عظیم کمال عبادت ہے مگر بغیر کسی شیخ کامل سے بیعت کئے ہوئے ولایت محال ہے‘‘عبادت میں لذت وسرور کیلئے بیعت ضروری ہے اس خطاب کو سن کر میرے اندر اک دم اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی مگر آواز دینے والے شخص کو غائب پایا میں نے حیرت کے ساتھ دروازہ کی طرف کو دیکھا کہ شایدرات دروازہ کھلا رہ گیا ہو مگر دروازہ کو بھی بند پایا پھرمیں نے دروازے سے پتھر ہٹاکر چاروں طرف کو دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کو نہیں پایا۔اس کے بعد میں اِک دم استاد محترم کے مکان کی طرف روانہ ہوااور پوراواقعہ استاد کو سنایا میرادل بے چین و بے قرار تھا،میری چاہت تھی کی اسی رات کسی شیخ کامل تک رسائی ہوجائے اور میں خدمت مرشد سے محروم نہ رہوں۔استاد نے میرا حال سن کر فرمایا کہ ابھی نصف رات باقی ہے اس وقت جانا ممکن نہیں ہے اگر اس وقت ہم ارادہ کرکے نکلتے بھی ہیں سوتی ہوئی آبادی سے تو ممکن ہے سارق(چور)سمجھے جائیں اور’’فاقطعوااید ھم‘‘ کے سزاوار ہوکر تاقیامت ہم بھی سوتے رہیں۔
البتہ رات گزرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کواپنے مرشد معظم کی خدمت بابرکت میں لیکر حاضر ہوں گا۔اگر ان کی نگاہ تمہاری تسلی وتسکین کا باعث بنے تو بہتر ہوگا ورنہ دہلی میں کثرت سے مشائخ ہیں اوربیعت آپ کی تسکین پر موقوف ہوگی۔مگر میں (حافظ صاحب) اس واقعہ سے ایسا بے قرار تھا کہ استاد محترم کا یہ حکم مجھے پسند نہیں آیا مگر ہزار انتظار کے بعد سحر نمودار ہوئی اور میں استاد محترم کے ساتھ قطب الاقطاب محمد اشرف حیدرحسین صاحبؒ کی بار گاہ میں حاضر ہوا،وہ نورانی چیرئہ انور دیکھ کر میرے دل سے غیر کا خیال ہٹ گیا اورایسا ذوق پیدا ہوا کہ میراخود اپنی ذات سے بھی تعلق کٹ گیا۔استادمحترم نے معلوم کیا،کیا اردہ ہے۔۔؟
میں نے عرض کیا کہ یہ دیکھئے میرا حال کیا ہے۔۔؟
اس کے بعد استاد محترم نے قطب الاقطاب کے معلوم کرنے پر میرے بودوباش ومعاش اورمعاد کی تفصیل ان کے سامنے بیان کی۔پھر قطب الاقب (محمداشرف حیدر حسین صاحب)نے میری پڑھائی کے بارے میں معلوم کیا استاد نے عرض کی کہ اس کامقصود علم فقہ ہے یہ سن کر قطب الاقطاب نے فرمایا جب ’’نکاح نہیں کروگے تو مسئلہ حیض کس کام آئے گا‘‘یہ ارشادسن کر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارے لئے نکاح مباح نہیں ہے اور اس بارگاہ میں طریقئہ تنہائی وشیوئہ یکتائی پسند ومقبول ہے اس کے بعد قطب الاقطاب نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ آج رات تم کو استخارہ کرنا چاہئے جو کچھ استخارہ میں ظاہر ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا میں اسی روز قطب الاقطاب کی بارگاہ سے اپنی رہائش گاہ واپس آیا،اسی رات استخارہ کے عمل سے ایک خواب دیکھا مگر نسیان غلبہ کی وجہ سے وہ مجھے یاد نہ رہا۔
صبح کو پھر قطب الاقطاب (محمد اشرف حیدرحسین صاحبؒ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی پائینتی کی جانب تشریف رکھتے ہیں آپ کو اس مقام کی خدمت کرتے ہوئے چوبیس سال گزر چکے ہیں۔
