Slide
Slide
Slide

صوفیاء کے نزدیک توحید کے مراتب: ایک تعارفی مطالعہ

صوفیاء کے نزدیک توحید کے مراتب: ایک تعارفی مطالعہ

✍️محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

_______________________

اسلامی تعلیمات کا بنیادی اصول توحید ہے، جس کا مطلب اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی ذات و صفات کی انفرادیت کا اعتراف ہے۔ عام اسلامی عقائد میں توحید کا مفہوم اللہ کی ذات وصفات اسما و افعال کے وجود اور اس کی یکتائی پر یقین رکھنا ہے، لیکن صوفیاء کی نظر میں توحید کا مفہوم مذکورہ معانی کی شمولیت کے ساتھ نہایت گہرے اور اعلی مراتب کے جامع ہوتے ہیں۔ صوفیاء کے نزدیک توحید کا مقصد نہ صرف اللہ کی یکتائی کو ماننا ہے بلکہ اس کی وحدانیت کو اپنی زندگی کا مرکزی حصہ بنانا اور اپنے وجود کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا ہے۔ اس مقالے میں صوفیاء کے نزدیک توحید کے مختلف مراتب کا ایک تعارفی جائزہ پیش کیا جائے گا۔

توحید کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم:

لغوی اعتبار سے "توحید” کا مطلب ہے "ایک ماننا” یا "یکتائی کا اعتراف کرنا”۔ یہ لفظ عربی زبان کے مصدر "وحد” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے "اکیلا ہونا”۔ اصطلاحی طور پر، اسلامی تعلیمات میں توحید اس عقیدے کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات، اسما و افعال میں واحد، بے نیاز، اور ہر قسم کے شریک سے پاک ہے۔

قرآن مجید میں توحید کی عظمت کا بارہا ذکر آیا ہے، جیسے سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

> "قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1)اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ(3)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ(4)
تم فرماؤ: وہ اللہ ایک ہے۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔اور کوئی اس کے برابر نہیں۔

اس سورت کی پہلی آیت میں توحید ذات کا بیان ہے، دوسری میں اس کی توحید صفات کا اعلان ہے، جب کہ تیسری آیت میں اس کی ذات سے ہر نقص وعیب کی نفی ہے اور چوتھی آیت میں مجموعی طور پر ہر لحاظ سے اللہ تعالی کے نظیر نہ ہونے کی بات کی گئی ہے۔

سورۂ اخلاص توحید اور اس کے تمام مراتب کا جامع ترین بیانیہ ہے۔ البتہ صوفیاء اس عقیدے کو صرف نظری وعلمی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے نہایت شعوری، تجرباتی اور روحانی سطح پر برتتے ہیں اور اس کے مختلف مراتب بیان کرتے ہیں۔

صوفیاء کے نزدیک توحید کے مراتب

  • 1. توحیدِ افعالی (توحیدِ افعال):

یہ مرتبہ ابتدائی روحانی ترقی کی علامت ہے جس میں بندہ یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ کائنات میں جتنے بھی افعال سرانجام پاتے ہیں، ان کا محرک صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے مطابق کوئی بھی فعل، چاہے وہ خیر ہو یا شر، اللہ کی مشیت اور ارادہ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور یہاں لا فاعل الا اللہ کے عقیدے کا ظہور ہوتا ہے۔

علامہ اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:
> "اسلام کا بنیادی تصور توحید افعال میں ہے، یعنی یہ یقین کہ تمام افعال و حرکات کا حقیقی موجد صرف اللہ ہے”۔

  • 2. توحیدِ صفاتی (توحیدِ صفات):

توحیدِ صفاتی وہ مقام ہے جہاں بندہ اللہ کی صفات کو یکتا اور کامل مانتا ہے۔ بندہ اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ اللہ کی صفات جیسے علم، قدرت، حیات، اور ارادہ کسی بھی مخلوق کے صفات سے نہایت منفرد اور اعلیٰ اور ذاتی ہیں، اس میں غیر کی کسی طور پر کوئی شرکت نہیں۔

امام غزالی اپنی کتاب "المنقذ من الضلال” میں فرماتے ہیں:
> "جب بندہ اللہ کی صفات کو سمجھتا ہے اور جان لیتا ہے کہ مخلوق کی صفات در حقیقت اللہ کی صفات کا عکس ہیں تو وہ حقیقتِ توحید کو پا لیتا ہے”۔

  • 3. توحیدِ ذاتی (توحیدِ ذات):

یہ درجہ انسان کو اپنی ذات کی نفی کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ اپنی حقیقت کو اللہ کی ذات کے سامنے مٹا دیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ موجود بالذات صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، باقی سب کا وجود مستعار اور ناپائیدار ہے۔

حضرت جُنید بغدادی فرماتے ہیں:
> "توحیدِ ذات کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو فنا کر کے اللہ کی یکتائی میں اس طرح جذب ہو جائے کہ کسی دوسری ہستی کو اللہ کی برابری میں نہ لائے”۔

  • 4. فنا فی التوحید:

فنا فی التوحید میں بندہ اپنے وجود، خواہشات اور ارادوں کو مکمل طور پر اللہ کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔ اس مرتبے میں بندہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ حقیقیت صرف اللہ کی ذات وصفات واسما وافعال کی ہے اور اس کی اپنی ذات وصفات واسما وافعال کی کوئی حقیقت نہیں۔

  • 5. بقا باللہ:

فنا کے بعد بقا کا مرتبہ آتا ہے۔ بقا باللہ وہ مقام ہے جہاں بندہ فنا ہونے کے بعد ایک نئی روحانی زندگی حاصل کرتا ہے اور اللہ کی ذات و صفات اور اس کے اسما و افعال کی تجلی اس کی زندگی میں ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس وقت بندہ باقی باللہ اور قائم بانوار صفات اللہ ہوتا ہے۔ یہ مقام صوفیاء کی تعلیمات کا روحانی عروج سمجھا جاتا ہے۔

حضرت رابعہ بصری فرماتی ہیں:
> "جب میں نے اپنے وجود کو اللہ کی محبت میں فنا کر دیا، تو اس نے مجھے بقا عطا کی اور میں نے اس کی صفات کے انعکاسات کو اپنی زندگی میں محسوس کیا”۔

وحدت الوجود اور توحید:

صوفیاء کرام میں **ابن عربی** نے وحدت الوجود کا فلسفہ پیش کیا، جس کا مطلب ہے کہ کائنات میں موجود ہر چیز دراصل ایک ہی وجود کا مظہر ہے، اور وہ وجود اللہ کا ہے۔ وحدت الوجود کے مطابق، مخلوقات کی کثرت درحقیقت وحدت کے مختلف مظاہر و عکوس ہیں۔ اس فلسفے کو سمجھنے سے توحید کی گہرائی مزید واضح ہوتی ہے اور انسان کو اللہ کی وحدانیت کا زیادہ شعوری ادراک حاصل ہوتا ہے۔

مولانا روم فرماتے ہیں:
> "جب تم نے خود کو مخلوق کی کثرت میں دیکھا، تو تمہیں اس کثرت میں وحدت کا نور نظر آئے گا، اور یہی توحید کی اصل حقیقت ہے”۔

معرفتِ الٰہی اور توحید:

معرفتِ الٰہی کا مطلب ہے اللہ کی ذات وصفات اور اس کے اسما وافعال کے کمالات کا شعور حاصل کرنا۔ صوفیاء کے نزدیک معرفت الٰہی سے ہی انسان اللہ کی توحید، اس کی قربت اور محبت کو نہایت گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ معرفت کے بغیر توحید کی حقیقت کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں:
> "جس نے اللہ کی معرفت حاصل کر لی، اس نے توحید کو پایا اور جس نے معرفت کو نہیں پایا، وہ توحید کو بھی نہیں پا سکتا”۔

نتیجہ:

صوفیاء کے نزدیک توحید ایک ایسا روحانی سفر ہے جو انسان کو مختلف مراتب سے گزارتا ہے۔ ان مراتب میں اللہ کی ذات، صفات اور افعال کی یکتائی کا شعور بڑھتا جاتا ہے اور بندہ اللہ کی رضا کے تابع ہو کر اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے۔ توحید کے ان مراتب کے ذریعے بندہ اپنی روحانی ترقی کے منازل طے کرتا ہے اور بالآخر اللہ کے قرب میں پہنچ جاتا ہے۔ صوفیاء کی تعلیمات میں توحید کا یہ سفر بندے کو اللہ کے ساتھ گہرے تعلق کی طرف لے جاتا ہے، جہاں بندہ خود کو اللہ کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کر لیتا ہے۔

حوالہ جات:

1. قرآن مجید:
القرآن الکریم، سورۃ الاخلاص، آیت نمبر 1 تا 4، مدینہ منورہ، سعودی عرب: مجمع الملک فہد۔
2. علامہ اقبال:
اقبال، محمد۔ *شذرات اقبال*، لاہور: اقبال اکیڈمی پاکستان، 1964۔

3. امام غزالی:
غزالی، ابو حامد۔ *المنقذ من الضلال*، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1992۔

4. حضرت جُنید بغدادی:
جُنید بغدادی، ابوالقاسم۔ *کتاب الفناء فی التوحید*، بیروت: دار النشر الاسلامیہ، 1986۔

5. ابن عربی:
ابن عربی، محی الدین۔ *فصوص الحکم*، بیروت: دار صادر، 1946۔

6. حضرت رابعہ بصری:
رابعہ بصری، حضرت۔ *کتاب المحبہ* (مرتب: یوسف بن احمد) قاہرہ: مکتبہ دار الحدیث، 2007۔

7. مولانا جلال الدین رومی:
رومی، مولانا جلال الدین۔ *مثنوی معنوی*، (ترجمہ: نکلسن)، قونیہ: دار النشر الرومی، 1925۔

8. حضرت بایزید بسطامی:
بسطامی، بایزید۔ *کتاب الیقین*، لاہور: دار الشعور، 1978۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: