مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
____________________
مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کو اس کے عہد زریں میں جو نامور اساتذہ ملے ان میں ایک نام مولانا مفتی عبد الشکور قاسمی کا تھا، وہ علم وفضل کے کوہ طور تھے، فراغت کے بعد انہوں نے مدرسہ اسلامیہ ہلدی پوکھر سنگھ بھوم، مدرسہ نور الاسلام چھتون دربھنگہ، دار العلوم سبیل السلام حیدر آباد اور مدرسہ اسلامیہ بتیا میں برسوں پڑھایا تھا، اس لیے ان کے اندر تدریس کی اچھی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی، اور ان کا شمار اچھے استاذ میں ہوا کرتا تھا، وہ مشکل سے مشکل اور ادق عبارتوں کو آسان زبان اور مثالوں سے سمجھا نے پر قادر تھے،انہوں نے کتاب سازی کا کام تو نہیں کیا، لیکن رجال سازی میں انہوں نے اپنی بھر پور حصہ داری نبھائی، جن دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ ہوا کرتا تھا، اس زمانہ میں وہ ناظم دار الاقامہ ہواکرتے تھے،مولانا رئیس اعظم مرحوم کے انتقال کے بعد انجمن مصلح الطلباء کا نگراں وذمہ دار بھی انہیں ہی بنا دیا گیا تھا، دورمولانا رئیس الاعظم کا رہا ہو یا خود ان کا وہ لڑکوں کو تقریر لکھ لکھ کر دیتے، یاد کرواتے اور پھر انجمن میں اس کی عملی مشق کراتے، یہی حال نعت خوانی کی تربیت کا تھا، خوش گلو لڑکوں کا انتخاب کرتے، کوئی اچھی سی نعت یا نظم انہیں دیتے او رپھر اسے انجمن میں سنوادیتے، اس تربیت میں وہ تربیت میں وہ طلبہ کی متن خوانی اور نعت خواں کے لہجے، اتار چڑھاؤ، زیر وبم، وقف ووصل، صحت الفاظ ومخارج پر گہری نظر رکھتے، اگر کہیں غلطی ہو رہی ہو تو بار بار پڑھ کر گنگنا کر اس کی تصحیح کرتے، اس دور کے پڑھنے والوں میں ان کی یادگار کے طور پر کئی مقرر اور نعت خواں اب بھی موجود ہیں، بعض ان کی محنت کا اقرار کرتے ہیں اور بعض اقرار سے کتراتے ہیں، اصل میں تلبیس وتدلیس کا سلسلہ آج سے نہیں زمانہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔
میری پہلی کتاب فضلائے دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات عربی ششم کے سال 1980ء میں شائع ہوئی تھی، اس کے مقدمہ میں حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری نے لکھا تھا کہ علماء دیو بند اپنی عبقریت وعظمت کے لحاظ سے جتنا کچھ لکھ سکتے تھے، نہیں لکھ پا ئے، انہوں نے رجال سازی پر توجہ مرکوز رکھی اور بڑے بڑے علماء، محدث، مفسر وغیرہ پیدا کیے۔
مولانا مفتی عبد الشکور بھی قاسمی تھے، اکابر علماء، واساتذہ کے خوشہ چیں تھے، اس وجہ سے فطری طور پر ان کا رجحان تصنیف وتالیف کا نہیں تھا، لیکن ان کی صلاحیت ہر فن پر کتابیں لکھنے کی تھی، اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے وہ اس میدان میں آگے نہیں بڑھ سکے، لیکن کتنوں کے اندر لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا کیا، وہ علمی کاموں میں معاونت کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے اور معاونت دل سے کرتے تھے،د وسروں کی طرح بیگاری ٹالنے کا مزاج ان کا نہیں تھا، دوسری مجبوری یہ بھی تھی کہ تصنیف وتالیف کے لیے جو یکسوئی ہونی چاہیے تھیو فکر معاشی اور معاشی تنگی کی وجہ سے موجود نہیں تھی، اس لیے بھی وہ اس طرف توجہ نہیں دے سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
- نسل نو میں ارتدادی لہر کے اثرات
- دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈا اور کاروائی
- اپنے اور بیگانے کی پہچان
- عوام کی نظروں میں فتوؤں کا گرتا وقار
اس کے باوجود ان کی تحریری باقیات اور افادات کو جمع کیا جائے تو اچھی خاصی کتاب تیار ہوجائے، لیکن یہ کام پتہ ماری اور سوز جگر کے بغیر ممکن نہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ”کون ہوتا ہے حریف مئے مردا فگن عشق“ مولانا کی شعری کائنات کوہی مجموعہ کی شکل دیدی جائے تو کئی شاعر متشاعر کے مقابلے کم وکیف میں کہیں زیادہ نکلے گا، اس کو جمع کرنا، ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالنا اور اسے زیور طبع سے آراستہ کرنا ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگا،ا ن کی لکھی ہوئی منتشر تقریریں،ا ن کے فتاوے سب کو جمع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ مرور زمانہ سے تلف ہو کر نہ رہ جائیں۔ قاضی کی حیثیت سے ان کی خدمات، ان کی فتویٰ نویسی کی خصوصیات ان کے اہم فتاووں کی روشنی میں سب پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
باقی رہے احوال وکوائف، سوانحی خاکے، اوصاف وکمالات، اجمالی آثار وخدمات تو اس کو بہت اچھے اندا ز میں مولانا قمر عالم ندوی استاذ مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی نے مختلف قلم کاروں کے مضامین کے ذریعہ جمع کر دیا ہے اس مجموعہ میں بڑوں کے مضامین بھی ہیں اور اولاد واحفاد کے بھی، شاگرد اور معاصرین کے بھی ہیں اور احباب ومتعلقین کے بھی، سب کے لکھنے کا اپنا اپنا انداز اور الگ الگ نظریہ ہے، جس کی نظر میں جو چیز اہم تھی اس کا ذکر اس نے اپنے مضمون میں کر دیا ہے، اس طرح یہ مجموعہ کہکشاں اور قوس وقزح کی طرح ہے، جس کا ہر رنگ دل کو بھاتا اور آنکھوں کو سرور بخشتا ہے، اس قسم کے مجموعے میں تکرار فطری چیز ہے، کئی قلم کار کی نگاہ ایک خاص نقطہ پر مرکوز ہوگئی، ایسے میں تکرار تو ہوگا ہی، بعض مضامین دوسرے مضامین کو سامنے رکھ کر لکھے گیے، اس کی وجہ سے بھی کئی مضامین میں تکرار کا احساس ہوتا ہے، یہ معاملہ چند ہی مضامین کا ہے، یہ کمی مرتب کی نہیں لکھنے والوں کی ہے، باقی سارے مضامین اچھے اور معلوماتی ہیں، جو بڑی محنت سے لکھے گیے ہیں۔اس مبارک سلسلے کا آغاز میں نے ہی کیا تھا، 29/ اگست 2021ء کو مفتی صاحب کا انتقال پر ملال ہوا تھا اور میں نے ان کے سوانحی خاکے اور خدمات پر مشتمل ایک مضمون فوری لکھا تھا جو مختلف اخبارات کے ساتھ نقیب کے شمارہ نمبر 36، جلد نمبر 17/61 میں 6/ ستمبر 2021ء کو شائع ہوا تھا۔
مولانا قمر عالم ندوی کا پسندیدہ موضوع شخصیات ہے، چنانچہ اس حوالہ سے کئی کتابیں ان کی منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی آنا چاہتی ہیں، میں مفتی عبد الشکور قاسمی رحمہ اللہ پر لکھے گیے، ان مضامین کو لکھوانے، سلیقہ سے مرتب کرنے اور اس کی اشاعت کے لیے انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبول ہوگی، اور ان کا تصنیفی وتالیفی شغل یوں ہی جاری رہے گا، ان کے پاس حوصلہ بھی ہے اور قوت عمل بھی، انہیں چھپوانے کے طور طریقے بھی معلوم ہیں، یہ سب کسی ایک شخص میں جمع ہوجائے تو کام رکتا نہیں، چلتا ہی رہتا ہے، اس لیے اس توقع کو بے جا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ابھی اور آگے بڑھیں گے، اور بڑھتے چلے جائیں گے، یہ امید بھی ہے اور خالق کائنات سے التجا بھی۔