آپ نے مجھ سے خواب کی کیفیت معلوم کئے بغیر اپنی دستگیری (بیعت)سے سرفراز فرمایا۔بیعت کے بعد میرامعمول ہوگیا تھا کہ صبح سے شام تک قطب الاقطاب مرشد معظم محمد اشرف حیدر حسین صاحبؒ کی بار گاہ میں کھڑا رہتا اگر کبھی مجھے سب کے ساتھ مراقبہ کرنے کا حکم ملتا تو میں بمجبوری بیٹھ جاتا لیکن میرے حال پر مرشد معظم لطف وکرم اس قدر فرماتے کہ مواجہہ حضوری کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔اگر کبھی میری نظر قطب الاقطاب کے چہرے سے اِدھر اُدھر کو ہٹتی تو فوراً مجھے ٹوک دیا کرتے تھے۔
(یہاں تک جو حالات بیان کئے وہ حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ کی خود زبان مبارک سے سننے میں آئے۔ آگے کے حالات معتقدان کامل العقیدہ سے تحقیق کے ساتھ جو سننے میں آئے ان کو بیان کیا جاتا ہے۔)
جب آپ کی اس حالت کو ایک مدت گزر گئی بقول اکثر بارہ سال اوربقول بعض چوبیس سال یا کچھ کم۔توایک روز قطب الاقطاب (مرشد معظم)نے تنہائی میں فرمایا کہ ’’جمال اللہ تمہاری خدا شناسی وخدا رسی بہت بلندمقام و مرتبہ پر پہنچ گئی ہے،تمہاری کثرت ریاضت،منعمِ حقیقی کے فیض وکرم اوراس کے فرمان کے تحت ’’ان اللہ لایضیع اجر المحسنین‘‘۰(قرآن)
اوردوسرافرمان الٰہی’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا‘‘(قرآن)ضائع اور رائے گاہ نہیں ہے‘‘۔
اور ہماری طبعیت بھی آپ کے احوال کی طرف نہایت متوجہ ہے اس لئے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمکو دست غیب یاطریقئہ کیمیا تعلیم کر دیاجائے تاکہ تلاش معاش مانع نہ ہو۔جب حضرت قطب الاقطاب نے انعام کے طور پر یہ کلام ارشاد فرمایا تو حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ نے عرض کی کہ بندے کی خواہش مرشد سے صرف ذات مرشد ہے اور روزی کیلئے اللہ کی ذات پر توکل کافی ووافی ہے۔
افسوس! کہ بندے نے حضرت کی تمنا میں اپنے آپ کو خاک کر دیا اور حضرت کا دریائے جودوسخا جوش میں آیا تو کیمیا کی خاک میرے سر پر ڈال دی۔جناب اشرف حیدرحسین صاحبؒ کو اپنے محبوب نظر کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اس قدر پسند آئے کہ گویا عطائے ولایت اعظم،اجازت،وخلافت اتم اِن ہی حسین و بےبدل جملوں پر موقوف تھی۔شیخ کامل محمداشرف حیدر حسین صاحبؒ فوراًاٹھے اوراپنے منظور نظر حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ کو سینے سے لگا کر مرحباًوآفریں فرمایا اوراس وقت جسم لطیف پر قطب الاقطاب جو لباس پہنے ہوئے تھے حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ کو مرحمت فرماکر ارشاد فرمایا کہ ’’تو ہمارا ہے اور ہم تیرے ہیں‘‘اوراپنے خلفائے قدیم کو حکم دیاکہ حافظ شاہ جمال اللہ سے بیعت تازہ کرلیں۔اس کے بعد حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب کو دارالخلافہ سے ’’کٹھیر‘‘ کی طرف رخصت فرمایا کہ وہاں جلوہ گری فرماکر افغانوں کو تلقین فرمائیں کہ جن کی رفاہ وفلاح کی طرف حضرت قطب الاقطاب کی نہایت توجہ تھی بلکہ حضرت کی والدہ بھی اسی قوم سے تھیں۔
