از قلم: محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، امام العلماء، استاذ الاساتذہ مولانا محمد امام الدین رضوی قادری رحمہ اللہ القوی محکمۂ اسلام پور (ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) کے تحت واقع ایک معروف مسلم آبادی بیر باڑی، خبر گاؤں میں پیدا ہوئے. ابتدائی و تمہیدی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم عارفیہ، مشیر گنج، چنامنا میں استاذ العلماء، ولی کامل، مفتی نصیر الدین اشرفی پناسوی معروف بہ "بڑے مولانا” علیہ الرحمۃ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان سے شرح تہذیب، شرح وقایہ، شرح جامی اور ہدایہ تک کی فنی کتابوں کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد منتہی درجات کی تکمیل کے لئے 1968ء میں دار العلوم منظر اسلام، بریلی شریف میں داخلہ لیا اور یہیں سے 22 جولائی، 1970ء میں سند و دستار فضیلت پائی. بیعت و ارادت شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمۃ سے حاصل کی.
1972ء میں اپنے استاذ گرامی وقار استاذ العلماء علیہ الرحمۃ کے حکم سے جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا کے منصب صدر المدرسین پر بحال ہوئے اور پھر پوری زندگی اخلاص و محنت کے ساتھ اس مدرسے کی خدمت میں گزار کر اسے ایک گلشن سدا بہار بنا دیا. تقریباً نصف صدی تک مدرسہ ہذا میں ہزاروں طالبان علوم نبوت آپ کے علمی چشمے سے فیضیاب ہوئے جو مرکزی اداروں سے فراغت کے بعد اب پورے ہندوستان کے مختلف مدارس، مساجد اور مکاتب حتی کہ ملی تنظیموں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آپ کے علمی و دینی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں.
آپ ایک عظیم تقوی شعار و پابند شرع درویش، باصلاحیت و بافیض مدرس، دست شفا رکھنے والے مشہور عامل، مؤثر خطیب، کم سخن، بلند اخلاق، منکسر المزاج اور انتہائی صابر و شاکر بزرگ عالم دین تھے. مشائخ کے معتمد تھے اور علماء و عوام کے مرجع. جامعہ اہل سنت جوہر العلوم کی صدر مدرسی کے علاوہ جامع مسجد گنجریا کے خطیب و امام جمعہ اور رتن پور عیدگاہ کے بھی خطیب و امام تھے.
زیر نظر تحریر میں حضرت امام العلماء کی زندگی میں میں نے جو ان کے اوصاف جمیلہ بہت قریب سے دیکھے وہی زریں اوصاف قلمبند کیے جائیں گے تاکہ نئی نسل بالخصوص جدید علما کے لئے مشعل راہ ہوں۔
استقلال و مداومت:
تجربات شاہد ہیں کہ ایک انسان انتہائی ذہین و باصلاحیت ہونے کے باوصف مستقل مزاج نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں ناکام ہوجاتا ہے اور کوئی بڑا ہدف حاصل نہیں کر پاتا، جبکہ وہیں متوسط ذہن اور کم صلاحیت رکھنے والا شخص صرف اپنی مستقل مزاجی اور مداومت عملی کی وجہ سے کامیاب زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں بھی مستقل مزاجی اور مداومت عملی کی بڑی تعلیم آئی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مسروق نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کونسا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ تھا؟ فرمایا: ہمیشگی کے ساتھ انجام دیا جانے والا۔ ایک دوسری روایت حضرت عائشہ سے ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں سے وہ عمل ہے جس پر مداومت اختیار کی جائے، اگرچہ وہ قلیل ہو۔ (بخاری و مسلم)۔
چنانچہ اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے کہ امام العلماء اپنے استاذ گرامی وقار استاذ العلماء بڑے مولانا علیہ الرحمۃ کے حکم کی تعمیل میں مدرسہ جوہر العلوم گنجریا سے وابستہ ہونے کے بعد پھر کبھی اس مدرسہ سے علیحدہ نہیں ہوئے، بلکہ مکمل مستقل مزاجی کے ساتھ تقریباً 47 سال تک اپنی بساطِ تدریس یہاں بچھائے رکھی، جبکہ اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے، لیکن آپ نے سب کو جھیل کر اس ناتوانا مدرسہ کو ایک توانا ادارہ بنایا اور ہزاروں طالبان علم کو مداومت عملی کے ساتھ اسی مدرسے میں رہ کر اپنے چشمۂ علم سے سیراب کیا۔ اگر حضرت مستقل مزاج نہ ہوتے تو آج یہ مدرسہ جوہر العلوم ایک تناور درخت نہ بنتا، بلکہ اب تک ایک کمزور پودا ہی بنا رہتا۔ یہ صرف حضرت کی مستقل مزاجی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ ادارہ ایک گلشن سدا بہار اور شجر تناور کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
منکسر المزاجی و سادگی:
عاجزی و انکساری کے حوالے سے صحيح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شخص اللہ کی رضا کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ اسے بلند رتبے سے نوازتا ہے۔ [وما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ-صحيح مسلم]
اس حدیث کے عین مطابق حضرت امام العلماء کو زندگی بھر کبر و غرور سے دور اور سادگی و عاجزی کا پیکر جمیل دیکھا گیا۔ آپ سنت کے مطابق انتہائی سادہ لباس پہنتے تھے اور اکثر اوقات پاجامہ کے بجائے لنگی ہی پہننے کو ترجیح دیتے تھے، حتی کہ بڑے بڑے جلسوں میں بھی لنگی پہن کر ہی رونق اسٹیج بنتے اور کرسیِ خطابت پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ فاضل گرامی قدر مفتی ذاکر حسین مصباحی فناء القادری شیخ الحدیث و مہتمم جامعہ طیبۃ الرضا، چنتل میٹ، حیدر آباد نے انتقال سے کچھ ہی ماہ پہلے متعدد علاقائی علما کے اعزاز میں اپنے آبائی وطن قاضی گاؤں میں بتاریخ 26 جولائی، 2020ء ایک بڑا جلسہ رکھا تھا جس میں حضرت کو بھی دعوت دی تھی اور حضرت کو بھی اعزاز سے نوازا جانا تھا۔ اس اعزازی جلسے میں بھی حضرت لنگی ہی پہن کر شریک ہوئے تھے جس پر کئی علما حیرت زدہ تھے کہ حضرت کس قدر سادہ ہیں کہ آج بھی کوئی زرق برق لباس زیب تن کرکے نہیں آئے ہیں۔ اسی جلسے میں حضرت کو "امام العلماء” کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ ہم نئی نسل کے علما کو بھی چاہیے کہ حضرت جیسے بزرگ علما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سادگی اپنائیں اور کبر و غرور سے ہمیشہ دور رہیں۔
طریقۂ تدریس:
حضرت امام العلماء نے تقریباً نصف صدی تک مدرسہ جوہر العلوم گنجریا میں ہزاروں طالبان علوم نبویہ کو اپنے علمی فیضان سے مالا مال کیا۔ آپ کا طریقۂ تدریس نہایت جامع، پر مغز اور سہل الفہم تھا۔ طلبہ کی مختلف ذہنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ درس دیتے تھے۔کس ذہن کے طالب علم کو کیسے سمجھانا اور سبق دل نشین کرانا ہے وہ ہنر آپ کو بخوبی آتا تھا۔ کبھی کبھی دورانِ تدریس انتہائی فاضلانہ تقریر بھی کرتے اور باریک سے باریک نکات بیان کرتے جس سے حضرت کے علمی قد کا اندازہ ہوتا۔ اعدادیہ سے لے کر رابعہ تک کے طلبا کو استاذ گرامی وقار ماسٹر سعد ابو نصر مرحوم اور آپ ہی پڑھاتے۔ اتنی کتابیں ہونے کے باوجود طلبہ کو سمجھانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ مخلصانہ طور پر بہتر سے بہتر انداز میں انہیں سمجھاتے۔ مدرسہ کے علاوہ طلبہ کو آپ کی قیام گاہ پر بھی کتابیں سمجھنے کے لئے آنے کی اجازت تھی اور بعض طلبہ اس اجازت کو موقعِ غنیمت سمجھ کر حاضر بھی ہوتے تھے اور حضرت تھوڑی سی بھی کبیدہ خاطری کے بغیر اس وقت بھی انہیں پڑھاتے۔
طریقۂ تدریس کے علاوہ آپ کا طریقۂ اصلاح بھی بہت نرالا تھا۔ ہر جمعرات کے دن طلبہ کی بزم ہوتی جس میں طلبہ تقاریر کرتے اور نعتیں پڑھتے اور بزم کے اخیر میں آپ نہایت خوبصورت انداز میں ان طلبہ کی اصلاح فرماتے۔ اسی بزم میں اصلاح پاکر بہت سے طلبہ آگے چل کر بڑے خطیب اور اچھے نعت خواں بنے۔
اندازِ خطابت:
بتایا جاتا ہے کہ شروع شروع میں حضرت امام العلماء اچھی تقریر نہیں کر پاتے تھے اور بولنے سے ہچکچاتے تھے، لیکن چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے تو جب آپ نے گنجریا و اطراف میں طرح طرح کی خرافات و بدعات دیکھیں تو ان کے رد اور اصلاح معاشرہ کے لئے خطابت پر دھیان دینا شروع کیا اور دھیرے دھیرے ایک بہترین عوام پسند، سنجیدہ اور مصلح خطیب بن کر ابھرے حتی کہ بڑی بڑی کانفرنسوں میں بھی بطور خطیب مدعو کیے جانے لگے، لیکن آپ چونکہ کوئی پیشہ ور خطیب نہیں تھے اور نہ دین میں پیشہ وری پسند کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے پھر بعد میں جلسوں کو ترک کردیا، لیکن گنجریا کی جامع مسجد میں ہر جمعہ کے روز آپ کی خطابت کی گونج رہتی تھی اور مختلف اسالیب و انداز سے آپ کے اصلاحی بیانات تسلسل کے ساتھ ہر جمعہ ہوتے رہتے تھے، اصلاح و رد خرافات و بدعات کے علاوہ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ، فرائض و عبادات کے ارکان و آداب، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی حیات و خدمات، اسلامی اخلاق و آداب اور گنجریا کی مسجد، مدرسہ، قبرستان اور عمارت موئے مبارک کی تعمیر و ترقی وغیرہ آپ کے مرکزی موضوع ہوتے تھے، کبھی کبھی انتہائی علمی اور تاریخی تقریریں بھی کرتے تھے خاص طور پر خصوصی محفلوں میں۔ دورانِ خطابت آپ کا انداز تفہیم نہایت دل پذیر تھا، عوام کو بہتر سے بہتر انداز میں باتیں ذہن نشین کرا دیتے تھے، متقیانہ اثر و رسوخ کی وجہ سے عوام پر ان باتوں کا اثر بھی ہوتا تھا، خطابت میں آواز کے زیر و بم کے فن سے بھی واقف تھے، سنجیدگی سے وقت ضرورت جذباتیت کی طرف مائل ہونا جانتے تھے، عشق رسول کے موضوع پر پرجوش تقریریں واقعی لائق سماعت ہوتی تھیں، اس موضوع کو بخوبی نبھاتے اور عوام کے دلوں میں عشق و ایمان کی حرارتیں بھر دیتے تھے۔
آپ کی خطابت کے نتیجے میں گنجریا و اطراف میں کافی اصلاحات ہوئیں، مختلف مشرکانہ رسوم سے لے کر طرح طرح کی بدعات و خرافات کا انسداد ہوا، مسلم معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ دینی و اسلامی رجحان پیدا ہوا، لوگ نمازوں، روزوں اور دیگر عبادات کی طرف مائل ہوئے، بیہودگی و بد تہذیبی سے کنارہ کش ہونے لگے اور اچھے عادات و اطوار سیکھنے کو اپنا شعار بنایا۔ غرض کہ آپ کی تقریریں کافی موثر و انقلاب آفریں ثابت ہوئیں اور بہت حد تک نتیجہ خیز رہیں، لیکن بقضائے الہی 21 ستمبر، 2020ء کے بعد یہ مصلحانہ و مخلصانہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی جسے سننے کے لئے باشندگانِ گنجریا آج بھی بے تاب ہیں۔ مولی تعالیٰ آپ کو غریق رحمت کرے۔
اپنے طلبہ کی کامیابی پر مسرت:
ایک سال 27ویں رجب کی شب، جشن معراج النبی کے موقع پر جامع مسجد گنجریا میں میری اور خطیب ذیشان حضرت مولانا عرفان عالم مصباحی، خطیب باکمال حضرت مولانا فیروز عالم مصباحی اور محب گرامی مولانا امتیاز عالم رضوی کی معراج کے مختلف پہلوؤں پر بڑی زبردست تقریریں ہوئیں۔ حضرت اس محفل کی صدارت فرما رہے تھے اور دیر رات تک شریک محفل رہے۔ محفل کے اختتام سے پہلے حضرت کو بھی دعوت سخن دی گئی تو حضرت نے اپنی مختصر تقریر کے دوران ہم طلبہ کی علمی، تحقیقی، فکری اور تاریخی تقاریر پر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا اور نہایت حوصلہ افزائی فرمائی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حضرت کو فخر اور ناز ہو رہا تھا کہ میرے تلامذہ علمی طور پر کس قدر مضبوط ہوگئے ہیں۔ حضرت کا یہ ایک قابلِ ذکر و لائق اتباع وصف ہے اور اسی وصف کو ‘اصاغر نوازی’ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ اب یہ وصف علما و اساتذہ میں خال خال ہی پایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مجھ سے متعلق ایک بات میں یہ بتاؤں کہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور سے علوم اسلامیہ سے اعلی نمبرات (فضیلت کے سالانہ امتحان میں ایک نمبر) کے ساتھ فراغت کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو جیسی عصری یونیورسٹیوں میں عصری علوم کی طرف میرے بڑھتے تیز قدموں کو دیکھ کر حضرت نے مجھ سے ملاقات کے دوران کبھی بھی کبیدگی یا خفگی کا اظہار نہیں فرمایا، بلکہ ہمیشہ مسرت کا اظہار فرماتے تھے اور حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے تھے جبکہ حضرت کے بر عکس بعض قدامت پسند مولوی عصری علوم سیکھنے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں، لیکن میں نے حضرت کا رویہ کبھی ایسا نہیں دیکھا، بلکہ آپ نے ہمیشہ میری ہمت افزائی کی اور علوم کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کی تلقین کی۔ اس سے قارئین حضرت کی ہمہ گیریت، روشن فکری، دور بینی و دور اندیشی اور ان کی نگاہ میں عصری علوم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
استاذ کا ادب:
اسلامی اقدار میں ادب پر کافی زیادہ دھیان دیا گیا ہے۔ حتی کہ فن تصوف میں صرف ادب ہی کی تعلیم ہوتی ہے جس سے آراستہ ہونے کے لئے علما مدرسوں سے فراغت کے بعد خانقاہوں میں جاتے ہیں یا کسی مرد صالح کی صحبت اختیار کرتے ہیں جو کہ اب بہت شاذ و نادر ہوگیا ہے۔
مدرسہ چونکہ تعلیم گاہ کے ساتھ ایک تربیت گاہ بھی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ مدرسہ کوئی میکدہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں۔ مدرسے میں استاذ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت پر بہت زیادہ دھیان دیتا ہے اور خود استاذ جس قدر مؤدب ہوتا ہے اس کے طلبہ بھی ویسے ہی مؤدب بنتے ہیں۔
دیگر آداب کے علاوہ اساتذہ اور بڑوں کا ادب بھی مدرسوں میں سکھایا جاتا ہے۔ استاذ کے ادب کے حوالے سے میں نے امام العلماء سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا اور جو بھی استاذ کا ادب سیکھا وہ آپ ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
آپ اپنے استاذ حضرت استاذ العلماء، بڑے مولانا محمد نصیر الدین اشرفی پناسوی خلیفۂ اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہما الرحمہ کا حد درجہ ادب بجا لاتے تھے۔ حضرت بڑے مولانا چونکہ مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کے سرپرست تھے تو سالانہ تقریری امتحان کے موقع پر ان کو دعوت دی جاتی تھی۔ امام العلماء، بڑے مولانا استاذ العلماء کے مدرسہ میں تشریف لانے کے بعد ہمہ دم ان کے سامنے دست بستہ حاضر رہتے تھے، ان کے ایک ایک حکم کی خود تعمیل کرتے، حضور حضور کہ کر مخاطب ہوتے، استاذ کو تھوڑی سی بھی شکایت نہ ہو اور جبیں پر ہلکی سی بھی شکن نہ آئے اس کا بھر پور خیال رکھتے، خود جوتیاں سیدھی کرتے، شام تک جب تک کہ حضرت استاذ العلماء گھر روانہ نہ ہوجاتے یونہی کھڑے کھڑے رہتے کہ کہیں استاذ کا کوئی حکم بجا لانے سے رہ نہ جائے، اخیر عمر میں جب کہ استاذ العلماء کافی ضعیف ہو چکے تھے اور صرف سوجھنے کی حد تک بصارت باقی تھی، اس کے باوجود امام العلماء ایک مؤدب شاگرد ہی کی طرح پیش آتے تھے اور ان کے ضعف و ناتوانی کا کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے جیسا کہ آج بعض شریر طلبہ کرتے ہیں۔ حضرت امام العلماء کے یہ سب آداب میری آنکھوں کے دیکھے ہوئے ہیں۔
ایک چیز اضافی طور پر یہاں مزید یہ بتادوں کہ حضرت استاذ العلماء بڑے مولانا محمد نصیر الدین اشرفی پناسوی علیہ الرحمۃ ضعف بصارت کے باوجود نمازوں کے سخت پابند تھے اور ضعف بینائی کی وجہ سے ٹھیک سجدہ گاہ پر ایک چھوٹی سی ڈبیا رکھ لیتے تھے جسے سجدہ کرتے وقت عمل قلیل کے طور پر ٹٹولتے اور پھر اسی سمت سجدہ کرتے، ورنہ سر ادھر ادھر جانے کا خطرہ رہتا تھا جس سے پھر عین استقبال قبلہ نہیں ہوتا۔ یہ بات سالانہ امتحان کے موقع پر مدرسہ جوہر العلوم گنجریا میں خود میری آنکھوں کی دیکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے میں نے یہاں بیان کردیا۔
اعلی حضرت سے عشق:
مجدد اہل سنت، عبقری الشرق، اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمۃ (14 جون، 1856ء – 28 اکتوبر، 1921ء) سے عشق تو آپ کی گھٹی میں پڑا تھا، اعلی حضرت کا خوب تذکرہ کرتے، اعلی حضرت کی شاہ کار نعتوں کو سننا پسند کرتے، خاص طور پر ‘سنتے ہیں کہ محشر میں’ والی نعت بار بار سنتے، کوئی طالب علم فارغ التحصیل یا زیر تعلیم دوران خطابت اعلی حضرت کا تذکرہ کرتا تو خوش ہوتے، اعلی حضرت اور ان کے صاحبزادے مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان قادری (18 جولائی،1892ء- 11 نومبر، 1981ء) علیہما الرحمۃ کے افکار و مواقف پر سختی سے عمل پیرا تھے اور ان سے سر مو انحراف پسند نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ گنجریا جامع مسجد میں لاؤڈ-اسپیکر پر نماز کے حوالے سے ہزار کوشش کے باوجود ہم انہیں قائل نہیں کر سکے، کیوں کہ مفتی اعظم ہند لاؤڈ-اسپیکر پر نماز کے عدم جواز کے قائل ہیں، لیکن اس کے باوجود علمی توسع پسندی کی وجہ سے بالدلائل اختلاف رائے کو غیر درست نہیں سمجھتے تھے جو کہ کسی اہل علم کا شیوہ بھی نہیں ہو سکتا، اعلی حضرت کے افکار و تعلیمات کی خود بھی ہزار جتن کے ساتھ تبلیغ کرتے اور اپنے طلبہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے رہے، لیکن آج کے بعض جھنڈا برداروں کی طرح صرف خانوادۂ اعلی حضرت کی محبت کا دم بھرنا اور دوسرے خانوادوں یا مشائخ کا نام لینے سے گریز کرنا یا ان سے محبت نہ رکھنا اپنے طلبہ کو نہیں سکھاتے تھے جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آپ کے اندر تھوڑی سی بھی مشربی تفریق نہیں تھی۔
مشائخ کا ادب:
یوں تو امام العلماء مشربا قادری رضوی تھے اور شہزادۂ اعلی حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان قادری علیہ الرحمۃ سے بیعت تھے، لیکن بلا تفریق مشرب آپ ہر سلسلے کے مشائخ کا دل سے احترام بجا لاتے تھے۔ گنجریا میں ایک دور میں جبکہ استاذ العلماء، بڑے مولانا محمد نصیر الدین اشرفی پناسوی علیہ الرحمۃ مدرسہ جوہر العلوم کے سرپرست تھے، مشائخ کچھوچھہ خاص طور پر حضرت شیخ اعظم علامہ سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان کی کئی بار آمد ہوئی ہے، حضرت امام العلماء ان سادات کچھوچھہ سے بے پناہ محبت و عقیدت سے پیش آتے تھے۔ یونہی سادات خانقاہ سمرقندیہ دربھنگہ حضرت سید شاہ مولانا نور علی معروف بہ حضور عالی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید شاہ شمس اللہ جان مصباحی معروف بہ بابو حضور دام ظلہ کے احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جن کے اکثر دورے علاقے اور گنجریا میں ہوتے رہتے تھے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ حضرت بابو حضور امام العلماء سے عمر میں چھوٹے ہیں، لیکن اس کے باوصف آپ ان کے ساتھ ویسے ہی اکرام سے پیش آتے تھے جو ایک شیخ کے لئے زیبا ہے۔ اکثر مدرسہ جوہر العلوم کے سالانہ جلسے میں آپ کو حضرت بابو حضور دام ظلہ العالی کو اسٹیج پر پھولوں کی مالا پیش کرتے دیکھا گیا ہے۔ غرض کہ آپ کی ذات کسی طرح کی بھی مشربی تنگ نظری یا مشربی تفریق و ترجیح سے پاک و صاف تھی اور مشائخ کے ادب کے حوالے سے نمونۂ عمل و قابلِ تقلید تھی۔
رفقائے عمل کے ساتھ روابط:
اپنے زملائے عمل کے ساتھ ایک محتاط تعلق رکھتے تھے، نہ تو بہت کھلے رہتے تھے اور نہ ہر ایک سے منقطع ہوکر اپنی ذات ہی تک محدود، بلکہ ایک درمیانہ قسم کا تعلق رکھتے تھے تاکہ رفقائے عمل کو آپ کے ساتھ کام کرنے کا مزہ بھی آئے اور منصب کا وقار و ادب بھی ملحوظ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے طویل عرصے تک ایک ہی مدرسے میں رہنے کے باوجود کسی رفیق عمل کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی اور نہ صدر المدرسین کے منصبی وقار پر کوئی آنچ آئی۔
بیماروں کی عیادت و مزاج پرسی:
درس و تدریس، دعا تعویذ، وعظ و خطابت اور مدرسہ کی دیگر گوناگوں انتظامی مصروفیات کے باوجود آپ سنت نبوی علی صاحبھا التحیۃ والثناء کے مطابق بیماروں کی عیادت کے لئے بھی جاتے، ان کی مزاج پرسی کرکے انہیں تسلی دیتے اور ان کے شفا کے لئے دعا بھی کرتے تھے۔
