ہندوازم اور اسلام: ایک تقابلی مطالعہ
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار؟ مغربی بنگال
___________________
ہندوازم اور اسلام دنیا کے دو بڑے مذاہب ہیں، جو گہری تاریخ، منفرد عقائد اور روایات پر مبنی ہیں۔ ہندوازم زیادہ تر برصغیر سے نکلا جبکہ اسلام عرب کے علاقے سے نکلا۔ اس تقابلی مطالعے کا مقصد ان دونوں مذاہب کے فلسفیانہ اور مذہبی فرق کو اجاگر کرنا ہے۔ اس تجزیے میں دونوں مذاہب کے عقائد، عبادات، سماجی ڈھانچے اور اخلاقیات پر توجہ دی جائے گی۔
تعارف:
مذاہب معاشروں، ثقافتوں اور انفرادی شناختوں کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہندوازم اور اسلام دونوں انسانی تہذیب پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ہندوازم ایک کثیر خدائی مذہب ہے جس میں بے شمار دیوی دیوتا، عقائد اور فلسفے ہیں، جبکہ اسلام خدائے واحد کے عقیدے پر مبنی ہے جو بندوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی کی طرف بلاتا ہے۔
اس مقالے کا مقصد ان دونوں مذاہب کا تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے، ان کے بنیادی عقائد کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہندوازم کی خامیوں اور اسلام کی خوبیوں کو بھی واضح کرنا ہے۔
عقائدی اختلافات
-
۱. خدا کا تصور:
ہندوازم: ہندوازم میں دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد کی پوجا کی جاتی ہے، اور یہ مذہب مختلف فرقوں اور روایتوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہندوازم میں برہمن (عظیم حقیقت) کا تصور بہت گہرا اور فلسفیانہ ہے، جسے سمجھنا عام لوگوں کے لیے مشکل ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ دیوی دیوتاؤں کے بتوں کی پوجا کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسلام: اسلام ایک خدا، اللہ، پر یقین رکھتا ہے جو ہر شے کا خالق اور مالک ہے۔ اسلام میں اللہ کی وحدانیت پر زور دیا گیا ہے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں خدا کا تصور نہایت واضح اور سادہ ہے، جو کسی درمیانی یا بت کے بغیر براہ راست خدائے واحد کی عبادت کی تعلیم دیتا ہے۔
ہندوازم کی خامیاں:
ہندوازم کی کثیر خدائی اور بت پرستی کے باعث اس کے پیروکاروں میں الجھن پیدا ہوتی ہے اور عقائد میں یکسانیت کی کمی نظر آتی ہے۔ مختلف دیوی دیوتاوں کی پوجا کی وجہ سے عقیدت اور روحانی رہنمائی میں بکھراؤ پیدا ہوتا ہے۔
اسلام کی خوبیاں:
اسلام میں توحید پر زور دینے کی وجہ سے اللہ سے براہ راست تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ خدا کا تصور نہایت واضح اور فطری ہے، جس میں کسی قسم کے بتوں یا درمیانیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس سے پیروکاروں کو ایک خالص روحانی زندگی گزارنے کی ترغیب ملتی ہے۔
-
۲. مذہبی کتابیں اور اتھارٹی:
ہندوازم: ہندوازم کے مقدس متون میں وید، اپنشد، بھگوت گیتا اور مہابھارت شامل ہیں۔ یہ متون قدیم اور گہرے فلسفے پر مبنی ہیں، لیکن انہیں سمجھنا اور ان کی تشریح کرنا عام لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوازم میں کوئی مرکزی مذہبی اتھارٹی نہیں ہے جس کی وجہ سے مختلف فرقوں میں متضاد تعلیمات اور عمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسلام: اسلام کی بنیاد قرآن اور حدیث پر ہے۔ قرآن کو اللہ کا کلام ہے اور حدیث نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا مجموعہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کے لیے ایک مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، جبکہ حدیث اسلامی اصولوں کی عملی مثال پیش کرتی ہے۔ اسلام میں ایک ہی کتاب اور واضح مذہبی احکام کی موجودگی سے پیروکاروں میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔
ہندوازم کی خامیاں:
ہندوازم میں متعدد کتابوں کی موجودگی کے باعث پیروکاروں میں تضاد اور الجھن پیدا ہوتی ہے۔ مختلف فرقوں اور فلسفوں کی بنیاد پر ایک ہی مذہب میں مختلف عقائد اور عمل موجود ہیں، جس سے مذہبی انتشار پیدا ہوتا ہے۔
اسلام کی خوبیاں:
قرآن کی ایک ہی کتاب کی صورت میں موجودگی سے اسلامی تعلیمات میں یکسانیت اور تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کا اصل زبان میں ہونا اس کے پیغام کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حدیث کی صورت میں نبی ﷺ کی سنتوں کی موجودگی سے اسلامی اصولوں کا عملی نفاذ آسان ہو جاتا ہے۔
-
۳. سماجی ڈھانچہ اور ذات پات کا نظام:
ہندوازم: ہندوازم میں ذات پات کا نظام ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جو سماجی عدم مساوات اور امتیاز کا سبب بنا ہے۔ یہ نظام لوگوں کو پیدائشی طور پر مختلف گروہوں میں بانٹ دیتا ہے، جس سے سماجی تقسیم اور نچلے طبقات پر ظلم و ستم ہوتا ہے۔
اسلام: اسلام مساوات کا درس دیتا ہے اور اللہ کے سامنے تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے۔ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ اسلام میں ذات پات یا نسل کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جاتا۔
ہندوازم کی خامیاں:
ذات پات کے نظام نے صدیوں تک بھارتی معاشرے میں عدم مساوات اور ظلم کو فروغ دیا ہے۔ یہ نظام معاشرتی انصاف کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلام کی خوبیاں:
اسلام میں مساوات اور سماجی انصاف کا اصول ایک اہم خوبی ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی سماجی یا نسلی تفریق کی گنجائش نہیں ہے، جو ایک منصفانہ اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نماز اور حج کے مواقع پر امیر اور غریب، سب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں، جو مسلمانوں کے درمیان مساوات کی ایک عملی مثال ہے۔
-
٤. اخلاقی اور معاشرتی اصول:
ہندوازم: ہندوازم میں اخلاقیات کا دارومدار دھرم پر ہوتا ہے، جو ذات، عمر اور مقام کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی اخلاقیات کبھی کبھار عام انسانی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ کرم کے اصول کے تحت انسان کو اپنے اعمال کا پھل مختلف جنموں میں ملتا ہے، لیکن یہ اصول بعض اوقات انسان کو تقدیر پر یقین رکھتے ہوئے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
اسلام: اسلام میں اخلاقیات کا ایک جامع نظام موجود ہے جو قرآن اور حدیث پر مبنی ہے۔ اسلام میں سچائی، انصاف، رحم دلی اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک جیسے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اسلامی اخلاقیات میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کا دارومدار عمل اور نیت پر ہوتا ہے۔
ہندوازم کی خامیاں:
ہندوازم کی اخلاقی تعلیمات اکثر مختلف فرقوں اور فلسفوں کی وجہ سے بکھری ہوئی اور متضاد نظر آتی ہیں۔ کرم کا نظریہ بعض اوقات لوگوں کو معاشرتی ظلم کے خلاف کھڑے ہونے سے روکتا ہے اور انہیں اپنی تقدیر پر ہی چھوڑ دیتا ہے۔
اسلام کی خوبیاں:
اسلام کا اخلاقی نظام تمام انسانوں کے لیے عالمگیر ہے اور ہر حالت میں لاگو ہوتا ہے۔ اس کا زور انصاف، دیانتداری اور اللہ کی رضا کے لیے نیک اعمال پر ہوتا ہے۔ زکوة اور صدقہ جیسے اصول مسلمانوں کو دوسروں کی مدد اور معاشرتی فلاح و بہبود کی طرف راغب کرتے ہیں۔
نتیجہ:
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوازم ایک قدیم اور متنوع روایت ہے، لیکن اس میں بعض بنیادی خامیاں موجود ہیں، جیسے کہ خدائی کثرت، ذات پات کا نظام اور مذہبی اتھارٹی کی کمی۔ اس کے برعکس، اسلام ایک واضح اور منظم توحیدی مذہب ہے، جس میں سماجی انصاف، مساوات اور اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام کے یہ اصول ایک بہترین اور ہم آہنگ معاشرتی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں۔
حوالہ جات:
1. Ahmed, Leila. Women and Gender in Islam. Yale University Press, 1992.
2. The Holy Qur’an:
3. Doniger, Wendy. The Hindus: An Alternative History. Oxford University Press, 2009.
4. Esposito, John L. Islam: The Straight Path. Oxford University Press, 1998.
5. Radhakrishnan, S. The Hindu View of Life. HarperCollins India, 2013.
6. Zaehner, R.C. Hinduism. Oxford University Press, 1966.