حضرت حافظ شاہ جمال اللہؒ کو یہ حکم دیکر قطب الاقطاب نے زیارت حرمین شریفین کا ارادہ فرمایا کیونکہ آپ کی آخری آرام گا اللہ کی طرف سے جنت البقیع مقرر تھی۔قطب الاقطاب فرماتے کہ اس سفر کا ارادہ میرا ایک مدت سے تھا لیکن میں حافظ شاہ جمال اللہؒ کا امانت دار تھا یہ بار امانت راستہ روکنے کا سبب بنتا تھا اب خدا کے فضل وکرم سے اس امانت کے حق سے ادا ہوچکا ہوں اب مجھے مبارک سفر کیلئے جلدی کرنی چاہئے۔
قطب الاقطاب کے اس حکم کے بعد حضرت حافظ صاحب مصطفی آباد(رامپور) تشریف لے آئے جو مضافات صوبہ ’’کٹھیر‘‘ میں شامل ہے۔رامپور میں آپ ایک مدت تک نواب فیض اللہ خاں بہادر کے لشکر میں رہ کراپنی مشیخت وطریقت کی نعمت عظمیٰ و مفاخرت کبریٰ کو لباس سپہ گری میں چھپائے رہے اوراخفائے راز الٰہی کی غرض سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔اس وجہ سے حضرت حافظ صاحبؒ کے مقام و مرتبہ کو کوئی سمجھ نہ سکا۔لیکن قطب الاقطاب حضرت محمد اشرف حید رحسین صاحبؒ دارالخلافہ(شاہ جہاں آباد سے)حضرت حافظ صاحب کومسلسل خطوط ارسال فرماتے رہے کہ اپنی بزرگی ومقام اور مرتبہ کو اللہ کے بندوں کے سامنے ظاہر کرو۔کیونکہ ہم نے آپ کو اللہ کے بندوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے صوبہ کٹھیر کی طرف روانہ کیا ہے نہ کہ بزرگی ومقام اورمرتبہ کو چھپانے کیلئے۔قطب الاقطاب اشرف حیدر حسین صاحبؒ کویہ چاہت بہت زیادہ تھی کہ حافظ شاہ جمال اللہ صاحب اپنے مقام ومرتبہ کو ظاہر کریں۔
حضرت حافظ صاحب بھی اس حکم کو پورا کئے بغیر نہ رہ سکے اتفاق سے ایک روز دن کا کچھ حصہ باقی تھا کہ حضرت حافظ صاحب معمول کے مطابق بازار میں ’’نواب دروازہ‘‘ کے سامنے کھڑے تھے ایک بین بجانے والا دل سوزانداز میں بین بجا رہا تھا اس بین کی آواز سن کر اِک دم حضرت پرایسا اثرہواکہ آپ پربے خودی سی طاری ہوگئی اوراس جوش وخروش میں اپنی حالت کو پوشیدہ رکھنے کیلئے ایک شخص کے مکان کی طرف روانہ ہوئے کہ جس سے ملازمت کے ذریعہ تعلق تھا حضرت کا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں تھا۔
گھرآباد کرنے سے آپ کو ایسی بے زاری تھی کہ گھر کی تہمت بھی آپ نے گوارہ نہیں کی۔جب حضرت حافظ صاحب رسالدار کے مکان کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں جوکوئی بھی جانور سامنے آتا تو وہ آپ کی تاب نہ لاکر زمین پرگرکر لوٹنےلگتانہ جانے کتنی بھینسیں اور گھوڑے مع سواروں کے بسمل کی طرح مچلتے گئے۔اسی تھوڑی سی مسافت میں جو بازار اور رسالدار کے مکان کے درمیان واقع تھی جو بھی سامنے آیا بے تاب ہوگیا۔
یہ کرامت حضرت حافظ صاحبؒ کی بزرگی ومقام اورآغاز شہرت کو ظاہر کرنے کا سبب بنی۔ قطب الاقطاب حضرت محمد اشرف حیدر حسین صاحبؒ کی خواہش بھی پوری ہوئی اپنے محبوب نظر سے۔اس کرامت کے بعد قوم افغان سے اس قدرمخلوق خداحضرت حافظ صاحب کی نظرکرم وفیض سے نیک راستہ پر آئی کہ جس کا شمار کرنا ممکن نہیں۔
یہیں سے آپ کی کرامتوں کاصادر ہونا شروع ہوجاتا ہے اور کثیر تعداد میں مخلوق خدا کسب فیض کیلئے آپ کی طرف رجوع ہونے لگی۔لیکن آپ اپنے جد غوث اعظمؒ کے طریقے کے مطابق تمام کاموں کو انجام دیتے ہوئے مخلوق خدا کی رہنمائی فرماتے رہے۔حضرت حافظ صا حب کے دربار میں دنیاداری کی جس قدر بھی چیزیں ہوتیں وہ سب آپ اللہ کے بندوں پر صرف فرمادیتے گویا کہ بخشش ونوازش آپ کو وراثت میں ملی تھی اور دن بدن آپ کی یہ صفت ترقی پر تھی۔
دوسری کرامت:
حضرت حافظ صاحبؒ کو دنیادار باد شاہوں کی طرح سیروشکار کا بھی بہت شوق تھا چنانچہ بارہاجنگل میں ایسا اتفاق ہواکہ جنگلی شیر اس اللہ کے شیر کے سامنے آگیا اور گستاخانہ طریقہ پر دونوں پنجے اٹھاکر جنگ کیلئے تیار ہوگیا جب حضرت نے اس کی اس حرکت کو دیکھا تو آپ نے نعرئہ حیدری (یاعلی)بلند کیا جو آپ کامورثی نعرہ تھا آپ کی زبان مبارک سے یہ نعرہ سن تے ہی وہ وحشی شیر زمین پر گرکر تڑپنے لگا۔
تیسری کرامت:
اسی طرح ایک اورواقعہ پیش آیا کہ ایک شیر سامنے سے ظاہر ہوااور آہستہ آہستہ حضرت کی طرف بڑھنے لگا جب قریب آیا تو آپ کے ساتھ خدام پر ہیبت سی طاری ہوگئی،خدام نے شور کیا کہ اے وحشی!کہاں آتا ہے حضرت نے ممانعت کرنے سے منع فرمایا کیونکہ شیرخود اللہ کے شیر(حافظ صاحب)کی زیارت کا مشتاق تھا۔شیر بہت ہی اطمنان کے ساتھ حاضر خدمت ہوا اور اپنا منھ حضرت کے چہرئہ مبارک کے قریب لاکر اس گنجینئہ عرفاں اورگلدستئہ ایماں کی شمیم روح پَرور سے اپنی جان کو معطر کیا۔ایک خادم نے مزاح کے طور پر اپنے نیزے کی نوک شیر کے سر پر ماری لیکن وہ شیر (حضرت کی بارگاہ کا ادب واحترام کرتے ہوئے)بغیر کچھ کہے واپس چلا گیا۔حضرت حافظ صاحب کی مقتضائے عادت اور بلندئی ہمت فرمان الٰہی ’’اولوالعزم من الرسل‘‘کا مصداق تھی آپ طریقت وصحرائے حقیقت کو طے فرمانے میں سبقت کے عادی تھے۔
چوتھی کرامت:
ایک مرتبہ حضرت حافظ مع خدام سفر میں تھے راہ زنوں(لٹیروں)کا ایک گروہ آپ کے قریب آیا اور آپ کے راستہ کو روک کر آپ ساتھ غارت گری کرنے پر آمادہ ہوگیا وہ لٹیرے یہ سمجھ رہے تھے کہ حضرت کے پاس امیرانہ سازو سامان ہے۔وہ لٹیرے فقیروں کے بستروں کو خزانوں کی گٹھریاں تصور کرتے تھے۔آپ کے ساتھ بعض خدام ان لٹیروں کو دیکھ کر حراساں ہوگئے۔خدام کے پاس مقابلہ کیلئے کسی طرح کا کوئی انتظام نہیں تھا خدام آپ کی خدمت میں عرض گزار ہوئے حکم ملا کہ وہ جو چاہیں لے جانے دو۔دیکھیں گے کہ وہ لوٹ کر جاتے ہیں یا لٹ کر جاتے ہیں۔خدام نے یہ حکم سن کر اپنا توکل آپ کے فرمان پر چھوڑ دیا لٹیروں کا گروہ حملہ آور ہوااور مال ومتاع لوٹنے لگا کہ اتنے میں تکبیر مورثی یعنی نعرئہ حیدری(یاعلی) اس صاحب میرث ’’لافتیٰ‘‘ حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب کی زبان سے جیسے ہی بلند ہوئی تمام راہ زن جوکہ 100 سے زائد تھے بے ہوش ہوکر گر گئے جیسے ہی ان کو ہوش آیا وہ سب تائب ہوکر آپ کے حلقہ بگوش ہوگئے۔
پانچویں کرمت:
مصطفی آباد (رامپور) میں ایک شخص ’’جوکی خاں‘‘کے نام سے ارباب صفا میں مشہور تھا جب حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب کی شہرت چاروں طرف عام ہوئی اورحضرت کی کرامت و بزرگی کی صدائیں شش جہت گونج رہیں تھیں تو جوکی خاں کے یار دوست جس طرح اس کے کمال ونقص فقروطریقت کا امتحان کرچکے تھے انہوں نے سوچا کہ اسی طرح حضرت حافظ صاحب کا بھی امتحان لیا جائے۔جو کی خاں کہ جس نے کبھی مردوں کی لڑائی اور شیروں کی ضرب کا تجربہ بھی نہیں کیا تھا مولیٰ کو بھی موالی تصور کرکے فروع کی طرح اصل الاصول سے بھی اطاعت کی امید رکھتا تھا۔چنانچہ ایک روز حضرت حافظ صاحب مسجد میں شام کے وقت حلقہ بگوش تھے اور ذکر الٰہی پرمرشدانہ توجہ مبذول فرما رہے تھے۔جوکی خاں اپنے دوستوں کے اصرار پر حضرت کے امتحان کی غرض سے مسجد کی سیڑیوں پر چڑہااس وقت قبلہ عالمیاں(حضرت حافظ صاحب) روبقبلہ تھے کہ ممتحن بے ادب (گستاخ اولیاء)پیچھے سے آگیا حضرت حافظ صاحب سراپا نگاہ نے چشم بصیرت سے دیکھ کر اس کے مافی الضمیر کو سمجھ کراپنا روئے جلال آلہ جو کہ عین جمال اللہ تھااس کی طرف متوجہ کرکے فرمایا کہ’’اے جوکی خاں فقیروں کا امتحان لیتا ہے‘‘یہ کلمہ حضرت نے ہندی زبان میں ارشاد فرمایا تھا آپ کا یہ ارشاد گرامی گویا توپ کا گولہ یا تیرکاساتھا
۔۔
چھٹی کرامت:
افغانوں میں سے ایک شخص جلال خاں نے اپنے مکان میں انار کے کچھ درخت لگائے اور یہ نیت کی کہ ان میں سے ایک درخت کے پھل حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں نذر کروں گا۔مگر جب درختوں پر پھل آئے تو چمگادڑوں نے تمام انار کے درختوں کے پھل کھالئے صرف اس درخت پر انارباقی رہے جس کو حضرت کیلئے خاص کیا تھا ایک روز اس باغ بان نے حضرت کی نذر کئے ہوئے درخت کے چند دانے حضرت کی خدمت میں پیش کئے اورفریاد کی کہ یہ بات حضرت حافظ صاحب کے انصاف سے بعید ہے کہ غلاموں کے پھل ہلاک ہو جائیں اور شہنشاہ کا حصہ محفوظ رہے یہ سن کر حضرت حافظ صاحب نے تبسم فرماکر فرمایا کہ ’’اے جلال تو بھی فقیروں کی توپ وتفنگ ہے تو کیوں گولے مارنے سے باز رہتا ہے۔۔؟‘‘اس نے عرض کی کہ’’غلام اگر چہ فقیروں کی تفنگ ہے لیکن حضور کے بازواور گولے کہاں ہیں۔۔؟ یہ سن کر حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ ہم نے دونوں چیزیں تیرے اند ر ڈال دیں اور تجھ کو تیری مراد سے پُر کردیا‘‘وہ افغان اس فرمان کو خوش طبعی کی بنا پر سرسری بات سمجھا اور گھر چلا گیا۔اتفاق سے اسی رات اس نے ارادہ کے ساتھ چند نعرے بلند کئے اور صبح ہوتے ہی حسب معمول درختوں کو دیکھنے آیا تو کثرت سے چمگادڑوں کو ہرانار کے درخت کے نیچے مردہ پایا وہ سمجھ گیا کہ وہ دو چیزیں یہی تھیں جو حضرت نے میرے اندر ڈالی تھیں اس واقعہ کے بعد کوئی جانور اس کے محلے میں پَر نہیں مارتاتھا اوراس کے نعرہ کا شورہ چاروں طرف عام ہوگیا جس کو بھی معلوم ہوتا وہ اس کو اپنے مکان پر لیکر جاتا اور اس سے نعرہ مار نے کی درخواست کرتا نعرہ کے بعد اس گھر میں چمگادڑ کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔
ساتویں کرامت:
ایک سال حضرت حافظ صاحب بدایوں کے قریب تشریف لے گئے۔جو خدام آپ کے ساتھ تھے ان کو معلوم ہوا کہ افضل المساکین بدایوں میں ایک فقیر صاحب رہتے ہیں۔حافظ صاحب کے خدام ایک روز ان سے ملاقات کیلئے گئے جب قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان بزرگ کو مکاشفہ کے ذریعہ ان کی آمدکاحال معلوم ہوچکا تھا وہ ان کے استقبال کیلئے تیار ہو گئے اور دور سے دیکھتے ہی چلا اٹھے کہ ’’اےحافظ صاحب کے غلاموں!آپ کے قدم ہمارے سر اور آنکھوں پر میں نے آپ کے پیر کی قوت وعظمت جنگ حافظ الملوک و شجاع الدولہ میں ازروئے مکاشفہ مشاہدہ کی ہے ‘‘۔
یہ لوگ اپنے ہادی و مرشد حافظ صاحب کی کرامت سننے کیلئے بے چین و بے قرار رہتے تھے خدام نے درویش سے اس واقعہ کی تفصیل معلوم کی اورکہا کہ اے خدا کے بندے! آپ نے بغیر دیکھے صفائے باطن سے دریافت فرمالیا کہ ہم حضرت حافظ صاحب کے غلام ہیں اور ہمارے استقبال کیلئے لمبی مسافت بھی طے فرمائی تو ہمارے مرشد(حافظ صاحب) کا واقعہ سننے کے قابل ہے بیان فرمائیں۔درویش نے فرمایا کہ اس میدان جنگ میں فرمان الٰہی کے مطابق تمام اغواث و اقطاب اور شہداء نواب وزیر کی مدد کیلئے اس لشکر میں شامل تھے اوردوسری طرف یعنی حافظ رحمت خاں کے لشکر میں حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب تن تنہا سب کا جواب تھے میں نے اس ہنگامہ میں حضرت کی عجیب وغریب قوت کا مشاہدہ کیا کہ جب حضرت حافظ صاحب،حافظ رحمت خاں کی مدد کیلئے تیار ہوتے تو خود زمین عرصہ مصاف صفوف نواب وزیرکے انہدام کیلئے سیلاب کے مانند حرکت میں آجاتی تھی اگر چہ مخالف کے مدد گار اپنی کوشش سے نواب وزیر کے لشکر کو نقصان نہیں پہنچنے دیتے تھے لیکن جو وہ چاہتے تھے وہ بھی پورا نہیں ہوتا تھا جب اس طرح دیر تک برابری کا سلسلہ قائم رہا اور فتح و شکست کا فیصلہ نہیں ہوسکا تو افضل الشہداء خلاصہ کونین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ذوالقوۃ المتین حضرت سید شاہ قطب الدین اشرف حیدرحسین صاحب رحمتہ اللہ سے فرمایا کہ اپنے مرید کو جو قوی ترین پیران روزگار ہے اُس صف سے اِس طرف لے آئوتاکہ اس کے آنے کی برکت سے نواب وزیر کو کامیابی حاصل ہوجائے۔
چنانچہ قطب الاقطاب نے افضل الشہداء کے حکم پر عمل کیا اور وہ اس پیر دستگیر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر نواب وزیر کے لشکر میں لے آئے اور ارشاد فرمایا کہ ہمارا پاس خاطر افغانوں کی مددکرنے پر ترجیح رکھتا ہے مرشد معظم نے آپ کے ہاتھ اس قدر طاقت سے پکڑے تھے کہ گوشت زخمی ہو گیا تھا۔الغرض جب حافظ صاحب لشکر وزیر میں شامل ہوئے توحافظ رحمت خاں کی فوجوں کو فوراً شکست فاش ہوگئی۔جب اُس درویش نے اپنی یہ تقریر ختم کی تو حضرت حافظ صاحب کے بعض خدام جو اس جنگ عظیم کے زمانہ میں آپ کی خدمت میں رہا کرتے تھے انہوں نے ہاتھوں کی جراحت کو سن کر اس کے مشاہدے پر گواہی دی اور اس واقعہ کی مختلف باتیں آپس میں ایک دوسرے کو یاد دلانے لگے۔کہ فلاں زمانہ میں ہم حضرت کے ہاتھوں کے زخم کی عیادت کیلئے حاضر ہوئے تھے کوشش کرکے حضرت سے ہاتھوں کے زخمی ہونے کا سبب معلوم کرتے تھے مگر حضور کچھ ارشادنہیں فرماتے اُس راز کی حقیقت آج ظاہر ہوگئی۔
