۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ناموسِ رسالت

ناموسِ رسالت

✍️ محمد شہادت حسین فیضی

______________

اللہ تعالیٰ نے ہزاروں مخلوقات کو پیدا کیا ہے، اور ان میں انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا، اور پھر تمام انسانوں میں جو ہستیاں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و معظم ہیں۔ وہ انبیائے کرام علیہم السلام کی ذوات مقدسہ ہیں، اور پھر سید الانبیاء رحمۃ اللعالمین ، سید المرسلین خاتم النبیین محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سب سے بلند و بالا ہے۔
سارے اونچوں میں اونچا سمجھئے جسے
ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی

اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کی ادب و تعظیم اور توقیر کا حکم قرآن مقدس کی متعدد آیات میں صراحت کے ساتھ دیا ہے۔ اور امام الانبیاء سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا حکم نہایت ہی سخت تاکیدی اسلوب میں دیا ہے۔ نیز شان رسالت میں ذرہ برابر بھی سوئے ادب تو دور، اس طرح کے خیال فاسد کے وہم وگمان اور رمز و ایما کو بھی غارت گر ایمان قرار دیا ہے۔ مقام نبوت و رسالت کو اللہ نےاتنا بلند رکھا ہے کہ جس کا صحیح اندازہ لگانا بھی انسان کی قدرت سے باہر ہے، مقام نبوت کا صحیح ادراک صرف اللہ جل شانہ کو ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پچھلی امتوں پر جب عذابِ الٰہی قہر بن کر برسا ہے، تواس کی وجہ اللہ کے رسولوں پر ایمان سے انکار یا ان کی تکذیب کبھی نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ اصل سبب اَنبیائے کرام و رسولان عظام کی شان اقدس میں گستاخی و توہین رہی ہے۔
اللہ تعالی ‌نے رسول کونین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ان کی بارگاہ میں حاضری، نشست و برخاست، خرد و نوش، اور فر یادو استغاثہ کے اصول و ضوابط کو واضح طور پر قرآن مقدس میں متعدد آیات کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ جو درج زیل ہیں۔

(١) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(8)لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(9) (سورۃ الفتح)
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر۔ تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔
(٢) ’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۷)
ترجمہ: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور(کتاب وسنت) کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
(٣) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘(انفال:۲۴)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔
(٤) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(مجادلہ:۱۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تم (اس پر قدرت)نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
بعد میں وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا۔
(٥) ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا‘‘(النور:۶۳)
ترجمہ: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔
(٦) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(الحجرات:۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو۔ جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو۔ کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
(٧) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(بقرہ:۱۰۴)
ترجمہ: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو. اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(٨) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(حجرات:۱)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
(٩) ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(حجرات:۴، ۵)
ترجمہ: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس خود تشریف لے آتے. تو یہ ان کے لیے بہتر تھااور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(١٠) ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ-ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّؕ-وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا‘‘(احزاب:۵۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ مل جائے۔ جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں نہیں کہ خود ہی انتظار کرتے رہو۔ ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ پھرجب کھانا کھا لو۔ تو چلے جاؤ۔ اور یہ نہ ہو کہ باتوں سے دل بہلانے کیلئے بیٹھے رہو۔ بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی ہے۔ تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے ہیں۔اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔ اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو۔ تو پردے کے باہرسے مانگو۔ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کیلئے یہ زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ رسولُ اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو ۔بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔
اعلی حضرت نے ان احکام کو ایک شعر میں یوں پرویا ہے۔
*ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں*
*اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے*
(١١) ’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)
ترجمہ: جوکچھ اعمال انہوں نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔(ان لوگوں کا جو گستاخ رسول ہیں)
ایسوں ہی کے بارے میں فرماتا ہے:
(١٢) ’’عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ(۳) تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً‘‘(غاشیہ:۳، ۴)
ترجمہ: عمل کریں ، مشقتیں اٹھائیں۔ اوربدلہ کیاہوگا؟ یہ کہ بھڑکتی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔
(١٣) ’’قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(توبہ:۲۴)
ترجمہ:- اے نبی! تم فرمادوکہ اے لوگو! اگرتمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ،تمہارے بھائی، تماری بیبیاں ،تمھارا کنبہ تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سوداگری جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے اور تمہاری پسند کے مکان، ان میں کوئی چیزبھی اگر تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں کوشش کرنے سےزیادہ محبوب ہے تو انتظار کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب اتارے۔ اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز،کوئی عزیز،کوئی مال،کوئی چیز، اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو وہ بارگاہِ الہٰی سے مردود ہے ، اُسے اللہ اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اُسے عذابِ الہٰی کے انتظار میں رہنا چاہئے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔
آقائے کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:
’’ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وُلْدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنْ ‘‘ تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اُسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ رہوں ۔ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں انس بن مالک انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے۔( بخاری،کتاب الایمان،باب حبّ الرّسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان،۱ / ۱۷،الحدیث: ۱۵، مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب محبّۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)
دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے دستور یا اقتدار اعلیٰ سے بغاوت یا باغیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں کے لئے موت تک کی سزا موجود ہے۔ اسی طرح مقدس ہستیوں، مقدس مقامات اور مقدس اشیاء کی توہین پر سزا کا قانون بھی اکثر (بلکہ تمام) ممالک میں موجود ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اکثر ممالک میں بلاس فیمی لاء Blas Phemy Law ایک لفظ موجود ہے۔ خصوصاً آسمانی صحائف اور آسمانی ادیان سے تعلق رکھنے والی اقوام میں انبیاء و رسلؑ کی توہین قابل سزا جرم ہے۔
چین جہاں آج کل کوئی دینی و مذہبی جماعت نہیں، وہاں بھی مہاتما بدھ کے مجسمے کی توہین، فوجداری جرم ہے۔ 29 مارچ 1990ء کو چین کے صوبے سی چوان میں وانگ ہونگ‘ نامی شخص کو جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہاتما بدھ کے مجسمے کا سر کاٹا تھا، سزائے موت سنائی گئی تھی
دنیا میں جہاں بھی مذہب اپنے زندہ شعور کے ساتھ موجود ہے، وہاں اس مذہب کے بانیان و مقتدا کی توہین پر کڑی سے کڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔
گستاخانہ کلمات اور بے ادبی کی سزا اور حوصلہ شکنی کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں قوانین موجود ہیں۔ مثلاً

  • (1) آسٹریا (آرٹیکل 188، 189 کریمنل کوڈ)
  • (2) فن لینڈ (سیکشن 10 چیپٹر 17 پینل کوڈ)
  • (3) جرمنی (آرٹیکل 166 کریمنل کوڈ)
  • (4) ہالینڈ (آرٹیکل 147 کریمنل کوڈ)
  • (5) سپین (آرٹیکل 525 کریمنل کوڈ)
  • (6) آئرلینڈ (آئرلینڈ کے دستور کے آرٹیکل، 40, 6, 1 کے مطابق کفریہ مواد کی اشاعت ایک جرم ہے۔

منافرت ایکٹ 1989ء کے امتناع میں ایک گروہ یاجماعت کے لئے مذہب کے خلاف نفرت بھڑکانا بھی شامل ہے۔

  • (7) کینیڈا (سیکشن 296 کینیڈین کریمنل کوڈ) کہ عیسائی مذہب کی تنقیص و تضحیک ایک جرم ہے۔
  • (8) نیوزی لینڈ (سیکشن 123) نیوزی لینڈ کرائمز ایکٹ 1961) مثال کے طور پر عیسائی دنیا میں گرجوں کے تقدس کو قانون کا درجہ حاصل ہے، بعض یورپی ممالک کے دساتیر میں ان کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ڈنمارک کے دستور کی سیکشن 4 (سٹیٹ چرچ) کی مثال موجود ہے جس میں کہا گیا ہے اوینجیلیکل لوتھرن پروٹسٹنٹ) چرچ ڈنمارک کا ریاستی قائم کردہ چرچ ہو گا اور اس کی مدد و اعانت ریاست کے ذمہ ہوگی۔

تعظیمِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت پر فرض عین ہے۔آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام ہی اصل ایمان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں باضابطہ طور پر تعظیم و توقیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اصول و ضوابط کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جیساکہ ماسبق میں گزرا۔ دربار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری ، باریابی، فریاد، طلب، تعلیم ، کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب و اصول بنایا ہے اور بیان کیا ہے۔ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی بھی طرح کی توہین و تنقیص موجب قتل ہے۔ اور جرم ثابت ہو جانے کے بعد اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ اور یہ سزا ہرایک کے لیے ہے ،خواہ مجرم کلمہ گو ہو کہ کافر و مشرک۔ اور اس باب میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سارے مکاتب فکر کے علماء اس پر متفق ہیں۔
ملک عزیز ہندستان کے آئین میں بھی توہین رسالت کے ساتھ اہم مذہبی شخصیات کی توہین ناقابلِ معافی جرم ہے۔ ایسے قوانین موجود ہیں کہ جس کے تحت مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ اور قید بامشقت کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
دنیا میں کم وبیش سولہ (16) فیصد ممالک ایسے ہیں جہاں توہینِ مذہب پر سزاؤں کا قانون موجود ہے، البتہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران وہ ممالک ہیں جہاں توہین مذہب کے قوانین کے تحت ملزمان کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 295A دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کارروائیوں کے لیے سزا کا تعین کرتی ہے، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے۔ یہ بھارت میں نفرت انگیز تقریر کے قوانین میں سے ایک ہے۔ یہ قانون ہندوستان میں تمام مذاہب کی توہین کے ساتھ توہین رسالت کی بھی ممانعت کرتا ہے۔
دفعہ 295A قابلِ سماعت، ناقابل ضمانت اور ناقابلِ تعمیل جرم ہے۔
بھارت میں نفرت انگیز تقریر کے بھی قوانین موجود ہیں جس سے کسی بھی مذہبی شخصیات کی توہین کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔
بھارت میں نفرت انگیز تقاریر کے قوانین کا مقصد اس کی بہت سی نسلی اور مذہبی برادریوں کے درمیان اختلاف کو روکنا ہے۔ قوانین کسی شہری کو "مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا کسی بھی دوسری بنیاد پر” شہری کی بے عزتی کرنے والے کسی بھی شخص کی سزا مانگنے کی اجازت دیتے ہیں۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 153A شہریوں کو لوگوں کے مختلف گروہوں کے درمیان بدامنی یا دشمنی، نفرت یا بدخواہی کے جذبات پیدا کرنے سے منع کرتی ہے۔
تعزیرات ہند (IPC) کی دفعہ 295A ہندوستان میں توہین مذہب کے قانون کے متبادل کے طور پر مانا جاتا ہے۔ یہ جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کاموں کی ممانعت کرتا ہے جن کا مقصد کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنا یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اس میں شامل ہیں:
کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنے کے لیے لکھے یا بولے گئے الفاظ کا استعمال
کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنے کے لیے نشانات یا مرئی نمائندگی کا استعمال
دفعہ 295A کی سزا میں شامل ہیں: تین سال تک قید، جرمانہ، اور قید اور جرمانہ دونوں۔
اسکے علاوہ ہندستان کے آئینی حقوق میں مذہب کی آزادی اور اس کے فروغ اور اس میں حائل کسی بھی غیر قانونی رخنہ اندازی کی صورت میں قانونی چارہ جوئی بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔
ملک عزیز ہندوستان میں آئین کی دفعہ 25 میں کہا گیا ہے۔ ”تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے۔ اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔
آئین کی دفعہ 15,14 میں کہا گیا ہے۔ ”مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔
دستوری چارہ جوئی کاحق: ہمارے آئین کے تیسرے حصے میں ضبط کئے گئے حقوق کو بحال کرانے اوران کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں سے چارہ جوئی کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ متعلقہ عدالتوں کو ان حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے ہدایات یا احکام یا مختلف خصوصی فرمان جاری کرنے کااختیار دیاگیا ہے۔ آئینی اعتبار سے عدالتی چارہ جوئی کے حق کو محض دستور میں بیان کی گئی متعلقہ دفعات کے تحت ہی معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سی بنیادی حقوق کس حد تک کسے دئیے جائیں۔ غرض کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو کسی بھی معاملے میں
دستوری چارہ جوئی کا پورا پورا حق دیاگیا ہے۔

اصل مدعا

ان سب کے باوجود ملک عزیز ہندوستان میں بھی اور بیرون ممالک میں بھی کچھ شر پسند، آوارہ اور فتنہ پرور لوگ ہیں جو کسی نہ کسی بہانے سے تنقیص رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، اور پھر فرقہ پرست و اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص یہود و نصاری اور ہنود اپنے میڈیا کے ذریعے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں ہمارا غیر منظم احتجاج اور رد عمل ان خرافات کو روک تو نہیں پاتا بلکہ الٹا ہمارا ہی جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے اور ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اور سازشوں کے ذریعے اسلام اور مسلمان دونوں کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے

درج ذیل تین ممکنہ صورتیں ہیں، جسکے ذریعے سے ہم عصمت انبیاء اور عظمت صحابہ اور ناموس رسالت پر پہرہ بٹھا سکتے ہیں۔

  • 1۔ سب سے پہلا اور اہم کام یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو بنام مسلم متحد ہونا ہوگا اور انانیت، تعصب ، نفرت، عداوت ، بغض و عناد ، حسد و کینہ اور شخصیت پرستی اور کینہ پروری جیسے موذی امراض سے پاک ہونا ہوگا۔ سو فیصدی اتحاد تو ممکن نہیں ہے لیکن اگر پچاس فیصد بھی اتحاد ہو جائے تو بھی امت مسلمہ کا وقار بحال ہوسکتا ہے اور ہماری عظمت رفتہ واپس آسکتی ہے۔
  • 2۔ ناموس رسالت ، مذہبی منافرت ، اسلام اور مسلمانوں کی اہانت ، دنگا فساد وغیرہ جیسے قومی ملی مسائل کے حل کے لیے سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ ، اور ضلع سطح پر بھی وکیلوں کی ایک تنظیم بنائی جائے اور پھر ضلع سے لیکر سپریم کورٹ تک کی ملی و قومی عدالتی ضرورتوں کے لیے وہ تنظیم منظم طور پر متحرک ہو اور کام کرے۔
  • 3۔ برادران وطن کے ساتھ بھائی چارگی، خیر سگالی ، باہمی رواداری ۔ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات اور اہم شخصیات کا احترام اور ان سب کے لیے مذاکرات اور مشترکہ ٹیبل ٹاک کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے مسلمانوں کو قرآن مقدس کی ان دو آیتوں پر عمل کرنا چاہیے۔

  • (1) وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدۡوًاۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ‌ؕ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمۡ ۖ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمۡ مَّرۡجِعُهُمۡ فَيُنَبِّئُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞

ترجمہ:
اور (اے مسلمانو ! ) تم ان کو برا نہ کہو جن کی عبادت یہ لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ۔ ورنہ یہ بسم اللہ کو لوگ بھی بےعلمی اور جہالت سے اللہ کو برا کہیں گے، ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لیے اس کا عمل خوبصورت کردیا ہے۔ پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے، پھر وہ انکو خبر دے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔

  • (2) اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(125)

ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی گفتگو کے ساتھ بلاؤ۔ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو سکتا ہے۔ بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے
کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا ہے، اور کون ہدایت یافتہ ہے۔
موجودہ دور میں ہمیں مذکورہ ان دو آیت کریمہ پہ عمل کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ گفت و شنید اورمذاکرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ نفرتوں کو ختم کیا جا سکے۔اور باہمی احترام و اکرام کا معاملہ بن سکے۔اور امن و سکون کی فضا قائم ہو سکے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: