نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید
نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید

نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید از: محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال ــــــــــــــــــــــــــــ نیا سال اللہ رب العزت کی عطا کردہ ایک اور مہلت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بہتر سمت میں لے جائیں اور اپنے اعمال کو اس کی رضا کے مطابق سنواریں۔ 2025 کا آغاز امت مسلمہ کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ وقت کی قدر کریں، اپنے ماضی کا جائزہ لیں، اور مستقبل کے لیے مضبوط ارادے باندھیں۔ وقت کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی ہے: […]

ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن
ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن

ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن از: عارف حسین پورنوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ دسمبر کی۱ ۳؍ویں تاریخ کو سال کا آخری دن سمجھتے ہوئے نئے سال کی ابتدا کا جشن نہایت ہی دھوم دھام سے منایاجاتا ہے۔ جب رات کے ٹھیک ۱۲بجے گھڑی کی سوئیاں تاریخ میں تبدیلی کا اعلان کرتی ہیں تو ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے بڑے بڑے شہروںکے ہوٹلوں، کلبوں، شراب خانوں، شاپنگ ہالوں، اور تفریح گاہوں میں غول در غول لوگ جمع ہو کر کچھ دیر کے لیے اپنے سارے رنج وغم بھلا کر نئے سال کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، تقریبات منعقد […]

نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟
نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟

نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟ از: ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال ــــــــــــــــــــــــــــــ سال 2024 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور سال 2025 کا آغاز ہونے والا ہے۔ یہ وقت ہمیں اپنی گذشتہ زندگی پر غور کرنے اور نئے سال کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گذشتہ ایک سال کا محاسبہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے کہاں کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نئے اہداف مقرر کرتے ہوئے اپنی دنیاوی اور دینی […]

نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں !
نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں !

نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں ! از: جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی ____________________ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان میں سب سے عظیم الشان اور سب سے باوقار دین ہے مذہب اسلام کے اندر ذرہ برابر بھی ناانصافی اور حق تلفی کی گنجائش نہیں ہے اور دہشت گردی و خونریزی کی بھی گنجائش نہیں ہے،، مذہب اسلام امن و سلامتی کا سرچشمہ ہے مہذب معاشرے میں حقوق نسواں کا تصور اسلام کی ہی دین ہے مذہب اسلام حقوق العباد کو بہت اہمیت دیتا ہے […]

previous arrow
next arrow

تازہ ترین پوسٹ

تعلیم و تربیت

لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کی تباہی ہو یا پھر سعودی عرب میں طوفان اور ہم مسلمان !!

لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کی تباہی ہو یا پھر سعودی عرب میں طوفان اور ہم مسلمان !! ✍️ یحییٰ...
Read More
تعلیم و تربیت

مطالعہ معاشرتی حیثیت کا آئینہ دارِ

ہم ایک ایسے دور کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں روز بدلتے حالات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،...
Read More
تجزیہ و تنقید

لاس اینجلس کی آگ کا سبق !

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگل اور ہالی ووڈ کے مرکز لاس اینجلس میں جو آگ لگی ہے ، وہ اب...
Read More
تجزیہ و تنقید

آن لائن اور ڈیجیٹل فراڈ: جدید دور کا ایک سنگین مسئلہ

ڈیجیٹل دور میں، جہاں ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے، وہیں جرائم کی نئی اقسام...
Read More
تجزیہ و تنقید

دلی انتخابات میں امکانات

دلی میں انتخابی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ ایک ماہ کے اندر نتائج سامنے ا ٓجائیں گے۔ اور فیصلہ...
Read More

وزیر اعظم کی زبان پر دی کیرالہ اسٹوری کا ذکر​

 وزیر اعظم کی زبان پر دی کیرالہ اسٹوری کا ذکر

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

فیک نہیں فکشن یعنی خیالوں پر مبنی فلم ’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ کی اب کرناٹک اسمبلی انتخابات میں انٹری ہو گئی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے فلم کے بہانے کانگریس پر زوردار حملہ کیا ۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردانہ افکار و خیالات کی حامی ہے کانگریس پارٹی ۔ دہشت گردی کے خلاف بنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری ‘کی کانگریس نے مخالفت کی ۔ حالانکہ کانگریس نے دہشت گردانہ سرمیوں کی نہیں بلکہ فلم کے ٹیزر میں جو 32000؍ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناکر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی بات کہی گئی تھی اس کی مخالفت کی تھی اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے اس پر ایک کروڑ کا انعام رکھا تھا کہ اگر فلم بنانے والے یہ ثابت کر دیں کہ 32000؍لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو وہ ایک کروڑ مجھ سے لے جائیں ۔