میرے والد ماجد جناب محمد اقبال نوری صاحب کو اختتام مئی، 2020ء میں منھ میں ہلکا سا لقوہ ہوگیا جس سے وہ کافی گھبرا گئے۔ حضرت کو اطلاع ملتے ہی میرے غریب خانے پر تشریف لائے، والد صاحب کی ڈھارس بندھائی اور ان کے جلد شفا کے لئے دعائیں بھی کیں۔ اسی مرض میں دو بار حضرت امام العلماء والد صاحب کی عیادت کے لئے آئے، جبکہ عموما آدمی ایک بار رسمی عیادت کے بعد دوبارہ جانے کے بارے میں سوچتا ہی نہیں، لیکن یہ امام العلماء تھے جن کا ایک منفرد ہی دل موہ لینے والا انداز تھا۔ اس وصف میں بھی ہم سبھوں کے لئے سامانِ عبرت ہے۔
دعا تعویذ میں محتاط رویہ:
یہ تو معلوم ہے کہ حضرت امام العلماء اپنے استاذ گرامی کے حکم سے 1972ء میں مدرسہ جوہر العلوم گنجریا کے عہدۂ صدر المدرسین پر بحال ہوئے تھے، لیکن یہ نہیں معلوم کہ حضرت نے دعا تعویذ و عملیات کا آغاز کب سے کیا تھا؟ خیر جب سے بھی کیا ہو، لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت اس حوالے سے کافی محتاط تھے، حضرت کو دستِ شفا حاصل تھا، ان کی دعا تعویذ کافی مؤثر تھی، دور دراز سے لوگ دعا تعویذ کے لئے آتے تھے، مدرسہ کے پہلے پہر کی چھٹی کے بعد دوسرے پہر کی پڑھائی شروع ہونے سے پہلے دعا تعویذ والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ مدرسے میں اقامتی نظام شروع ہونے سے پہلے حضرت، مولانا عبد الواحد آزاد مرحوم مؤلف اسلامی حیرت انگیز کے کھلیان میں ایک باہری گھر میں رہتے تھے اور وہیں لوگوں کو دعا تعویذ دیتے تھے۔ دعا تعویذ کو وہ خدمت خلق سمجھ کر کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے عوض کسی سے بھی کسی مخصوص رقم کا مطالبہ نہیں کرتے تھے، بلکہ جو جتنا دیتا تھا بخوشی رکھ لیتے تھے، ہاں اگر کسی مریض کو ضرورت دیکھ کر ہومیوپیتھک دوائیاں بھی دیتے تو دوائیوں کی قیمت بتا دیتے، لیکن دعا تعویذ کی نہیں۔
دعا تعویذ والوں میں چونکہ عورتیں ہی زیادہ ہوتی تھیں تو اس حوالے سے حضرت کافی محتاط تھے۔ عورتوں کو ہمیشہ برآمدے میں تعویذ لکھ کر دیتے، کبھی بھی کسی عورت کو اپنے سونے کے کمرے میں بٹھا کر تعویذ نہیں لکھتے جیسا کہ بعض معوذین ایسا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دعا تعویذ کرنے کے باوجود حضرت پر کوئی تہمت نہیں لگی اور ان کا دامن کبھی بھی کسی داغ سے آلودہ نہیں ہوا، بلکہ اس طرح کی تہمت و داغ سے وہ زندگی بھر پاک و صاف رہے۔ حضرت کی صاف و شفاف شخصیت پر یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے اور حضرت کا یہ وصف عاملین کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
ایک مرتبہ فراغت کے بعد مجھے نظر بد و سحر وغیرہ سے بچنے کے لئے تعویذ کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت سے میں نے مدرسہ میں جاکر تعویذ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میری ٹرین آج ہی ہے (الہ آباد یا دہلی کے لئے)۔ یہ سن کر حضرت نے کہا کہ آپ گھر چلے جائیں اور سامان تیار کریں، میں کسی طالب علم کے ذریعے آپ کا تعویذ لکھنے کے بعد بھیج دیتا ہوں۔ میں نے حضرت کو کچھ نذرانہ دینا چاہا تو حضرت نے فرمایا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تقریباً نماز ظہر کے بعد ہی ایک طالب علم میرے غریب خانے پر آیا اور مجھے تعویذ دے کر گیا۔ اپنے طالب علم کے ساتھ ایک استاذ کا کیا رویہ ہونا چاہیے یہ حضرت کی زندگی کے مطالعے سے سیکھا جا سکتا ہے۔
مدرسہ جوہر العلوم گنجریا میں زمانۂ طالب علمی کے دوران ایک عرصہ تک حضرت تعویذات کے پیتل کے خول بنوانے کے لئے مجھے کہتے تھے جنہیں میں آنجہانی نوگین کرموکار سنار سے بنواکر لا کرکے دیتا تھا جن کا گھر میرے پڑوس ہی میں تھا۔ تو اس طرح سے تعویذات و عملیات کے باب میں حضرت کی خدمت کی مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی ہے۔
مہمان نوازی:
مجھے تعیین کے ساتھ سال یاد نہیں ہے، لیکن اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ حضرت استاذ گرامی امام العلماء ہفتوں بیمار ہوگئے تھے تو مزاج پرسی کے لئے میں، اپنے پھوپھے زاد بھائی ماسٹر رضی احمد (ابن ماسٹر سعد ابو نصر مرحوم سابق استاذ جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا) کے ہمراہ حضرت کے گھر پہنچا۔ تقریباً ایک بجے دن کا وقت تھا، پہنچتے ہی ہم لوگوں کے سامنے ٹھنڈا مشروب پیش کیا گیا، مشروب پینے کے دوران ہی میں نے حضرت کی خبر خیریت دریافت کی اور پھر چلنے کے لئے اجازت طلب کی تو حضرت نے فرمایا کہ کھانا کھالیں تب جائیں تو میں نے کہا کہ کھانا پھوپھی زاد ہمشیرہ کے یہاں گوا باڑی (خبر گاؤں) میں کھانا ہے، پہلے سے فون کردیا گیا ہے۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ تب تو پھر چائے وائے پی کر ضرور جائیں، جبکہ اس سے پہلے ہم لوگ ٹھنڈا مشروب پی چکے تھے، لیکن اب چائے پینے کے لئے حضرت کا مزید اصرار تھا، ایک استاذ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہمت ایک شاگرد میں کہاں ہوتی ہے۔ لہذا ہم دونوں مزید بیٹھ گئے اور چائے کا انتظار کرنے لگے، چائے میں تاخیر ہو رہی تھی تو میں نے حضرت کی اہلیہ محترمہ سے کہا کہ چائے رہنے دیجیے، تاخیر ہو رہی ہے تو اس پر وہ کہنے لگیں کہ نہیں، چائے پی کر جائیں، ورنہ حضرت ہم لوگوں کو بعد میں ڈانٹیں گے اور پھر بالآخر چائے وائے کے بعد ہی ہم لوگوں کو وہاں سے آنے کی اجازت ملی۔ یہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں، بتایا جاتا ہے کہ حضرت کا معمول تھا کہ وہ کسی بھی مہمان کو کھلائے پلائے بغیر خواہ ایک قلفی چائے ہی سہی، نہیں چھوڑتے تھے اور کھلانے پلانے کے علاوہ مہمان سے بات چیت بھی کرتے تھے اور مہمان کی آمد پر خوش ہوتے تھے۔ حضرت کی زندگی کا یہ ایک بڑا وصف ہے جو قابل تقلید ہے، کیوں کہ آج کے مصروف اور اخلاقی انحطاط پذیر دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض گھروں میں میزبان، مہمان کو کھلا پلا دیتے ہیں، لیکن بات چیت اور خبر خیریت دریافت کرنے سے گریز کرتے ہیں مصروفیت کی وجہ سے یا پھر اپنی بد خلقی کی وجہ سے اور بعض گھروں میں تو گھر والے مہمان کو دیکھ کر منھ بسورے نظر آتے ہیں جیسے کہ آپ مہمان نہیں ہوں، کوئی آفت ہوں، جبکہ مہمان کو دیکھ کر آدمی کو خوش نظر آنا چاہیے اور دلی مسرت ہونی چاہیے۔
یہ تمام کے تمام اوصاف قابلِ تعریف اور لائق اتباع ہیں۔ میں نے یہ چند اوصاف عجلت میں حضرت کے صاحبزادے عزیز گرامی مفتی توقیر رضا مصباحی کی خواہش پر سپرد قرطاس کر دیے ہیں، ورنہ حضرت کی حیات زریں کے اکثر پہلو قابل مطالعہ ہیں اور اس سمندر سے بہت سے موتی نکالے جا سکتے ہیں۔ بالآخر حکم ربی کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت 3 صفر المظفر، 1442ھ/ مطابق 21 ستمبر، 2020ء، بروز پیر، صبح 8 بجے کے وقت علم و فضل اور اخلاق و اوصاف کا یہ مہر درخشاں ایک جہان کو منور کرکے رو پوش ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