آٹھویں کرامت:
ملا کمال جو کہ حالات سے غریب تھے حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں رہا کرتے تھے انہوں نے بیان کیا کہ میں اسی زمانہ میں تلاش معاش کیلئے حضرت سے اجازت لیکر وطن سے دَکن کی طرف چلا گیا وہاں ایک امیر کے یہاں میں نے نوکری کر لی عرصئہ دراز تک رہنے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں سے میرے معاملات بہت اچھے ہوگئے تھے یہاں تک کہ وہاں کے لوگوں میں سے ایک شخص نے روز اپنی بیوی کو میرا کھانا پکانے کی اجازت دے دی۔ اس غرض سے میں روز انہ ان کے یہاں تنہائی میں کھانا کھانے کیلئے جاتا تھاایک روز اس عورت نے خود خواہش کی اور میں نے بھی دست خیانت اس کی طرف بڑہانا شروع کیا لیکن ابھی ارادہ عمل میں نہ آیا تھا کہ اک دم غیب سے حضرت حافظ صاحب میرے سامنے ظاہر ہوئے اور آپ نے ایک طمانچئہ حیدری ایسا میرے منھ پر مارا کہ میرے رخسار زخمی ہوگئے اس صدمہ سے میں بیہوش ہوگیا اور وہ عورت سمجھی کہ میرے اُپر کسی سایہ کا اثر ہوگیا شوروفریاد کرتی ہوئی باہر آئی دوسرے لوگوں کو میرے حال کی خبردی کچھ دیر کے بعد مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ میرے پاس بھیڑجمع ہے جن اور بھوت کا اثر سمجھ کر لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں اورمیں ان کے درمیان پڑا ہوا ہوں۔بہر حال میں نے کسی سے کچھ نہ کہا میں شرمندہ ہوکر تائب ہوا۔ایک مدت کے بعد جب وطن واپس آیا تو پھر حضرت کے یہاں شرف ملازمت حاصل کیا حضرت نے میرا خیر مقدم کیا میں نے حضرت سے ازراہ ناز عرض کی کہ حضور نے سفر پر جاتے وقت مجھ سے وعدئہ معیت فرماتھا لیکن میں نے کسی بھی وقت حضور کو اپنے ساتھ نہیں پایا۔یہ سن کر حضرت نے تبسم فرماکر فرمایا کہ اگر فقیر ساتھ نہ تھا تووہ غائب کون تھا کہ جس نے فلاں مقام پر طمانچہ مار کر تجھ کو برے فعل سے بچایا تھا۔ملا کمال کہتے ہیں یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور پڑھاخدا کا فرمان ’’واللہ بصیربما تعملون‘‘یہ تھیں آپ کی چند کرامات حیات ظاہری کہ جن کو تحریر کیا آپ کی تمام کرامات کا شمار کرنا آسان کام نہیں ہے۔آپ مرشد معظم قطب الاقطاب حضرت سیدنا محمد اشرف حیدر حسین صاحب رحمتہ اللہ کے منظور نظر تھے۔ آپ کادل عشق الٰہی سے معمور اور حب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پرُتھا۔ظاہری حیات میں ایک کثیر خلقت نے آپ سے فیض حاصل کیا،اور بعد وصال اللہ رب العزت نے اس فیض باطنی میں خوب اضافہ فرمایا۔یہ فیض جمالی بر صغیر پاک وہندکی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دوسرے ممالک تک پہنچاجیسے بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، برما، بخارا، ایران، ترکی، سمرقند، اورعرب ممالک تک آپ کے خلفاء کی رسائی ہے۔مخلوق خدااس فیض سے فیضیاب ہو رہی ہے اور صبح قیامت تک ہو تی رہے گی (انشا ء اللہ)۔
بہر حال آپ کی ذات مبارک سے مخلوق خدا کو خدا تک رسائی ملی،معرفت خداوندی کو حاصل کرنے والے دور دراز سے آکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورفیوضات ظاہری و باطنی سے اپنے خالی دامنوں کو بھر کر اپنے علاقوں کی طرف رخصت ہو تے۔شاہ و گدا امیر وغریب سب آپ کی چو کھٹ کے غلام بنے،حتیٰ کے نوابان رامپور نے بھی آپ کی ہمیشہ بے حد تعظیم و تو قیر کی اور بڑی عقیدت و احترام کا آپ کے ساتھ سلوک کیا۔خصو صاً نواب فیض اللہ خاں صاحب نے جو آپ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے آپ کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے اور بے پناہ عقیدت ومحبت کا اظہاربھی فرمایا کرتے تھے۔آپ کی خدمت میں حاضری کو راہ نجات تصور کیا کرتے تھے۔آپ نے بھی اہل رامپور سے بے پناہ محبت وشفقت فرمائی۔
اہل رامپور ہی کیا بلکہ یہاں کہ ذرہ ذرہ پر آپ کے بے پناہ احسانات و عنایات ہیں۔آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کی روحانی توجہات عالیہ کے مبارک اثرات آج تک اہل رامپور پر ظاہر ہیں اس کی مثال رامپو دوسری جگہوں کے مقابلہ میں آج بھی فتنے وفسادات اور دیگر خرافات سے محفوظ ہے۔اللہ رب العزت اپنے کرم خاص اور حضرت حافظ شاہ جمال اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے توسل سے اہل رامپور کو ہمیشہ امن و امان میں رکھےاورساتھ ہی ملک کے تمام مسلمانوں کو سکون کی زندگی نصیب فرمائے۔
آپ کے خلفاء:
آپ نے تمام زندگی مجردانہ بسر کی لہٰذا کوئی اولاد نسبی نہیں چھوڑی،البتہ روحانی اولاد میں آپ کے بہت سے خلفاء ہوئے،ان میں سے ایک ہستی گرامی حضرت سیدنا فیض بخش شاہ درگاہی محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے جو آپ کے خلیفہ اکبر و جانشین اعظم ہوئے اور آپ کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ شہرت کسی اور خلیفہ کے حصے میں نہیں آئی۔حضرت شاہ درگاہی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے جانشین اعظم حضرت شاہ سلطان امام الدین خاں غالب جہاں رحمتہ اللہ علیہ ہوئے۔آپ نے حضرت حافظ شاہ جمال اللہ وحضرت شاہ درگاہی محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہما کی صحبت بابرکت میں رہ کر آپ کے جن حالات وواقعات کا خود سے مشاہدہ کیا ان کو آپ نے اپنی کتاب ’’مجمع الکرامات ‘‘میں جمع کیا۔حضرت سید نا حافظ شاہ جمال اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے درکے اس معمولی سے غلام (محمد محفوظ قادری)نے بھی ’’مجمع الکرامات‘‘ سے استفادہ کرکے آپ کی چند خصوصیات وصفات اورکرامات کو تحریر کرنے کی جسارت کی درحقیقت آپ کی ذات گرامی اتنی جلیل القدر ہے کہ تحریر میں لانا آسان کام نہیں ہے۔
وصال:
آپ کا وصال3/صفرالمظفر1209ھ
مطابق 30/اگست1794ء کورامپور میں ہوا۔ رامپور شہر کے محلہ باجوڑی ٹولہ میں آپ کا مزار مقدس بنا جو آج تک مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور صبح قیامت تک بنا رہیگا۔(انشاء اللہ)
اللہ رب العزت اپنے اس محبوب بندے کے ظاہری وباطنی فیوض و برکات سے اپنے بندوں کو خوب فیضیاب فرمائے۔آمین