 اب اس معاملہ میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔پہلے انھوں نے اپنے خطاب میں بغیر فلم کا نام لیے کہا کہ فلم جھوٹی ہے اور اس جھوٹی فلم کو وزیر اعظم نریندر مودی پرموٹ کر رہے ہیں ۔ ہمارا نقاب دکھا کر یہ صرف پیسے کمانا چاہتے ہیں ۔ اویسی نے ایک سوال تو اٹھایا ہے ۔ جب فلم کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو پھر اس کا کرناٹک کے الیکشن میں ذکر کرنا اور اس کے حوالے سے کانگریس پر تنقید کرنا کہاں تک جائز ہے ۔ کیا فلم کے بنانے والوں کے اس دعوے کو جانے دیا جاتا کہ جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ پوری فلم سچائی پر مبنی ہے ، کچھ بھی جھوٹ نہیں ہے۔معاملہ جب عدالت میں گیا تو نیوز چینلوں پر جھوٹ بولنے والے فلم ساز وں نے حلف نامہ داخل کرکے کہا کہ 32000؍غلط ہے ، صرف تین لڑکیوں کی کہانی ہے اور یہ فیکٹ نہیں ہے بلکہ فکشن ہے۔ دہشت گردانہ افکار کے خلاف فلم بنائی گئی ہے ۔ اس کے بعد ہی کورٹ نے اس کو ریلیز کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اب جب یہ اعتراف خود فلم ساز نے کیا ہے تو پھر ان سے پوچھنا چاہئے کہ نیوز چینلوں پر جو بار بار کہہ رہے تھے کہ ایک ایک لفظ فلم کا سچ ہے اس کا کیا ہوا ؟ کیا اب گودی میڈیا پر یہ لوگ جائیں گے اور بتائیں کہ جو ہم نے کہا تھا وہ جھوٹ تھا ۔ جھوٹ تو سب نے سنا لیکن سچ کس نے سنا پتہ نہیں ۔ حالانکہ ہندوستان کے عوام کو بھی معلوم ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے ۔

کشمیر فائلس بنانے والوں نے محض پیسے کمائے لیکن کشمیری پنڈتوں کو پھر روتا ہوا چھوڑ دیا ، ان کے مسائل پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ دہشت گردی پر بات کرنے والے ہمارے وزیر اعظم سے جب جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے پلوامہ پر ہوئے حملے پر سوال کیا تو وہ خاموش ہو گئے ۔ کوئی جواب نہیں دیا ۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت نے نہیں بتایا کہ آخر گزشتہ روز ہمارے 6؍جوان دہشت گردانہ حملے میں کیسے شہید ہوگئے ۔ اب آپ پلان بنائو کچھ بھی کرو ۔ ایئر اسٹرائک کرو لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں ؟ کیسے ہمارے 6؍جوان شہید ہوئے ۔ بس نعرے بازی ہی ہوتی رہے گی ۔ گزشتہ 9؍سال میں کیا کیا ؟ کرناٹک میں الیکشن جیتنے کے لیے اب بجرنگ بلی کا سہارا ہی بچا ہے ۔ ڈبل انجن کی حکومت نے کیا کام کیا ہے کیا اس کا ذکر کہیں سننے میں آیا کیا ؟ میں اب تک کئی اداریہ کرناٹک کے الیکشن پر لکھ چکا ہوں ،سب میں یہی کوشش رہی ہے کہ الیکشن عوام کے اصل مسائل پر ہونے چاہئے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، ریاست کی ترقی ، تجارت ، تعلیم ان پر بات ہونی چاہئے اور عوام کو ان کی بنیاد پر ووٹ کرنا چاہئے ۔ کرناٹک کا روشن مستقبل کیسے ہو اس پر غور کرنا چاہئے ، اس پر ایجنڈہ تیار ہوناچاہئے ۔ افسوس کی بات کہہ لیجئے یا یہ کہئے کہ کانگریس بھی نادانی کر رہی ہے ، وہ بھی گودی میڈیا اور بی جے پی کی چال میں پھنس گئی اور اس نے بھی اپنا ٹریک بدل لیا ۔ اس نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ اگر حکومت میں آئی تو مندروں کی تعمیر کرائے گی۔ کیا مندروں کی تعمیر کرانے کا کام ایک سیکولر حکومت کا ہے ؟ تو پھر اس کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے کہ وہ مسجدیں بھی تعمیر کرائے گی اور گورودوارہ اور چرچ بھی تعمیر کرائے جائیں گے ۔ یہ کیا بات ہے ؟ عبادت گاہیں خود عوام اپنے طور پرتعمیر کرتے ہیں ، حکومت کا کام اسکول ، کارخانے ، انڈرسٹریز تعمیر کرانے کا ہے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے ۔

متعلقہ خبرین:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: