کچھ باتیں شیخ چلی کے بارے میں
✍ احمد سہیل
_______________
شیخ چلی کا مقبرہ ہندوستان کے ہریانہ کے کروکشیترا ضلع میں تھانیسر میں واقع ہے۔شیخ چلی کا نام سنتے ہی شیخی بگھارنے والے شخص کا چہرہ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کیونکہ عام طور پر بڑے بولے اور جھوٹ بولنے والے کو شیخ چلی کہا جاتا ہے لیکن یہاں ہم ایک صوفی بزرگ کی بات کر رہے ہیں۔ اس عظیم صوفی بزرگ کا نام شیخ چلی نہیں بلکہ شیخ چہیلی تھا۔شیخ چلی کا نام سنتے ہی شیخی بگھارنے والے شخص کا چہرہ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے، کیونکہ عام طور پر بڑے بول اور جھوٹ بولنے والے کو شیخ چلی کہا جاتا ہے .شیخ چلی کو دن میں خواب دیکھنے والا ایک انسان کہا جاتا ہے۔ ایک معصوم احمق۔ ایک سادہ لوح۔ ایک فقیر۔ شیخ چلی یہ سب کچھ اور زیادہ تھا۔ تو کیا یہ ماننا کہ خربوزہ گھوڑے کا انڈا ہے، خواب میں یہ دیکھنا کہ وہ چوہا ہے اور بلی پورے گاؤں میں اس کا پیچھا کررہی ہے، یا کنجوس قاضی کو ایک سال کی تنخواہ دینے کا فریب دینا۔ شیخ چلی کی بعض اوقات بے وقوفانہ اور اکثر ہنسنے والی حرکات نے انہیں نسلوں کی نسلوں میں پسندیدہ بنا دیا ہے۔ بیس کہانیوں کے اس مجموعے میں وہ تمام تفریح اور حکمت ہے جو شیخ چلی کی کہانیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر پڑھی جانے والی اور پسند کی جاتی ہے۔لیکن یہاں ہم ایک صوفی بزرگ کی بات کر رہے ہیں۔ اس عظیم صوفی بزرگ کا نام شیخ چلی نہیں بلکہ شیخ چہیلی تھا۔
کروشیتر کے مورخ راجندر رانا نے بتایا کہ ”تھانیسر شہر میں بنا شیخ چلی کا مقبرہ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مقبرہ عموری طور پر شیخ چلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر در حقیقت وہ شیخ چہیلی تھے، جو ایران کے صوفی بزرگ تھے۔ وہ بھارت میں تبلیغ اسلام کے لیے آئے تھے اور اپنے سفر کے دوران انہوں نے بھارت میں مختلف مقامات پر قیام کیا۔ جب ان کی موت ہو گئی تو دارا شکوہ نے ان کے لئے یہ مقبرہ تعمیر کرایا۔” حیاتِ شیخ چلی منشی سجاد حسین کی تصنیف کردہ سوانحِ عمری ہے جس میں اس مشہور کردار کے حالات بڑے دلچسپ ظریفانہ طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ کنہیا لال کپور نے بھی *کامریڈشیخ چلی* کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ *حیاتِ شیخ چلی* منشی سجاد حسین کی تصنیف کردہ سوانحِ عمری ہے جس میں اس مشہور کردار کے حالات ظریفانہ طور پر بیان کیے گئے ہیں۔۔ اس کے علاوہ سجاد حسین انجم کسمنڈوی نے *حیات شیخ چلی* کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے۔