✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر سیتل کوچی کالج
سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
مجدد سلسلۂ اشرفیہ، ہم شبیہ غوث الثقلین، مخدوم الأولياء، شیخ المشائخ، محبوبِ ربانی، اعلی حضرت ابو احمد سید شاہ علی حسین اشرفی میاں جیلانی کچھوچھوی قدس سرہ انیسویں صدی عیسوی کے ان بلند قد اعلام میں سے ہیں جن کی ذات علم و فضل، احسان و سلوک، اقدار و أخلاق اور مشیخت و مرجعیت کے جملہ اوصاف سے آراستہ و پیراستہ تھی۔ آپ کی ذات کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ موافق تو موافق، مخالف بھی اسے تسلیم کرتے تھے جیسا کہ ایک معاند عنید نے بحوالۂ اظہار اشرفی یہ اقرار کیا ہے:
"شاہ علی حسین صاحب ہندوستان کے گنتی کے ان بزرگوں میں ہیں جن کی پورے ہندوستان میں شہرت ہے اور ہر بستی اور ہر ضلع کے لوگ ان کو حضرت مخدوم سلطان اشرف جہانگیر سمنانی کا جانشین اور ان کی درگاہ کا سجادہ نشین سمجھتے ہیں۔”
ملفوظات حافظ ملت ص ٤٠ تا ٤١ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمہ نے اپنے پیر و مرشد اعلی حضرت علی حسین اشرفی میاں اشرفی کے متعلق بیان فرمایا کہ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ جن کی ولایت میں کوئی شبہ نہیں ان کی شان یہ تھی کہ چہرہ مبارک پر نور کی بارش ہوتی تھی- جہاں بیٹھ جاتے ایک بھیڑ جمع ہو جاتی- کیا ہندو، کیا مسلمان، تمام مذہب والے دیکھ کر فریفتہ ہو جاتے- جب حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ ایک مرتبہ اجمیر شریف تشریف لے گئے- جمعہ کا دن تھا- جمعہ کی نماز پڑھائی اور پھر نماز بعد تقریر فرمائی- اس کے بعد فرمایا: آج فقیر خواجہ کی بارگاہ میں بیعت کرنا چاہتا ہے، جس کا جی چاہے اپنا ہاتھ دیدے-یہ فرمانا تھا کہ سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور تمام حاضرین فوراً داخل سلسلہ ہو گئے-ایسا منظر اور ایسی مقبولیت تو میں نے دیکھی نہیں- اجمیر شریف کے اسٹیشن پر میں نے دیکھا کہ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ لیٹے ہوئے ہیں نہ کسی سے کچھ کہنا، نہ بولنا، لیکن لوگ ہیں کہ جوق در جوق زیارت کے لئے چلے آرہے ہیں- (بحوالہ- ماہنامہ اشرفیہ جنوری.فروری. ١٩٨٣ء)
اعلی حضرت، مجدد اہل سنت، امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ آپ کی علمی و عرفانی عبقریت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ "حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی” از مفتی محمود احمد رفاقتی، باب 3، ص: 144 میں ہے:
1327ھ میں منعقدہ [عرس] حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبد القادر بدایونی کی روداد اٹھا کر دیکھیے کہ جب حضور پر نور مخدوم الاولیاء کے مواعظ کے بعد فاضل بریلوی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ: ابھی آپ نے علم و معرفت سے لبریز ایسی تقریر سماعت فرمائی جس سے قلب منور ہوتے ہیں اور سلوک و تصوف کے وہ حقائق و دقائق سنے جس کا بیان اولیاء اللہ کے شایانِ شان ہے۔
حضرت شاہ اسماعیل حسن مارہروی علیہ الرحمۃ کا تحریری بیان حیات اعلی حضرت میں موجود ہے کہ فاضل بریلوی نے اپنے زمانہ کے مقررین و واعظین کے بارے میں اپنا طرزِ عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: حضرت ان میں ہیں جن کا بیان میں بخوشی سنتا ہوں، ورنہ آج کل کے واعظین کا وعظ سننا چھوڑ دیا ہے۔ (بحوالہ ایضاً)
مؤرخ اہل سنت مفتی محمود احمد رفاقتی مظفر پوری علیہ الرحمۃ آپ کی مشیخت و مرجعیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: "بر صغیر میں [آپ سے] سینکڑوں نادرۂ روزگار علما و مشائخ کو روحانی و باطنی فیض حاصل ہوا۔ حضور پر نور اعلی حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی قدس سرہ کی ذات عالی سلسلۂ چشتیہ اشرفیہ میں حضرت غوث العالم محبوبِ یزدانی مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی ذات و صفات کا مظہر کامل تھی، ایسا ہی رجوع، خلقت کا ازدہام، پاک باطنوں کا طلب فیوض کے لئے جمگھٹا، علمائے کبار کی نیاز مندیاں اور ارادت و گرویدگی، امرا و رؤسا کا حسن عقیدت و احترام تھا جیسا عہدِ مخدوم پاک میں تھا۔” (حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، ص: 31)
