مدنیت اور شہری امن و ترقی تعلیمات رسول میں
محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
________________
مکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہری امن و ترقی کی کوششیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں بھی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد تیرہ سال تک توحید و رسالت کی تبلغ کیساتھ ساتھ شہری ترقی، امن و امان کے فروغ ، ظلم کے انسداد و خاتمہ ،انسانیت اور مہذب و پاکیزہ سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں رہے ۔ مکہ مکرمہ میں ہی سات آٹھ سال دعوتی محنت کے بعد آپ کی دعوت قریش سے گزر کر آس پاس کے قبائل عرب ،طائف اور دوسرے مقامات پر پہنچ چکی تھی ۔قریش کی طرف سے مخالفت کا سلسلہ انتہائی زوروں پر تھا ،مسلمان دربار حبش کی طرف ہجرت کرچکے تھے اور اب تیسری ہجرت مدنی ہجرت بالکل تیار سامنے تھی ، یہی وہ وقت تھا جب اللہ تعالٰی کی طرف سے دعوت اسلامی کا وہ منشور دیا گیا، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قریش اور ساری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تھا ۔ اس کے لئے کیا ہی مبارک وقت کا انتخاب من جانب اللہ تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو معراج عطا فرمائی، پھر اس معراج میں وہ چودہ نکاتی منشور دیا جو قریش کے لیے لمحہ فکریہ پیش کرتا ہے ۔ اس سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے متعدد بار فرما چکے تھے کہ تم صرف اس دعوت کو قبول کرلو عرب و عجم میں تمہاری سیادت و قیادت رہے گی اور تمہاری دعوت پر ساری دنیا لبیک کہے گی، لیکن سرداران قریش اب تک ہر معقول بات کو رد کرتے چلے آرہے تھے ۔دوسری طرف قریش کے بہت سے منتخب اور چیدہ لوگ شبانہ روز اسلام کے دائرے میں داخل ہورہے تھے ۔اس سے قریش کی دشمنی میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا تھا ۔اب اتمام حجت کے طور پر ان کے سامنے دعوت اسلامی کا منشور پیش کردیا گیا ،جس کا علم اور جھنڈا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان اٹھائے ہوئے تھے، تاکہ وہ اس منشور پر غور کریں اور اگر اس کے اندر ایک عالم نو کے امکانات محسوس کریں، تو اس کے علمبردار بنیں ،اس لیے کہ اس کی علمبرداری ہی میں ان کی حقیقی روح پوشیدہ تھی۔
قسط اول: مدنیت اور شہری امن و ترقی: تعلیماتِ رسول میں
ہجرت مدینہ یعنی مکہ مکرمہ کو چھوڑ دینے اور قریش پر اتمام حجت تمام کرنے سے ذرا پہلے انتہائی نفسیاتی موقع پر اس منشور کو پیش کیا گیا ،اس سے بہتر قریش کے لیے کوئی اور موقع نہ ہوسکتا تھا کہ وہ مفتوح ہوکر اسلام کے دائرے میں آنے کی بجائے اس کے علمبردار بن کر اٹھیں اور سارے عالم پر چھا جائیں ۔۔
منشور اسلامی اور اسلامی دعوت کے نکات حسب ذیل تھے ۔
- 1- صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدار اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت تسلیم نہ کی جائے ۔
- 2- تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے ،اولاد ،والدین کی فرمانبردار اور خدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد اور مددگار ہوں۔
- 3- سوسائٹی میں جو لوگ غریب اور معذور ہوں یا جو لوگ اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں ۔
- 4- دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے جو مال دار اپنے روپیے بری طرح خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
- 5- لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ۔نہ بخل کرکے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کرکے اپنے لئے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
- 6- رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام کرنے والا مصلحتوں کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے ۔
- 7- معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزائش کو نہ روکیں ۔جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا انتظام خدا نے کیا ہے ۔آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا ۔
- 8- خواہش نفس کو پورا کرنے کے لئے زنا کا راستہ برا راستہ ہے ۔لہذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بند ہونا چاہیے ۔
- 9- انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے ۔لہذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے ،نہ کوئی اپنے آپ کو قتل کرے اور نہ کسی دوسرے کو قتل کرے ۔
- 10- یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں، ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ۔
- 11- عہد و پیمان کو پورا کیا جائے انسان اپنے معاہدات کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔
- 12- تجارتی معاملات میں لین دین اور ناپ تول ٹھیک ٹھاک راستی پر ہونا چاہیے ،اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں ۔
- 13- جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو ۔وہم و گمان پر نہ چلو ۔کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انہیں کس طرح استعمال کیا ۔
- 14- نخوت اور تکبر سے پرہیز کرو۔ غرور کی چادر سے نہ تم زمین کو بھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں سے اونچے ہوسکتے ہو ۔ (سورہ بنی اسرائیل میں یہ تفصیلات درج ہیں)
ان چودہ نکات اور اصول و ضوابط کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے پہلے مکی معاشرہ کو پاکیزہ ترین نہج پر لانے اور اس کو استوار کرنے کے لئے جو اصول پیش فرمائے وہ آپ کی دعوت اور تبلیغ کے کردار کی خوبی بیان کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اگر مشرکین اور خاص طور پر قریش مکہ ضد ،عناد ،نخوت اور ہٹ دھرمی سے اجتناب کرتے اور اور سے بچتے ہوئے ان اصولوں کو اپنا لیتے اور اس پر دل و دماغ سے غور کرتے، تو وہ خود سمجھ جاتے کہ اس دعوت و تبلیغ کے ذریعہ کتنا مہذب سماج، پاکیزہ معاشرہ اور کتنی اعلیٰ پائے کی انسانی تہذیب اور کتنا منصفانہ اور عادلانہ سوسائٹی اور تمدن وجود میں آرہا تھا ۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قریش مکہ کو وعظ و نصیحت اور دعوت و انذار کے ذریعہ سمجھانے کا آخری اور موثر ترین انداز تھا ،لیکن جب قریش دعوت کے اس انداز معراج سے بھی نہ سمجھے تو پھر انہیں خندق و بدر حنین و احزاب اور خیبر و اوطاس سے گزر کر فتح مکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑا اور انہیں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح اپنے اخی الکریم سے جان بخشی کی بھیک مانگنی پڑی ۔یہ الگ بات ہے کہ رحمت للعالمین تو اس وقت بھی اپنے جانی دشمنوں کو معاف ہی کردینے والے تھے ۔جب حکمت دعوت کے سارے مراحل سے گزر کر دعوت قوت کا مرحلہ آگیا تھا ۔( مستفاد و ملخص از کتاب نقوش رسول نمبر جلد ہفتم مرتب محمد طفیل)
(جاری)