وزیر اعظم کی زبان پر دی کیرالہ اسٹوری کا ذکر​

 وزیر اعظم کی زبان پر دی کیرالہ اسٹوری کا ذکر

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

فیک نہیں فکشن یعنی خیالوں پر مبنی فلم ’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ کی اب کرناٹک اسمبلی انتخابات میں انٹری ہو گئی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے فلم کے بہانے کانگریس پر زوردار حملہ کیا ۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردانہ افکار و خیالات کی حامی ہے کانگریس پارٹی ۔ دہشت گردی کے خلاف بنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری ‘کی کانگریس نے مخالفت کی ۔ حالانکہ کانگریس نے دہشت گردانہ سرمیوں کی نہیں بلکہ فلم کے ٹیزر میں جو 32000؍ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناکر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی بات کہی گئی تھی اس کی مخالفت کی تھی اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے اس پر ایک کروڑ کا انعام رکھا تھا کہ اگر فلم بنانے والے یہ ثابت کر دیں کہ 32000؍لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو وہ ایک کروڑ مجھ سے لے جائیں ۔

 اب اس معاملہ میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔پہلے انھوں نے اپنے خطاب میں بغیر فلم کا نام لیے کہا کہ فلم جھوٹی ہے اور اس جھوٹی فلم کو وزیر اعظم نریندر مودی پرموٹ کر رہے ہیں ۔ ہمارا نقاب دکھا کر یہ صرف پیسے کمانا چاہتے ہیں ۔ اویسی نے ایک سوال تو اٹھایا ہے ۔ جب فلم کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو پھر اس کا کرناٹک کے الیکشن میں ذکر کرنا اور اس کے حوالے سے کانگریس پر تنقید کرنا کہاں تک جائز ہے ۔ کیا فلم کے بنانے والوں کے اس دعوے کو جانے دیا جاتا کہ جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ پوری فلم سچائی پر مبنی ہے ، کچھ بھی جھوٹ نہیں ہے۔معاملہ جب عدالت میں گیا تو نیوز چینلوں پر جھوٹ بولنے والے فلم ساز وں نے حلف نامہ داخل کرکے کہا کہ 32000؍غلط ہے ، صرف تین لڑکیوں کی کہانی ہے اور یہ فیکٹ نہیں ہے بلکہ فکشن ہے۔ دہشت گردانہ افکار کے خلاف فلم بنائی گئی ہے ۔ اس کے بعد ہی کورٹ نے اس کو ریلیز کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اب جب یہ اعتراف خود فلم ساز نے کیا ہے تو پھر ان سے پوچھنا چاہئے کہ نیوز چینلوں پر جو بار بار کہہ رہے تھے کہ ایک ایک لفظ فلم کا سچ ہے اس کا کیا ہوا ؟ کیا اب گودی میڈیا پر یہ لوگ جائیں گے اور بتائیں کہ جو ہم نے کہا تھا وہ جھوٹ تھا ۔ جھوٹ تو سب نے سنا لیکن سچ کس نے سنا پتہ نہیں ۔ حالانکہ ہندوستان کے عوام کو بھی معلوم ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے ۔

کشمیر فائلس بنانے والوں نے محض پیسے کمائے لیکن کشمیری پنڈتوں کو پھر روتا ہوا چھوڑ دیا ، ان کے مسائل پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ دہشت گردی پر بات کرنے والے ہمارے وزیر اعظم سے جب جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے پلوامہ پر ہوئے حملے پر سوال کیا تو وہ خاموش ہو گئے ۔ کوئی جواب نہیں دیا ۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت نے نہیں بتایا کہ آخر گزشتہ روز ہمارے 6؍جوان دہشت گردانہ حملے میں کیسے شہید ہوگئے ۔ اب آپ پلان بنائو کچھ بھی کرو ۔ ایئر اسٹرائک کرو لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں ؟ کیسے ہمارے 6؍جوان شہید ہوئے ۔ بس نعرے بازی ہی ہوتی رہے گی ۔ گزشتہ 9؍سال میں کیا کیا ؟ کرناٹک میں الیکشن جیتنے کے لیے اب بجرنگ بلی کا سہارا ہی بچا ہے ۔ ڈبل انجن کی حکومت نے کیا کام کیا ہے کیا اس کا ذکر کہیں سننے میں آیا کیا ؟ میں اب تک کئی اداریہ کرناٹک کے الیکشن پر لکھ چکا ہوں ،سب میں یہی کوشش رہی ہے کہ الیکشن عوام کے اصل مسائل پر ہونے چاہئے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، ریاست کی ترقی ، تجارت ، تعلیم ان پر بات ہونی چاہئے اور عوام کو ان کی بنیاد پر ووٹ کرنا چاہئے ۔ کرناٹک کا روشن مستقبل کیسے ہو اس پر غور کرنا چاہئے ، اس پر ایجنڈہ تیار ہوناچاہئے ۔ افسوس کی بات کہہ لیجئے یا یہ کہئے کہ کانگریس بھی نادانی کر رہی ہے ، وہ بھی گودی میڈیا اور بی جے پی کی چال میں پھنس گئی اور اس نے بھی اپنا ٹریک بدل لیا ۔ اس نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ اگر حکومت میں آئی تو مندروں کی تعمیر کرائے گی۔ کیا مندروں کی تعمیر کرانے کا کام ایک سیکولر حکومت کا ہے ؟ تو پھر اس کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے کہ وہ مسجدیں بھی تعمیر کرائے گی اور گورودوارہ اور چرچ بھی تعمیر کرائے جائیں گے ۔ یہ کیا بات ہے ؟ عبادت گاہیں خود عوام اپنے طور پرتعمیر کرتے ہیں ، حکومت کا کام اسکول ، کارخانے ، انڈرسٹریز تعمیر کرانے کا ہے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے ۔

متعلقہ خبرین:

Exit mobile version