۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

گنجریا میں موئے مبارک: تاریخ و تعارف

گنجریا میں موئے مبارک: تاریخ و تعارف

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور

ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال

_________________

گنجریا بستی (واقع ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) کی تاریخ میں موۂے مبارک کا واقعہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو اس بستی کی روحانی اور تاریخی وراثت کا حصہ بن چکا ہے۔ اس مقدس تبرک کی تاریخ، اس کے حصول، اور گنجریا میں اس کی حفاظت کا عمل نہایت دلچسپ اور قابل ذکر ہے۔ آئیے اس کی تاریخ اور پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔

گنجریا میں موۂے مبارک کا پس منظر:

یہ موۂے مبارک، جو دراصل ریش مبارک کے ایک بال کا ریشہ ہے، مولانا جمیل اختر اشرفی کے توسط سے گنجریا پہنچا۔ مولانا جمیل اختر اشرفی، جو سرکار پٹی گنجریا بستی کے ایک معروف صاحب ثروت عالم ہیں، نے یہ تبرک گجرات کے ایک خدا ترس شخص یوسف بھائی ساکھر والا سے حاصل کیا۔ 1997 میں بھاؤ نگر، گجرات میں شیخ طریقت حضرت محمد جیلانی میاں کچھوچھوی دام ظلہ کی سرپرستی میں ایک عظیم الشان اسپریچول ٹریننگ کیمپ منعقد کیا گیا تھا۔ اس کیمپ کے انتظام و انصرام کے اہم ذمہ دار کے طور پر مولانا جمیل اختر اشرفی صاحب بھی بھاؤ نگر تشریف لے گئے تھے۔ وہیں پر ان کی ملاقات یوسف بھائی ساکھر والا سے ہوئی، جو بھاؤ نگر ہی کے رہنے والے اور شیخ الاسلام حضرت علامہ مدنی میاں دام ظلہ کے مرید اور حضرت جیلانی میاں کے طالب تھے۔

یوسف بھائی کے پاس ان کے آبا و اجداد سے ہوتا ہوا ایک اہم موۂے مبارک تھا جس میں قدرتی طور پر ریشے نکلتے رہتے تھے۔ انہی ریشوں میں سے ایک ریشہ انہوں نے مولانا جمیل اختر اشرفی صاحب کو عنایت کیا۔ مولانا جمیل اختر صاحب نے اس مقدس تبرک کو حاصل ہونے کے بعد بڑے احترام کے ساتھ سوئی والان، دہلی کے یوسف بھائی کے ہاتھوں، جو اس وقت ان کے ساتھ تھے، ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی بھیجا۔ دہلی سے بعد میں مولانا جمیل اختر صاحب اس موۂے مبارک کو اپنے گاؤں گنجریا لے آئے اور ابتدائی برسوں میں اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے گھر واقع سرکار پٹی میں محفوظ رکھا۔

گنجریا جامع مسجد میں موۂے مبارک کا ورود مسعود:
مولانا جمیل اختر اشرفی نے کچھ عرصے بعد اس مقدس تبرک کو گنجریا کی جامع مسجد کو عطیہ کر دیا۔ جامع مسجد کی اندرونی عمارت کے جنوبی مغربی حصے میں ایک مخصوص طاق میں اسے اہتمام کے ساتھ رکھا گیا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ موۂے مبارک کی زیارت صرف بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن کرائی جائے گی۔

زیارتِ عام کا اہتمام:

ہر سال بارہ ربیع الاول کے موقع پر، موۂے مبارک کو مسجد کے طاق سے نکال کر گنجریا مدرسے میں لے جایا جاتا تھا، جہاں صبح سے شام تک زیارت عام کرائی جاتی تھی۔ اور پھر دوسرے دن بعد نماز فجر اس مقدس تبرک کو دوبارہ مسجد میں لاکر اسی مخصوص جگہ پر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس زیارت کی مزید منظم اور بہتر طریقے سے انجام دہی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کے پہلے سکریٹری الحاج ماسٹر سعید اختر منتخب ہوئے، جن کی نگرانی میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر زیارتِ عام اور جلسے کا اہتمام کیا جانے لگا۔

موۂے مبارک کے لئے مختص عمارت کی تعمیر:

کئی سالوں تک زیارتِ عام اور جلسے کے انعقاد کے دوران جمع ہونے والی رقم سے موۂے مبارک کے لئے ایک بلند و بالا و پر شکوہ عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ عمارت جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا کے احاطے میں تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد، موۂے مبارک کو جامع مسجد سے اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ تاہم، اس مقدس عمارت کی مزید تزئین کاری اور نقش نگاری کا عمل ابھی بھی باقی ہے۔ امید ہے کہ موجودہ سکریٹری مولانا تنویر احمد مصباحی اسے انجام دیں گے۔

موۂے مبارک کی صداقت اور کرامت:

موۂے مبارک کی صداقت اور اس کی روحانیت کی ایک نمایاں کرامت یہ ہے کہ اس میں قدرتی نمو کا عمل جاری ہے۔ ابتدا میں یہ موۂے مبارک انتہائی باریک اور بے شاخ تھا، جسے دیکھنے کے لئے خردبین کی ضرورت پڑتی تھی۔ مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مقدس ریش مبارک میں شاخیں نکل آئی ہیں اور اب اس کی زیارت بغیر خردبین کے بھی ممکن ہے۔ ان شاخوں (ریشوں) میں سے دو شاخوں کو مولانا جمیل صاحب نے کاٹ کر صندل کے اسی مرتبان میں ڈال دیا ہے جس میں یہ موئے مبارک ہے۔ اگر یہ کوئی عام بال ہوتا تو چند سالوں کے اندر یہ بوسیدہ ہوکر ختم ہو جاتا، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جز ہونے کی وجہ سے اس میں زندگی کی علامت برقرار ہے۔ ہر سال یہ موئے مبارک مزید تروتازہ ہوتا جاتا ہے، جو اس کی روحانی اہمیت کو مزید بڑھاتا ہے۔

پیر طریقت حضرت بابو حضور کی تصدیق:

علاقے کے معزز پیر طریقت، شمس دین و ملت حضرت مولانا سید شاہ شمس اللہ جان مصباحی معروف بہ بابو حضور دام ظلہ، سجادہ نشین خانقاہ عالیہ سمرقندیہ دربھنگہ، نے بھی اس مقدس تبرک کی تصدیق کی ہے۔ حضرت شمس اللہ جان مصباحی نہایت خدا ترس اور دین دار بزرگ ہیں، اور ان کی تصدیق موۂے مبارک کی صداقت کو مزید مستحکم کرتی ہے۔ ان کے والد گرامی، سراج العارفین حضرت مولانا سید شاہ نور علی، معروف بہ حضور عالی علیہ الرحمۃ، جو سابق سجادہ نشین خانقاہ عالیہ سمرقندیہ دربھنگہ تھے، نے بھی اپنی زندگی میں اس مقدس موۂے مبارک کی زیارت فرمائی تھی۔ ان کی زیارت اس مقدس تبرک کی صداقت اور عظمت کا ایک اور ثبوت ہے، جو گنجریا بستی کے لوگوں کے لئے باعث سعادت ہے۔

موئے مبارک کی تقریب:

آج گنجریا میں موۂے مبارک کی زیارت کا اہتمام ایک عظیم الشان مذہبی تقریب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر سال بارہ اور تیرہ ربیع الاول کو موۂے مبارک کی زیارت عام کے لئے لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ اس تقریب میں نہ صرف گنجریا کے مقامی افراد بلکہ دور دراز سے آنے والے زائرین بھی شرکت کرتے ہیں۔ فی الحال، مولانا تنویر احمد مصباحی موۂے مبارک کی کمیٹی اور گنجریا مدرسے کے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جو ان تمام امور کی نگرانی کرتے ہیں۔

نتیجہ:

گنجریا بستی میں موۂے مبارک کا یہ مقدس تبرک بلاشبہ اس بستی کی روحانی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس تبرک کی موجودگی نہ صرف یہاں کے لوگوں کے لئے برکت اور سعادت کا باعث ہے بلکہ یہ اسلامی تاریخ اور روحانیت سے جڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ گنجریا کے لوگ اس مقدس امانت کی حفاظت اور اس کے تقدس کے لئے جو کاوشیں کر رہے ہیں، وہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مقدس تبرک کی برکتوں کو ہم سب کے لئے قائم و دائم رکھے۔ آمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: