Site icon

صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے

شیخ حسینہ واجد کا زوال مطلق العنان حکمرانوں کیلئے ایک نصیحت

✍ سید سرفراز احمد

____________________

دنیا میں تاریخ باربار اپنے آپ میں دہراتے رہتی ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے لیکن کوئی بھی ظالم اس سے نصیحت حاصل نہیں کرپاتا یا تو وہ سب جانتے بوجھتے نصیحت حاصل کرنا نہیں چاہتا یا پھر انکی عقلوں پر پردہ حائل ہوجاتا پھر آخر کار انھیں ایسی منہ کی کھانی پڑتی ہے کہ دوبارہ وہ چلنا تو دور وہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تاریخ میں درج اس مثال کو دنیا کے گوشے گوشے میں پیش کی جاتی ہے کہ ایڈولف ہٹلر چالیس لاکھ یہودیوں کا قاتل بن کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کتنا ظالم اور ڈکٹیٹر تھا جسکے اندرنسل پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

جب اسکو جرمنی کے صدارتی انتخابات میں بزرگ اُمیدوار جنرل پال وون ہنڈن برگ سے شکست ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ چانسلر بن جاتا ہے اور سارے اختیارات اسکو حاصل ہوجاتے ہیں اور پھر وہ اپنی تانا شاہی طاقت کے بل پر فیصلے کرتا ہے یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے منصوبے بنائے جاتے ہیں سوویت یونین سے طویل ماہ تک لڑائی جاری رہتی ہے بالآخرسوویت یونین کے آگے ایڈولف ہٹلر کی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے اور ہٹلر کاسوویت یونین کو شکست دینے کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے جب اسکو یہ خدشہ محسوس ہوجاتا ہے کہ میں سوویت یونین کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤں گا تب وہ خودکشی کرلیتا ہے کہنا یہ مقصود ہے کہ دنیا میں جب کبھی بھی کسی نے بھی ڈکٹیٹر شپ یا آمریت والی حکمرانی کی اسکا انجام یا تو خودکشی کے روپ میں سامنے آیا یا تو اس نے ملک سے راہ فرار اختیار کی۔

ظلم وآمریت کی یہ تاریخ برصغیر میں بار بار دہررا رہی ہے پہلے افغانستان میں اشرف غنی کو زوال سری لنکا میں راجا پکشے اور اب بنگلہ دیش میں شیخ واجدہ حسینہ کوزوال، ان سب کی یہ خصوصیت رہی کہ ان کی قسمت نے انھیں اپنے ہی ملک سے بھگانے کا کام کیا اس سے قبل پاکستان سے پرویز مشرف نے بھی راہ فرار اختیار کی تھی فرق صرف اتنا ہے کہ مشرف اور اشرف نے متحدہ عرب امارات میں پناہ لی تھی راجا پکشے مالدیپ سے سنگار پور میں پناہ لی اور شیخ واجدہ حسینہ نے بھارت آکر پناہ لی،جنوری 2024 میں لگاتار چوتھی مرتبہ جیت حاصل کرتے ہوئے وزیراعظم بننے والی شیخ واجدہ حسینہ کو چوتھی معیاد کے آٹھویں مہینہ میں ہی زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑا واجدہ حسینہ حکومت کے خلاف ہورہے احتجاج نےبہت کم عرصہ میں یعنی جون سے احتجاج اور اگسٹ میں انقلاب برپاء پیدا کردیا شائد کہ خود واجدہ حسینہ نے کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا ہوگا۔

بنگلہ دیش میں طلبہ و نوجوانوں کی طرف سے اس ہوئے احتجاجی مظاہروں کا پس منظر دراصل تحفظات کے کوٹے کو لیکر تھا شیخ حسینہ کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جولائی کے آغاز میں ہائی کورٹ نے سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے حوالے سے فیصلہ جاری کیا اس فیصلے کے تحت سرکاری نوکریوں میں لگ بھگ 56 فی صد کوٹہ بحال کردیا گیا تھا۔

1971 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان آزادی کی لڑائی لڑی گئی جسکی قیادت مجیب الرحمن جو شیخ حسینہ کے والد تھے بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش ایک آزاد مملکت کا درجہ حاصل کرلیا تھا جسمیں ایک طبقہ علحدہ مملکت کے قیام کے مخالف تھا جو بنگلہ دیش کا حصہ تھا۔

لیکن ہائی کورٹ نے بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والے لواحقین کو 30 فیصد تحفظات الگ سے مختص کرنے دس فیصد تحفظات اقلیتی طبقات کیلئے دس فیصد خواتین کیلئے پانچ فیصد اقلیتی طبقات کیلئے ایک فیصد معذورین کیلئے اور باقی 44 فیصد میرٹ کی بناء پر دینے کا فیصلہ دیا تھا یاد رہے کہ اس تحفظات کے کوٹے کو سال 2018 میں برخواست کردیا گیا تھا بعد میں احتجاج کے بعد دوبارہ اس کوٹے کو بحال کیا گیا تھا یہ بات ٹھیک تھی کہ جو لوگ آزادی میں حصہ لیئے انھیں تیس فیصد تحفظات دیئے جائیں لیکن کیا اسےانصاف کہا جائے گا کہ انکی آنے والی نسل در نسل کو بھی تحفظات فراہم کیئے جاتے رہیں؟اسی نا انصافی کو لیکر طلبہ نے پر امن احتجاج شروع کیا مزاحمت کا راستہ اختیار کیا پولیس کے ظلم کو برداشت کیا بالآخر معاملہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ نے21 جولائی کو طلبہ کے احتجاج اور مطالبے کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے افراد کے لواحقین کو پانچ فیصد اور خواجہ سراؤں اقلیتی طبقات و معذورین کیلئے دو فیصد اور میرٹ کی بنیاد پر 93 فیصد دینے کا فیصلہ سنایا لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی اور احتجاجی طلبہ نے انقلاب کی نئی سحر لاکر ہی دم لیا۔

بات صرف اتنی سی بھی نہیں تھی بلکہ شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارٹی اور انکی آمریت سے سے وہاں کی عوام بھی بدظن ہوچکی تھی چونکہ آمریت ہے ہی وہ راستہ جس میں اپنے بھی مخالف میں ٹھر جاتے ہیں حالت یہ ہوچکی تھی کہ جمہوریت صرف برائے نام باقی رہ گئی تھی مضبوط اپوزیشن کا تصور بھی دور دور تک نہیں تھا شیخ حسینہ وزیر اعظم کی کرسی پر ہمیشہ کیلئے براجمان رہنا چاہتی تھی ہر بار انتخابات میں ان پر عدم شفافیت کے الزامات لگتے رہے جب کہ حالیہ متنازعہ انتخابات میں بھی حزب اختلاف نے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے حصہ نہیں لیا تھا اور شیخ حسینہ ایک جمہوری ملک میں بناء اپوزیشن کے ہی جیت حاصل کرلی معزول حسینہ واجد کی آمریت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو اپنی طاقت سے دبا دیتی تھی کئی ایک جماعت اسلامی کے اعلی قائدین کو تختہ دار تک پہنچایا بلکہ اس کے علاوہ دیگر کو بھی جو جمہوریت کے بالکل مغائر ہے احتجاجی طلبہ پر فوج کا استعمال کیا 300 سے زائد نوجوان مارے گئے۔

اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ نے اس احتجاج کو کیوں منظم کیا؟بات دراصل بے روزگاری کی ہے بات کالجس میں نشستیں نہ ملنے کی ہے بات اکثریت کے اپنے حقوق کی ہے بنگلہ دیش میں بے روزگاری میں اضافہ کے سبب طلبہ و نوجوانوں کو سڑک پر مجبوراً آنا پڑا شائد کہ اگر ہائی کورٹ 56 فیصد تحفظات کا فیصلہ نہ سناتی اور طلبہ دھرنے نہ دیتے تو شیخ واجدہ حسینہ کے حسین خواب پورے ہوتے رہتے دوسرا وہ طلبہ جو مسابقتی امتحانات میں بہتر مظاہرہ کرنے کے باوجود بھی انھیں نشستیں حاصل نہیں ہورہی تھی جسکی وجہ تحفظات کا زمرہ رکاوٹ بن رہاتھا یہ ایک طرح کا سراسر ظلم تھا عوام کوطویل وقفے تک انکے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ورنہ صورتحال ایک عوامی انقلاب کا سبب بن جاتی ہے جس کو ہم بنگلہ دیش میں دیکھ چکے ہیں۔

معزول شیخ حسینہ واجد دراصل ان سے انتقام لے رہی تھی جو علحدہ بنگلہ دیش کے حامی نہیں تھے وہ ہر طرح سے ان پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے اپنا غلام بنائے رکھنے کی کوششیں کرتی رہی انھیں رضا کار کہہ کر مخاطب کیا جس کے بعد احتجاجیوں کا غصہ بھرک اٹھا لیکن وہ اقتدار کے نشے میں یہ سب فراموش کرچکی تھی کہ وہ صرف ایک مخصوص طبقے کی نہیں بلکہ پورے بنگہ دیش کی وزیراعظم ہیں آج اسی اقتدار نے انکے اس نشے کو اتار کر زوال تک پہنچادیا اور راہ فرار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور بھارت میں آکر پناہ لی معلوم ہوا کہ امریکہ نے بھی انکا ویزا منسوخ کردیا۔

بتایا جارہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد لندن کا رخ کریں گی لیکن یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ لندن بھی انکا ویزا منسوخ کرسکتا ہے اب بنگلہ دیش میں اقتدار کی کمان فوج کے ہاتھ میں جانے سے پہلے یہ اچھا ہوا کہ طلبہ تنظیموں نے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو بنگہ دیش کا عبوری وزیراعظم بنانے کی تجویز دی اور اسکو اتفاق آراء سے منظور کرتے ہوئے انھیں عبوری وزیراعظم بنادیا گیا جمعہ کے روز انھوں نے حلف بھی اٹھالیا اور سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تشدد پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا انکی کابینہ میں پندرہ مشیروں کو شامل کیا گیا جنمیں دو طلبہ تنظیم کے ناہید اسلام اور آصف محمد بھی شامل ہیں جنکی سربراہی میں یہ احتجاج منظم ہوا تھا اب یہی کابینہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گی کہ بنگلہ دیش میں اگلے انتخابات کب ہونگے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کابینہ میں دو اقلیتی طبقات کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا جو انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے مترادف ہے چونکہ ہمارے ملک کی گودی میڈیا کی جانب سے بنگہ دیش میں اقلیتوں کے متعلق من گھڑت اور ان پر مظالم کی گفت و شنید کو بڑھاوا دے کر پیش کیا جارہا تھا سوشیل میڈیا کے صارفین کئی ایک جھوٹے ویڈیوز کو بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ظلم بتاکر نشر کررہے تھے لیکن فیاکٹ چیک محمد زبیر نے ان جھوٹے ویڈیوز کی پول کھولنے کا بہترین کام کیا اس کابینہ میں دو اقلیتی ارکان کو شامل کرنا یہ ان تمام پر ایک زور دار طمانچہ ہے لیکن گودی میڈیا ایکا دوکا واقعات کو لیکر ٹی وی اسکرین پر اقلیتوں پر ظلم کی دستانیں بیان کررہا ہے یہ اچھی بات ہے کہ بھارت میں اس کا ابھی تک کوئی منفی اثر نہیں ہوا یہاں گودی میڈیا کو یہ بھی ایک زور دار طمانچہ ہے۔

لیکن انھیں اپنے خود کے ملک میں اقلیتوں پر ہورہا ظلم کبھی نظر نہیں آتا حالانکہ وہاں کے طلبہ تنظیم و دینی جماعتوں کے کارکنان اقلیتوں کے تحفظ کیلئے شب وروز پہرہ دیتے ہوئے کئی ایک تصاویر سوشیل میڈیا پر گشت کرتے دیکھے گئے وہاں کے خود ہندو کے قائد نے ایک بیان کے ذریعہ اعتراف کیا کہ بھارتی میڈیا اس طرح غیر مناسب پروپیگنڈہ نہ چلائیں باضابطہ انھوں نے میڈیا چینل کا نام لیکر بھی تشویش کا اظہار کیا جب کہ خود عبوری وزیراعظم ڈاکٹر محمد یونس نے بھی بنگلہ دیش کی عوام کو واضح پیغام دیا کہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اگر آپ چاہتے ہوں کہ میں یہ زمہ داری سنبھالوں ورنہ میں واپس چلا جاؤں گا یہ خوبی ہر ملک کے وزیر اعظم میں ہونی چاہیئے جس سے نظم ونسق کی پوری پابندی ہوتی ہے۔

معزول شیخ حسینہ واجد کے عروج و زوال کی یہ تاریخ بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ برصغیر کی ہر آنے والی نسلیں اس کا ضرور مطالعہ کرے گی جس بر صغیر میں انقلاب گردش کررہا ہو تو ایسے میں لازم ہوجاتا ہے کہ یہ الارم کی گھنٹی کی طرح ایک دستک ہے ہر وہ اس ملک کیلئے جو اپنے ہی دیش واسیوں پر مطلق العنان کی حکمرانی کررہا ہو ،رعایا پر ظلم و کے پہاڑ توڑ رہا ہو، جمہوریت کی ہر روز دھجیاں آڑا رہا ہو ،آئین مخالف فیصلے لے رہا ہو، تانا شاہی کا رعب جمارہا ہو، نسل کشی کروارہا ہو ،کمزوروں پر طاقت کا استعمال کررہا ہو، اپنے دستوری حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل رہا ہو، تو ایسے ان تمام مطلق العنان حکمرانوں کیلئے یہ سخت نصیحت ہے کہ اس سے پہلے وہ وقت اور نوبت نہ آجائے اپنی تیڑی لکیر کو سیدھی کرلیں ورنہ تاریخ اپنا کام کرتے رہےگی پھر وہی انجام ملک چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا پڑسکتا ہے وقت ہے سنبھلنے کا سنبھل جائیں ورنہ نصیب کبھی بھی بدل سکتے ہیں معزول شیخ واجدہ حسینہ کی حکمرانی کے زوال پربہادرشاہ ظفر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

Exit mobile version