آپ کی قدسی صفات ذات با برکات سے واقعی سلسلہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ علائیہ اشرفیہ کا فیضان از سر نو جاری ہوا اور متحدہ ہندوستان سے باہر حجاز و شام، فلسطین و لبنان اور عراق و مصر تک جا پہنچا۔ حضرت مخدوم سلطان اشرف جہانگیر سمنانی کے بعد سلسلہ چشتیہ اشرفیہ میں آپ جیسا مرجع الخلائق کوئی دوسرا بزرگ نہیں گزرا۔
ولادت با سعادت:
آپ کی ولادت با سعادت 22 ربیع الثانی، 1266ھ بوقت صبح صادق کچھوچھا مقدسہ میں ہوئی۔ غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد آپ کے والد حضرت حاجی سید شاہ سعادت علی قدس سرہ نے سب سے پہلے خاندان اشرفیہ کی روایت کے مطابق آپ کے دست مبارک میں قلم تھمایا اور اسے پکڑ کر دوات میں ڈبو دیا اور اپنے ہاتھ کے سہارے کاغذ پر اسم جلالت لکھوا دیا۔
حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی میں آپ کے بچپن کے واقعات کے ضمن میں ہے کہ آپ کے بچپن کا مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ آپ رو رہے ہیں مگر جیسے ہی آذان کی آواز سنی آپ چپ ہوگئے، آپ کے طفلانہ کاموں میں اطاعت خداوندی کا مظاہرہ ہوتا تھا، آپ اپنے ہم عمروں کو قافلے کی شکل بنا کر اپنے ہمراہ کچھوچھا شریف کی آبادی سے دور کھیتوں کے میدان میں لے جاتے اور لڑکوں کے ساتھ "لا الہ الا اللہ” کی ضرب لگاتے۔ روایتیں ہیں کہ اس عمر میں جب اہل خاندان آپ کو دیکھتے، تعجب کرتے اور کہتے کہ علی حسین میاں کچھ ہونے والے معلوم ہوتے ہیں۔”(ص: 83)
تعلیم و ترتیب:
چار سال، چار ماہ، چار دن کی عمر میں موافقِ معمولِ خاندانی مولانا گل محمد خلیل آبادی نے جو بڑے اہل دل اور عارف کامل تھے، آپ کی بسم اللہ خوانی کرائی۔ مکتب کی تعلیم بھی آپ نے انہی حضرت کی خدمت میں خلیل آباد میں رہ کر حاصل کی۔ اس کے بعد مولوی کرامت علی کچھوچھوی، مولانا امانت علی گورکھپوری اور مولوی قلندر بخش کچھوچھوی سے علومِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔ ان چاروں اساتذۂ کبار نے آپ کو علمی طور پر ایسا سنوار دیا دیا تھا کہ زمانہ نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ علمائے نامدار، محدثین کبار، اساتذۂ روزگار، راسخین فقہ و افتا، مردان عقل و خرد و منطق و فلسفہ، تاجوران و نقادان زبان و ادب اور دانشوران علوم عصریہ کی مجلسوں کی زیب و زینت و رونق ثابت ہوئے اور آپ کی بزم علمی و عرفانی میں یہ جملہ شخصیتیں سر بہ زانو مؤدب بیٹھتی تھیں۔
بیعت و خلافت:
آپ کو بیعت وخلافت 1282ھ میں اپنے برادر اکبر اشرف الاولیاء حضرت سید شاہ اشرف حسین کچھوچھوی (مؤلف انوار اشرفی) سے حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ آپ قدوۃ السالکین، خاتم الاکابر حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول مارہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (فروری 1795ء تا دسمبر 1879ء بمطابق رجب 1209 ہجری تا جمعرات 18 ذی الحجہ 1296 ہجری) کے بھی خاتم الخلفا تھے۔ اس مارہروی خلافت سے متعلق ایک بڑا تاریخی واقعہ یہ ہے کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے پیر و مرشد حضرت اٰلِ رسول علیہ الرحمہ کی طبیعت زیادہ ناساز ہےتو آپ خود بغرض مزاج پرسی مارہرہ شریف تشریف لے گئے۔ حضرت آلِ رسول علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو دیکھ کر فرمایا کہ میرے پاس سرکار غوث اعظم علیہ الرحمہ والرضوان کی امانت خاص ہے جسے اولاد غوث اعظم میں شبیہ غوث الثقلین مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی کو سونپنی اور پیش کردینی ہے اور وہ اس وقت محبوب الہی نظام الدین اولیاء چشتی رضی اللہ عنہ کے آستانہ پر ہیں۔ محراب مسجد میں ملاقات ہوگی۔
چنانچہ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ دلی تشریف لائے۔ حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے آستانہ پر حاضری دی، پھر مسجد میں تشریف لائے تو واقعی پیر کی نشاندہی کے بموجب حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو محرابِ مسجد میں پایا اور برجستہ فی البدیہہ یہ شعر کہا ؎
اشرفی اے رُخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اے نظر کردہ و پروردۂ سہ محبوباں
پھر عرض مدعاکیا۔ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ نے مارہرہ شریف میں حاضری دی۔ حضرت شاہ آلِ رسول علیہ الرحمہ نے سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی اجازت اور خلافت بخشی اور یہ فرمایا کہ جس کا حق تھا اس تک یہ امانت پہونچادی ۔ اس کے بعد حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ حضرت شاہ آل رسول علیہ الرحمۃ کے خاتم الخلفاء کہلائے۔ (صحائف اشرفی، کلمات تصدیر از اشرف العلماء مولانا سید شاہ حامد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی، ص: 25-24، ناشر: ادارہ فیضان اشرف دار العلوم محمدیہ، باؤلا مسجد، دلائل روڈ، ممبئی – 13)
یہاں ایک بڑی اہم بات کی وضاحت مفتی محمود احمد رفاقتی علیہ الرحمۃ نے کی ہے کہ خاندان برکات میں حضرت مولانا سید شاہ محمد میاں مارہروی نے اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کو خاتم الخلفاء تحریر فرمایا ہے، جبکہ یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کو 25 جُمَادَی الآخِر 1294ھ میں بیعت کا شرف اور اجازت و خلافت کی نعمت حاصل ہوئی تھی اور اعلی حضرت اشرفی میاں کو حضرت شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمۃ سے دوئم، ماہ ربیع الثانی، 1296ھ کو خلافت و اجازت حاصل ہوئی اور 18 ذی الحجہ، 1296ھ میں شاہ آل رسول مارہروی کا وصال ہوگیا۔ (حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، باب 3، ص: 136)
عالمی سیاحت:
اعلی حضرت اشرفی میاں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی جیسے غوث العالم بزرگ کے مظہر اتم اور سجادہ بردار تھے جنہوں نے پورے تیس سال تک ساری دنیا کا سفر کیا تھا تو ظاہر ہے کہ اس وصف میں بھی ایک حد تک ان کا پر تو ہونا تھا۔ چنانچہ 1330 میں تیسری بار حج و زیارت کے دوران آپ نے بھی سلسلۂ عالیہ چشتیہ اشرفیہ کی عالمی اشاعت اور انبیائے کرام، آئمۂ اہل بیت، صحابۂ عظام، اولیائے کرام و صالحین امت کے مقامات و مزارات کی زیارت کے لئے ایک عالمی دورہ فرمایا سوائے ملک عراق کے جس کا دورہ 1323ھ میں حج دوم کے موقع پر کیا تھا۔ در اصل آپ نے کل چار حج کیے تھے۔ 1293ھ میں حج اول ادا کیا، 1323ھ میں حج دوم، 1329ھ میں حج سوم، جبکہ آخری حج و زیارت سے 1354ھ میں سرفراز ہوئے تھے۔ حج و زیارت اول سے پہلے آپ نے ایک نعت کہی تھی جو زبان و ادب کی شاہ کار ہونے کے ساتھ عجمی سوز و گداز اور آپ کی عارفانہ و عاشقانہ کیفیت سے بھری ہوئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
دل پہ غم نے پھر لگایا زخم کاری یا رسول
درد میں اب حد سے گزری بیقراری یا رسول
ہائے خواہش ہی مرے دل کو مدینے کی رہی
کٹ گئی حسرت میں اپنی عمر ساری یا رسول
آپ کی فرقت خزاں ہے نخل دل کے واسطے
آپ کا دیدار ہے فصلِ بہاری یا رسول
اب مریضِ عشق پر اپنے کرم فرماییے
ہجر میں کب تک کروں میں اشکباری یا رسول
دل میں ہے شوقِ زیارت، کیا کروں، مجبور ہوں
رات دن کرتا ہوں غم میں آہ و زاری یا رسول
قافلے ہر سال جاتے ہیں مدینہ کی طرف
میری کب آئے گی واں جانے کی باری یا رسول
اشرفی شوقِ زیارت میں تڑپتا ہے مدام
صدمۂ ہجراں سے ہے اب جان عاری یا رسول
(حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، ص: 89)
حج اول میں دربار رسالت سے بعض نعمتیں بھی خاص طور پر عطا ہوئیں جیسا کہ حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، ص: 90 میں ہے:
ان نعمتوں کا بیان جو سب سے اہم ہے مولانا سید فخر الدین اشرفی چشتی نظامی خواہر زادہ حضرت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوبِ الہی نے تحریر فرمایا:
ہنگامی کہ حضرت مخدومی بزیارت مدینہ منورہ زاد اللہ تکریما و تعظیما مشرف شدند در شب یازدہم محرم الحرام، بوقت تہجد، بہ نیت ادائے نصاب اصغر حِرز یمانی پیشِ مواجۂ شریفِ حضرتِ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم سر برہنہ، چہ می بینند کہ شخصی نورانہ جمال از پیش نظر درگذشت و یک تاجِ سفید عربی کہ دراں چند الفاظ جلی از ریشمِ سبز مرقوم بود بر سرِ ایشاں نہاد، چوں حضرت طرفِ آں مردِ نورانہ نگاہ کردند، بجانبِ مرقدِ منورۂ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم اشارت کرد، یعنی تاج از سلطان الانبیا مرحمت شدہ، بعد فراغ، آں درۃ التاجِ سر بلندی را بحفاظت تمام در حمائل خود نگاہ داشتند، شاملِ تبرکاتِ قدیم کردند۔
آمدم بر سر مطلب! دوسرے اور تیسرے حج کے موقع پر اپنے عالمی دورے کے دوران ملک حجاز (سعودی عرب) کو چھوڑ کر آپ نے جن ممالک کی زیارت کی تھی ان کے نام حسب ذیل ہیں:
فلسطین، شام، لبنان، عراق اور مصر اور ان ممالک میں جن شہروں اور شہروں میں واقع مقامات و مزارات و مساجد کی زیارت کی ان کے اسما صحائف اشرفی سے پیش کیے جاتے ہیں جس میں انہوں نے اس کی جلد اول، آٹھویں صحیفہ میں از ص 157 تا 184 اپنے عالمی اسفار کا تذکرہ بقلم خود کیا ہے:
بیت المقدس (فلسطین) ، قصبہ خلیل الرحمٰن جہاں ایک مسجد کے احاطے میں مزار حضرت ابراہیم علیہ السلام، مزار بی بی سارا، مزار حضرت اسحاق و معہ زوجۂ مقدسہ، مزار حضرت یعقوب علیہ السلام و معہ زوجہ اور مزار حضرت یوسف علیہ السلام واقع ہیں، غار انبیاء جس کے اندر بارہ ہزار پیغمبروں کے مزارات ہیں، مسجد اقصی، صخرۂ معلقہ، محراب داؤد علیہ السلام، مقام عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام، مقام عبادت حضرت خضر علیہ السلام، بئر الأرواح، نشان قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، نشان سم براق، حرم مزار سلیمان علیہ السلام، زیارت مہد عیسی علیہ السلام، مزار داؤد علیہ السلام، نشان عصائے مبارک حضرت موسیٰ علیہ السلام، مزار قمیر علیہ السلام، نشان قدم عیسی علیہ السلام، مزار بی بی رابعہ بصری، تکیۂ خواجہ بہاء الدین نقشبندي، تکیۂ فریدی حضرت فرید الدین گنج شکر، قصبۂ بیت لحم، مقام ولادت عیسی علیہ السلام، مزار حضرت موسیٰ علیہ السلام، مسجد جامع دمشق (ملک شام)، ضریح مزار سیدنا یحییٰ علیہ السلام، مقبرۂ سلطان صلاح الدین ایوبی، قبۂ مزار حضرت ذو الکفل علیہ السلام، محلہ صالحیہ دمشق، مزار حضرت شیخ محی الدین قدس سرہ، محلہ کردیہ، مزار حضرت سید محمد ایوب کردی، مزار حضرت سید صالح کردی، مقامِ چہل ابدال، مزار حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ، مزار حضرت بلال حبشی، مزار حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار، مزار حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،مزار سیدنا عبد اللہ ابن سیدنا زین العابدین، مزار حضرت بی بی کلثوم خواہر امام حسین علی جدہ و علیہ السلام، مزار حضرت بی بی سکینہ بنت حضرت علی، مزار ام المؤمنين ام حبیبہ و ام سلمہ، قبۂ مزار حضرت میمونہ، قریۂ زینب، روضۂ مبارکہ حضرت بی بی زینب خواہر حضرت علی، مقام سر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، مینار بیضہ، شہر بیروت (لبنان) ، جامع مسجد بیروت، مدفن دست مبارک حضرت یحییٰ علیہ السلام، حِمْص (شام) ، ضریح مبارک حضرت سیف اللہ خالد بن ولید، ضریح مبارک حضرت عبد الرحمن ابن خالد، مزار حضرت عبید اللہ ابن عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم، مزار حضرت سعد بن وقاص، مزار حضرت عکاشہ، مزار حضرت وحشی، مزار حضرت ثوبان، مزار حضرت ذو الکلع، مزار حضرت عمر بن معدی کرب، مزار حضرت ابو موسی اشعری، مزار حضرت عمر ابن عبد العزیز، مزار حضرت جعفر طیار، شہر حامہ شریف (حماۃ در ملک شام)، مزار حضرت حام بن نوح علیہ السلام، مزار سید سیف الدین یحییٰ، مزار حضرت سید شمس الدین محمد الگیلانی الحموی، مزار سید علاء الدين علی، مزار سید بدر الدین حسن، مزار سید ابو العباس احمد جیلانی الحموی جن کے بیٹے سید عبد الغفور حسن جیلانی تھے اور ان کے بیٹے سید عبد الرزاق نور العین قدس سرہ جانشین سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ہوئے، مقام امام زین العابدین علیہ السلام جہاں اسیران اہل بیت و سر شہدائے کربلا نے شام کے راستے میں ایک شب قیام کیا تھا، شہر حلب (شام)، جامع مسجد حلب، مزار زکریا علیہ السلام، شہر بصرہ (عراق)، مزار طلحہ، دریائے دجلہ، مقام علی، زیارت خانہ، قبر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، قریۂ زبیر، مزار حضرت زبیر، مزار حضرت خواجہ حسن بصری، مزار ابن سیرین امام المعبرین، مزار حضرت شیخ زین العابدین، مزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، بصرہ سے شہر بغداد کی راہ میں مزار حضرت عزیر نبی علیہ السلام، مزار سید احمد رفاعی، شہر مدائن (عراق)، دیوارِ محلِ نوشیروان، شہر بغداد (عراق)، مزار غوث پاک رضی اللہ عنہ، مزار امام غزالی، مزار شیخ شہاب الدین سہروردی، مزار شیخ الفی، قبۂ امام مرجان، مزار حضرت یوشع پیغمبر علیہ السلام، مزار حضرت جنید بغدادی، قصبۂ معظم (عراق)، مزار حضرت امام اعظم، مزار حضرت حبیب عجمی، مزار حضرت حسن نوری، کاظمین شریفین، مزار امام موسی کاظم، مزار امام محمد تقی، مزار سید ابراہیم بن موسی کاظم، مزار سید اسماعیل بن امام موسی کاظم، مزار امام ابو یوسف، شہر اور (عراق)، شہر سامرّہ (عراق)، مزار امام علی نقی، مزار امام حسن عسکری، مسجد جامع عسکریہ، قصر ہارون رشید، قصر عاشق، قریۂ مصیب، مزار تنِ بے سر فرزندان امام مسلم، مزار حضرت عون شہیدِ کربلا، شہر کربلائے معلیٰ، مزار حضرت امام حسین علیہ السلام، مزار حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر، مزار صحابی رسول حضرت حبیب ابن مظاہر جو حضرت امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے تھے، مشہد امام حسین علیہ السلام، مقام خیمہ گاہِ اہل بیت، مزار حضرت حر، مزار حضرت عباس علمبردار، موضع کفل، مزار حضرت ذو الکفل علیہ السلام، مینار تَلِّ نمرود، شہر نجف اشرف (عراق)، آستانۂ نجف اشرف، مسجد جامع علویہ، مسجد کوفہ، قبۂ حضرت کمیل ابن زیاد خلیفۂ حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ، مکان خلافت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، قبۂ جائے غسل میت جناب امیر علی علیہ السلام، زیارت مقام مشہد علی علیہ السلام، مقام عبادت حضرت نوح علیہ السلام، زیارت مقام امام زین العابدین، زیارت مقام جبرئیل علیہ السلام، زیارت مقام حضرت آدم علیہ السلام، زیارت مقام حضرت امام جعفر صادق، زیارت مقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، مقام سفینۂ نوح علیہ السلام، مقام حضرت عیسی علیہ السلام، مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام، مقام زیارت حضرات حسنین علیہما السلام، قبۂ زیارت حضرت مسلم بن عقیل، قبۂ ہانی ابن عروہ، شہر قاہرہ (مصر)، مزارِ محمد علی پاشا، کنواں جس میں حضرت یوسف علیہ السلام قید تھے، مزارِ ہمراہیِ حضرت یوسف علیہ السلام، جامع مسجد حضرت عمر فاروق، مزارِ حضرت عمرو بن العاص، دریائے نیل، مزارِ حضرت ابو ہریرہ، مزارِ سیدنا یحییٰ ابن حضرت ابو ہریرہ، محلہ سیدنا حسین، مدفن سر امام حسین علیہ السلام، محلہ ستی زینب، مزارِ حضرت بی بی زینب، زیارتِ قبۂ حضرت سیدتنا رقیہ بنت علی رضی اللہ عنہما، زیارتِ قبۂ سیدنا محمد مرتضی بن حضرت علی جعفر ابن امام جعفر صادق، مزارِ بی بی سیدتنا عاتقه بنت عبد المطلب، زیارتِ بی بی نفیسہ بنت سید حسن الانوار ابن سیدنا زید ابن سیدنا امام حسن، مزارِ امام لیث ابن سعد یافعی، مزارِ سیدنا شعیب ابن امام لیث، مزارِ حضرت امام شافعی، مزارِ ملکۂ شمس، مزارِ اولادِ حضرت ابو بکر صدیق، مزارِ بی بی عائشہ بنت امام جعفر صادق، مزارِ حضرت کنکوس سلطان ترکی عرف عبد اللہ مغاور، جامع ازہر، کتب خانۂ جامع ازہر، اہرامات مصر۔
دورانِ سیاحت و زیارت اعزاز و اکرام اور افادہ و استفادہ:
اس عالمی سیاحت کے دوران بعض اساطین علم و فضل اور ارباب سلوک و احسان نے آپ کو بڑے ہی اعزاز و اکرام سے نوازا اور خلافت و شجرہ عنایت کیا اور بعض کو آپ نے اجازت و خلافت مرحمت کی۔ اب اس کی تفصیل ذیل کی سطور میں ملاحظہ کریں:
صحائف اشرفی، جلد اول، آٹھویں صحیفہ میں ہے: اس شہر (دمشق) میں حضرت مولانا بدر الدین محدث جن کو حدیث بالمواجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل ہوئی، تشریف فرما ہیں۔ آپ کی زیارت سے جب فقیر مشرف ہوا، کمال اخلاق سے ملے اور دعوت ماحضر چائے و بسکٹ مع دیگر تفکہات پیش کیے۔
آپ کی خدمت میں دیار عرب و شام کے طلبا واسطے تکمیل حدیث کے بکثرت رہتے ہیں۔ جامع مسجد بنی امیہ میں ہر جمعہ کو آپ وعظ حدیث فرماتے تھے، صحاح ستہ کے حافظ تھے، وعظ میں یہ خوبی کہ ائمۂ اربعہ کے مسائل معہ دلائل بیان فرماتے تھے جس میں ہر مذہب اربعہ والے استفادہ کرتے تھے۔ ( ص: 163)
(ملک عراق میں سید عبد الرحمن نقیب الاشراف ) کے بھائی سید سلیمان کے پوتے سید ابراہیم ہیں جن کے قصر میں ایک قطعہ میں لکھا تھا: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا (125)، یہ فقیر چالیس روز تک آپ ہی کا مہمان تھا۔ آپ کی ذات بھی زیور علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ پائی گئی۔ یہ سب حضرات حضرت سید عبد العزیز ابن حضرت غوث پاک کی اولاد سے ہیں۔ (ایضاً، ص: 170)
(شہر حامہ شریف میں) اوّل سید صالح آفندی ابن حضرت سید مرتضیٰ آفندی نقیب الأشراف رزاقی القادری کی ملازمت سے جب فقیر مشرف ہوا۔ قبل ملازمت، دل میں یہ خیال گزرا کہ اگر حضرت صالح آفندی مجھ کو خرقۂ خلافت اور شجرۂ ارشاد سے مشرف فرماتے تو خوب تھا۔ ملاقات کے بعد بلا استفسار شجرۂ بیعت ارشاد میں میرا نام لکھ کر عنایت کیا اور شب کو خلوت میں بعد تلقین خاندان قادریہ ایک تاج خرقۂ خلافت میرے سر پر رکھا اور فرمایا کہ وقت حلقۂ ذکر اس کو سر پر رکھ لیا کرنا اور ہنس کر فرمایا "قلب کے اندر ایک باریک سوراخ ہوتا ہے اس سے سب کچھ نظر آتا ہے۔” اور اس کے بعد حضرت سید عبد الجبار شیخ طریقت حامہ شریف نے فقیر کو شجرۂ ارشاد آبائی عنایت کیا جس میں آپ کے نام سے امام حسن على جدِهٖ و عليه السلام تک برابر عن أبيهٖ سب کو اپنے باپ سے سلسلہ پہنچا۔ اس سلسلہ کو سلسلة الذهب کہنا چاہیے۔ (ایضاً، ص:167-166)
حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی از مفتی محمود احمد رفاقتی، باب 6 میں ہے:
حضور پر نور مخدوم الاولیاء مرجع اہل قبول (اعلی حضرت اشرفی میاں) کا یہ سفر حاضری آخری تھا۔ مدینہ طیبہ کے علمائے کبار اور مشائخ وقت کی ہمہ وقت حاضری رہتی تھی، بیعت و ارشاد کا سلسلہ جاری رہتا تھا، اسی موقع پر حضور نے حضرت مولانا محمد علی حسین بکری فاضل خیرآبادی مدنی کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، ممدوح مدینہ طیبہ کے مرجعِ علما تھے، ان کی ذات گرامی اعلمِ علمائے مدینہ طیبہ کی تھی، ان کو "ولی اللہ شاہ” لقب بھی مرحمت فرمایا۔ اسی سفر میں استاذ العلماء حضرت مولانا عبد الباقی فرنگی محلی مدنی بانی و شیخ جامعہ نظامیہ، مدینہ طیبہ شریف خلافت خاصہ سے سرفراز ہوئے۔ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد مہاجر مدنی نے بھی نعمت خلافت پائی۔ (ص: 201)
معلومات افزا تذکرۂ اسفار:
اعلی حضرت اشرفی میاں نے اپنے اسفار کا صرف سرسری تذکرہ نہیں کیا ہے، بلکہ جہاں بھی وارد ہوئے وہاں کی معلومات افزا تفصیلات بھی لکھی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال دیتا ہوں۔
کربلائے معلیٰ ایک بڑا شہر ہے، اس کی آبادی وسیع ہے، وسط شہر میں قبۂ مزارِ حضرت امام حسین علی جدہ و علیہ السلام ہے جو بالکل مُغَرَّق سنہرا ہے، آپ کی ضریح مبارک کے پائیں دو چھوٹی ضریحوں میں آپ کے صاحبزادگان حضرت علی اکبر اور حضرت علی اصغر کے مزار ہیں، قبہ کے اندر سمت گوشۂ مشرق و جنوب ایک کوٹھری کے اندر گنج شہیداں ہے جس میں اٹھارہ بنی ہاشم مدفون ہیں، کوٹھری کا دروازہ مقفل رہتا ہے، بوقت زیارتِ خاص کھلتا ہے، سمت جنوب دالان میں جس کو رُواق کہتے ہیں، مزارِ صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حبیب ابن مظاہر رضی اللہ عنہ کی زیارت ہے جو حضرت امام حسین علی جدہ و علیہ السلام کے ساتھ شہید ہوئے تھے، اس مقام پر ایک منبر رکھا رہتا ہے، اکثر اہل ایران بزبان فارسی ذکرِ شہادت امام حسین علی جدہ و علیہ السلام بیان کرتے ہیں، اسی رواق کے گوشۂ مغرب و جنوب میں ایک گنبد کے اندر چند زینہ اتر کر زیارتِ مشہد امام علی جدہ و علیہ السلام ہے جہاں آپ کا سر مبارک شِمْر ملعون نے تن اقدس سے جدا کیا تھا، مقامِ مشہد امام علی جدہ و علیہ السلام سے تین سو قدم کے فاصلے پر مقامِ خیمہ گاہِ اہل بیت کی زیارت ہے۔ (صحائف اشرفی، جلد اول، آٹھواں صحیفہ، ص: 176-175)
توضیحِ مقامات:
تذکرۂ اسفار میں کسی کسی مقام کے حوالے سے بڑا مفصل و توضیحی لکھا ہے جیسا کہ مقام سامرہ میں جامع مسجد عسکریہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
(مقام سامرہ میں) احاطۂ حرم روضہ (امام علی نقی اور امام حسن عسکری) کے باہر سمت مغرب جامع عسکریہ کے نام سے ایک مسجد مشہور ہے، اس مسجد کی بیچ کی دیوار پانچ گز سے کم چوڑی نہ ہوگی، اس دیوار کے نیچے تہ خانہ ہے، زینہ سے اتر کر ایک کوٹھری ہشت پہل ملتی ہے، اس کے اندر شرقاً غرباً قریب سات گز کے ایک لانبا دالان ہے، اس دالان کی دیوار میں عمدہ عمدہ اشعارِ فارسی مناقب ائمۂ اہل بیت میں لکھے ہوئے ہیں، اسی دالان کے شرقی حصہ میں ایک مربع کوٹھری ہے، اس کے بیچ میں ایک تنگ و تاریک غار ہے جس کا منھ تنور سے کچھ بڑا ہے، کہتے ہیں کہ امام مہدی آخر الزماں علی جدہ و علیہ السلام اسی غار سے غائب ہوگئے۔ مشائخ نے یہ فرمایا کہ سید محمد مہدی جن پر امام مہدی آخر الزماں کا گمان کرتے ہیں، مرتبۂ ابدال کو پہنچ کر چشم خلائق سے مخفی ہوگئے اور امام موعود مہدی آخر الزماں علی جدہ و علیہ السلام، امام حسن علی جدہ و علیہ السلام کی اولاد سے ہوں گے۔ (ایضاً، ص: 174)
رفعِ اشتباہِ مقامات:
آپ نے کہیں کہیں اپنی رودادِ سیاحت میں مقامات کے حوالے سے اشتباہ کو بھی دور کیا ہے جیسا کہ محلہ ستی زینب، مصر میں مزارِ بی بی زینب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ایک محلہ بنام ستی زینب مشہور ہے، وہاں مزارِ حضرت بی بی زینب کی عمارت سنگ مرمر کی ہے اور فرش قالین استنبولی و شیشہ آلات سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ یہ بی بی شاید ائمہ اثنا عشریہ میں سے کسی امام کی صاحبزادی ہوگی، کیوں کہ بی بی حضرت زینب خواہر امام حسین علی جدہ و علیہ السلام کے مزار کی زیارت دمشق سے چار کوس کے فاصلہ پر قریۂ زینب میں حاصل کی تھی۔ (ایضاً، ص: 182)
مزید لکھتے ہیں:
شہر مصر میں اکثر امام زادوں اور امام زادیوں کے مزارات کی زیارت ہوتی ہے۔ چنانچہ محلہ کرکول میں زیارتِ مزارِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی مشہور ہے اور آپ کا مزار شہر مدینہ قبۂ اہل بیت میں ہے۔ شاید آپ کے کسی صاحبزادے کا مزار ہو اور اس مزار کے پاس سیدنا زید شہید کا بھی مزار ہے۔ اور عمارت مزارِ بی بی سکینہ بنت حضرت امام حسین علی جدہ و علیہما السلام مصر میں بھی ہے اور فقیر نے دمشق کے تہ خانۂ قبرستان میں حضرت بی بی کلثوم خواہر حضرت امام حسین علی جدہما و علیہما السلام کے پاس آکے زیارت کی ہے۔ (ایضا، ص: 183-182)
وجہِ تسمیۂ مقامات:
روداد اسفار میں بعض مقامات کی وجہ تسمیہ بھی لکھتے ہیں جیسے اسکندریہ کی وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے۔
اسکندریہ جہاں آئینۂ سکندر ہے۔ شرح اس کی یہ ہے کہ سکندر نے تیس گز کا آئینہ بنایا تھا اور ایک بلند مینارہ پر اس کو لگایا تھا۔ قوم فرنگی راتوں کو اور دن میں کشتی پر سوار ہوکر دریا کے راستے سے آکر شہر میں ڈاکہ مارتے تھے۔ اس آئینہ کے لگانے سے ان کی کشتیوں کا عکس اس آئینہ میں نمودار ہوتا تھا اور اہل شہر مع اسلحہ کے پہلے سے جنگ کے واسطے تیار ہوجاتے تھے اور فرنگیوں کو مار کر بھگا دیتے تھے۔ (ایضاً، ص: 184)
اس معلوماتی تفصیل سے آپ اعلی حضرت اشرفی میاں کی قوت مشاہدہ اور قوت حافظہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پورے اسفار کی ایسی ہی مفید و اطلاعاتی تفصیل آپ نے لکھی ہے۔ ابن بطوطہ کا سفرنامہ پڑھیں گے اور اعلی حضرت اشرفی میاں کی روداد سیاحت تو دونوں میں آپ کو بڑی یکسانیت نظر آئے گی۔ اس اعتبار سے آپ اعلی حضرت اشرفی میاں کو اپنے عہد کے عظیم سیاح اور ابن بطوطہ بھی کہ سکتے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اعلی حضرت اشرفی میاں جیسے صوفی منش سیر و سیاحت کے ان آداب کو کیسے نبھا گئے۔ اس سے اعلی حضرت اشرفی میاں کی ہمہ جہت و ہشت پہلو شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تذکرہ کی زبان:
اعلی حضرت اشرفی میاں کا تذکرۂ اسفار پڑھیں گے تو آپ کو اشرفی میاں کی زبان دانی اور سیاحتی اسلوب کا بھر پور اندازہ ہو پائے گا اور ساتھ میں یہ بھی دیکھیں گے کہ اعلی حضرت اشرفی میاں نے اس عالمی سیاحت کے دوران گاہے بہ گاہے ائمۂ اہل بیت اور مشائخ طریقت کے لئے فارسی اور اردو زبان میں قصیدے بھی کہے ہیں جس سے آپ کی زود گوئی و قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے بصرہ، عراق میں مزارِ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تو برجستہ ان کی شان میں ایک شاہ کار قصیدہ لکھا جو درج ذیل ہے:
شاہِ با عز و شاں حسن بصری
آسمان آستاں حسن بصری
مرشدِ مرشداں حسن بصری
قبلۂ انس و جاں حسن بصری
خاک بصرہ نہ کیوں ہو کحل بَصَر
جلوہ گر ہے یہاں حسن بصری
ابن سیریں ہے تیرے زیرِ قدم
کیا شرف ہو بیاں حسن بصری
مرشدِ سالکانِ راہِ خدا
ہادیِ گمرہاں حسن بصری
ان میں ظاہر ہے شانِ مرتضوی
ہیں علی کے نشاں حسن بصری
شاہدِ خلوتِ جمالِ ازل
دلبرِ عاشقاں حسن بصری
نائبِ خاصِ مرتضیٰ ہیں یہی
مقتدائے جہاں حسن بصری
کشتی پہنچے گی اس کی ساحل پر
جس کے ہوں بادباں حسن بصری
کیوں نہ ہو سرِ حق عیاں مجھ پر
دل میں ہیں جب نہاں حسن بصری
اشرفی کے لئے ہر عالم میں
بحرِ فیض رواں حسن بصری
(صحائف اشرفی، جلد اول، آٹھواں صحیفہ، ص: 169-168)
حاصل یہ کہ زبان و ادب کے اعتبار سے اعلی حضرت اشرفی میاں کے تذکرۂ اسفار کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ پوری روداد سفر معلوماتی و اطلاعاتی ہونے کے ساتھ زبان و ادب اور سیاحتی اسلوب کی شاہ کار ہے۔ تذکرے میں ایسی منظر کشی کی گئی ہے کہ لگتا ہے کہ آپ خود ان مقامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور زبان ایسی جو بالکل گنجلک نہیں۔ اس عہد میں ایسی سلیس و شستہ اردو دیکھ کر کافی حیرت ہوتی ہے اور اعلی حضرت اشرفی میاں کی زبان دانی، منظر نگاری اور قادر الکلامی پر ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔
مصادر و مراجع:
- 1- صحائف اشرفی، مرتب: اعلی حضرت علی حسین اشرفی میاں، ناشر: ادارہ فیضان اشرف دار العلوم محمدیہ، باؤلا مسجد، دلائل روڈ، ممبئی – 13
- 2- حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، مفتی محمود احمد رفاقتی، ناشر: حضرت امین شریعت ٹرسٹ، اسلام آباد، مظفر پور، بہار
- 3- ملفوظات حافظ ملت ص ٤٠ تا ٤١، مرتب-مولانا اختر حسین فیضی مصباحی، اشاعت ١٤١٥ھ، ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ
- 4- تحائف اشرفی، اعلی حضرت اشرفی میاں
- 5-کوائف اشرفیہ