Site icon

قرآن کریم: ہر قسم کے اغلاط سے پاک ربانی کتاب

قرآن کریم: ہر قسم کے اغلاط سے پاک ربانی کتاب

✍ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

_________________

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ الہامی کلام ہے جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا، اور قیامت تک کے لیے انسانیت کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ قرآن نہ صرف ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہے بلکہ اس کی ترتیب، اسلوب، فصاحت، اور رسم الخط بھی بے عیب ہے۔ دنیا کی کوئی اور کتاب نہ تو اپنی حفاظت کے لحاظ سے قرآن کا مقابلہ کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ادبی اور فنی خصوصیات کے اعتبار سے۔ اس مقالے میں قرآن کریم کی اغلاط سے پاک ہونے کی وجوہات، اس کی سورہ بندی اور آیات کی ترتیب کی خصوصیات، اور رسم خط عثمانی کے توقیفی ہونے کے پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔

1. قرآن کریم کا اغلاط سے پاک ہونے کا دعویٰ:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اغلاط سے پاک رکھنے کا وعدہ خود فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
*”بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں” (سورۃ الحجر، آیت 9)*۔

یہ وعدہ ہر قسم کی انسانی مداخلت اور تحریف سے قرآن کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی اور کتاب ایسا دعویٰ نہیں کرتی، اور نہ ہی اس کی کوئی مثال تاریخ میں ملتی ہے۔ قرآن کے نزول سے لے کر آج تک اس کے الفاظ، ترتیب اور مواد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور اس کا ہر لفظ وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کے دور میں نازل ہوا تھا۔

2. قرآن کا نظم اور آیات کی ترتیب:

قرآن کریم کی ایک اور منفرد خصوصیت اس کی ترتیب اور نظم ہے۔ قرآن کی سورہ بندی اور آیات کی ترتیب توقیفی ہے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جو ترتیب صحابہ کرام کو بتائی، وہی ترتیب آج بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔

ہر سورۃ اپنے موضوعات کے لحاظ سے منطقی ترتیب میں ہے، اور ان کی آیات ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ایمان والوں، کافروں اور منافقوں کے گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو کہ بعد کے مضامین کے لیے تمہید فراہم کرتے ہیں۔ سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان ایک ہی تسلسل سے بیان ہوئی ہے، اور ہر مرحلہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔

امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں:
*”قرآن کی آیات کے درمیان ایسا دقیق ربط ہے کہ یہ خود قرآن کے کلام الہی ہونے کی دلیل بن جاتی ہے” (تفسیر کبیر، جلد 1، صفحہ 15)*۔

3. رسم خط عثمانی کی توقیفی خصوصیت:

قرآن کریم کا رسم الخط، جسے "رسم عثمانی” کہا جاتا ہے، خاص توقیفی نوعیت رکھتا ہے۔ یہ رسم الخط سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع شدہ نسخے سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ کسی انسانی اجتہاد یا فہم کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کی رہنمائی کے مطابق مرتب کیا گیا۔

علامہ زرکشی لکھتے ہیں:
*”رسم خط عثمانی توقیفی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی منظوری سے لکھا گیا” (البرہان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 378)*۔

رسم خط عثمانی کے توقیفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر حرف اور نقطہ اللہ کے حکم سے ہے، اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا شرعاً جائز نہیں۔ اس رسم الخط میں بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو قرآن کی فنی خوبیوں اور معجزاتی زبان کو مزید اجاگر کرتی ہیں، جیسے کہ بعض مقامات پر الف کی کمی بیشی، جو قرآن کی تلاوت کے حسن اور تلفظ کی ادائیگی میں ایک خاص روحانی تاثیر پیدا کرتی ہے۔

4. فصاحت و بلاغت اور ادبی عظمت:

قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت ایسی ہے کہ عرب کے فصیح ترین لوگوں نے بھی اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ قرآن کا اسلوب ایسا ہے کہ نہ وہ شعر ہے نہ نثر، بلکہ اس کا ہر لفظ اپنے مقام پر فنی لحاظ سے موزوں اور با معنی ہے۔

قرآن میں کہا گیا:
*”اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ کوئی اللہ کے سوا اپنی طرف سے بنا لے، بلکہ یہ جو کچھ اس کے پہلے ہے اس کی تصدیق ہے اور کتاب کی تفصیل ہے، اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے” (سورۃ یونس، آیت 37)*۔

قرآن کریم کی فنی خوبیوں میں اس کی تکرار بھی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ جہاں ایک ہی موضوع یا واقعے کو بار بار بیان کیا گیا، وہاں مختلف پیرایوں میں اسے اس طرح بیان کیا گیا کہ ہر بار نیا معنی و مفہوم سامنے آتا ہے، اور یہ بات قرآن کے معجزاتی ہونے کا ثبوت ہے۔

مشہور ادبی نقاد جرجی زیدان لکھتے ہیں:
"قرآن کریم کا اسلوب کسی بھی عربی کتاب سے منفرد ہے، اس کی فصاحت اور بلاغت ایسی ہے کہ یہ انسان کے ذہن کو جلا بخشتی ہے اور دلوں کو متاثر کرتی ہے” (تاریخ آداب العرب، جلد 2، صفحہ 175)*۔

5. علمی معجزات اور اغلاط سے پاک حقائق:

قرآن کریم میں موجود سائنسی حقائق بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کتاب ہر قسم کے اغلاط سے پاک ہے۔ قرآن میں جو حقائق کائنات، زمین، آسمان، حیاتیات، اور انسانی تخلیق کے بارے میں بیان کیے گئے ہیں، وہ جدید سائنس سے ہم آہنگ ہیں اور ان میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جاتا۔

مثلاً، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
*”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی” (سورۃ ق، آیت 38)*۔

یہ بیان کائنات کی تخلیق کے جدید سائنسی نظریات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں موجود معلومات اغلاط سے پاک اور اللہ کے علم کامل پر مبنی ہیں۔

6. قرآن کے حفظ اور قراءت کی معجزاتی حفاظت:
قرآن کریم کا اغلاط سے پاک ہونا اس کی قراءت اور حفظ کے طریقوں سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو حفظ کرنے کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کے لیے نہیں ہے۔ لاکھوں حفاظ کرام ہر دور میں قرآن کو زبانی یاد کرتے رہے ہیں، اور آج بھی اس کی تلاوت اسی طرح ہوتی ہے جیسے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہوتی تھی۔

مستشرق ڈاکٹر تھامس ارنلڈ اپنی کتاب *”The Preaching of Islam”* میں لکھتے ہیں:
*”قرآن کا حفظ اور اسے زبانی یاد کرنے کی روایت ایک معجزہ ہے، اور اس کی تلاوت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ حضرت محمد ﷺ کے دور میں تھی” (ارنلڈ، 1913، صفحہ 30)*۔

خاتمہ:

قرآن کریم ایک کامل اور اغلاط سے پاک کتاب ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس کی سورہ بندی اور آیات کی ترتیب توقیفی ہے، اور اس کا رسم خط عثمانی بھی الہامی رہنمائی کے مطابق ہے۔ قرآن کی فصاحت، بلاغت، علمی حقائق اور اس کی معجزاتی قراءت سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور ہر قسم کی انسانی مداخلت سے پاک ہے۔ قرآن کا اغلاط سے پاک ہونا اس کے الہامی ہونے کی عظیم دلیل ہے اور قیامت تک یہ کتاب انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ رہے گی۔

حوالہ جات:

Exit mobile version