غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ: احوال و آثار
غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ:
احوال و آثار
🖋 محمدشہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچ
کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
تاریخ اسلام میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا نام انتہائی عزت اور عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت اسلامی تاریخ کے عظیم ترین روحانی رہنماؤں میں سے ایک ہے، جو علم و عرفان اور روحانی تربیت کے میدان میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ آپ کو "غوث اعظم” اور "محی الدین” جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، جو آپ کی عظمت اور اعلی روحانی مرتبت کا اعتراف ہیں۔ آپ کی زندگی نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال ہے، اور آپ کے اثرات آج تک دنیا بھر میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
نسب اور ابتدائی زندگی:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ 470ھ (1077ء) میں ایران کے علاقے جیلان (گیلان) میں پیدا ہوئے، جو اس وقت بغداد کے قریب واقع تھا۔ آپ کا پورا نام "عبد القادر بن موسی بن عبد اللہ” تھا، اور آپ کا نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسنؓ اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسینؓ تک پہنچتا ہے۔ یوں آپ حسنی حسینی سید تھے، اور اس مقدس خاندان سے تعلق کی وجہ سے آپ کو روحانی طور پر ایک خاص مرتبہ حاصل تھا۔
آپ کے والد محترم حضرت ابو صالح موسی جنگی دوستؒ بھی اپنے وقت کے ولی کامل تھے، جنہوں نے اللہ کی عبادت اور خدمت خلق میں اپنی زندگی بسر کی۔ آپ کی والدہ محترمہ، حضرت فاطمہ ام الخیرؒ، ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں، جنہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی والدہ کی دعائیں اور تربیت کا اثر تھا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ بچپن ہی سے ایک خاص روحانی کیفیت اور تقویٰ کے حامل نظر آئے۔
علم کی جستجو:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے جیلان میں حاصل کی۔ بچپن میں ہی آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔ جب آپ کی عمر تقریباً 18 سال کی ہوئی تو علم کی مزید جستجو میں آپ بغداد تشریف لے گئے، جو اس وقت اسلامی دنیا کا علمی مرکز تھا۔
بغداد پہنچنے کے بعد آپ نے اپنے وقت کے معروف اساتذہ اور علماء سے علم حاصل کیا۔ آپ نے فقہ، حدیث، تفسیر، اور دیگر علوم دینیہ میں گہری دلچسپی لی اور ان میں مہارت حاصل کی۔ آپ نے فقہ حنبلی کا گہرائی سے مطالعہ کیا، اور امام احمد بن حنبلؒ کے پیروکار بنے۔ آپ کے اساتذہ میں امام ابو الوفاء ابن عقیل، امام ابو سعد مخرمی، اور شیخ حماد بن مسلم الدباس جیسے نامور علماء شامل تھے، جنہوں نے آپ کی علمی و روحانی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
روحانی سفر اور تصوف کی طرف رجحان:
اگرچہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ ایک مایہ ناز فقیہ اور عالم دین تھے، لیکن آپ کی شخصیت کی سب سے بڑی پہچان آپ کا روحانی مقام ہے۔ آپ نے تصوف اور روحانیت کی طرف خاص رجحان دکھایا اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شرکت کی۔ آپ کا تصوف شریعت کے ساتھ مربوط تھا، اور آپ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایک سچا صوفی وہ ہے جو شریعت کا پابند ہو۔
آپ نے تصوف کو ایک علمی اور عملی شکل دی، جس کی بنیاد قرآن و سنت پر تھی۔ آپ نے ہمیشہ اخلاقیات، تقویٰ، محبت الٰہی، اور خدمت خلق کو اپنی تعلیمات کا محور بنایا۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے افراد کو روحانی تربیت حاصل ہوتی تھی اور ان کی زندگیاں بدل جاتی تھیں۔
تبلیغی خدمات اور بغداد میں قیام:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے بغداد میں ایک طویل عرصے تک قیام کیا اور وہاں تبلیغ دین کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ نے وہاں ایک مدرسہ اور خانقاہ قائم کی، جہاں سے علم و عرفان کی روشنی پھیلنے لگی۔ آپ کے دروس اور خطبات میں عوام و خاص، علماء، فقہاء، اور امراء سب شامل ہوتے تھے اور آپ کی زبان سے نکلنے والے کلمات ان کے دلوں کو روشن کرتے تھے۔
آپ کا انداز تبلیغ انتہائی موثر تھا۔ آپ کی زبان میں ایسی تاثیر تھی کہ جب آپ وعظ و نصیحت فرماتے تو لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر ہوتا تھا۔ آپ نے عوام الناس کو گمراہی سے نکال کر تقویٰ، اخلاص اور اللہ کی محبت کی طرف مائل کیا۔ آپ کا مقصد ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ لوگوں کو دنیاوی محبت سے نکال کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں سرشار کیا جائے۔
سلسلۂ قادریہ کی بنیاد:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے تصوف کے میدان میں سلسلۂ قادریہ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ سلسلہ قادریہ کا مقصد انسانوں کو روحانی اور اخلاقی تربیت دینا تھا۔ اس سلسلے میں شامل ہونے والے افراد کو اللہ کی رضا، محبت الٰہی، اور تقویٰ کے اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی تھی۔
سلسلۂ قادریہ کے پیروکار نہ صرف اسلامی عبادات میں مشغول رہتے تھے بلکہ وہ اپنی معاشرتی زندگی میں بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس سلسلے نے لاکھوں لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا اور انہیں روحانی تربیت دی۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا یہ سلسلہ آج بھی زندہ ہے، اور دنیا بھر میں اس کے لاکھوں پیروکار موجود ہیں۔
کرامات:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار روحانی طاقتوں سے نوازا تھا، اور آپ کی زندگی میں بے شمار کرامات کا ذکر ملتا ہے۔ آپ کی مجلس میں آنے والے بیماروں کو شفا ملتی، مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو رہنمائی ملتی، اور اللہ کے حکم سے کرامات کا ظہور ہوتا۔
آپ کی کرامات میں سب سے مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے پیروکاروں سے فرمایا: "میرا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے”۔ یہ ایک روحانی اعلان تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خاص روحانی مقام عطا ہوا ہے۔ اس اعلان کے بعد دنیا بھر کے صوفیاء کرام نے آپ کی برتری کو تسلیم کیا۔
تصانیف:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تصانیف صوفیانہ ادب اور اسلامی علوم کا ایک قیمتی ذخیرہ ہیں۔ آپ کی کتابیں آج بھی مسلمانوں کی روحانی اور دینی رہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں سے چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:
-
1. غنیۃ الطالبین:
شیخ عبد القادر جیلانی کی یہ ایک اہم کتاب ہے جس میں کئی فقہی مسائل پر مصنف کی قیمتی آراء موجود ہیں۔ اس میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اذکار، دعائیں اور فضائل اعمال جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
-
2. الفتح الربانی:
یہ کتاب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے مواعظ اور ملفوظات کا ایک مجموعہ ہے، جسے ان کے نواسے اور مریدِ خاص عفیف الدین المبارک نے قلمبند کیا تھا۔ اس کا مکمل نام "الفتح الربانی والفیض الرحمانی” ہے اور یہ عربی زبان میں ہے۔ یہ کتاب 62 مجالس (کل 672 صفحات) پر مشتمل ہے، جن میں غوث اعظم کے وہ کلمات اور علم و معرفت شامل ہیں جو طریقت و شریعت کے مسافروں کے لیے بہترین رہنما ہیں۔ اگرچہ تحریری شکل میں وہ اثر نہیں جو براہ راست سننے میں ہوتا ہے، مگر اس کتاب کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غوث اعظم کی مجلس میں شریک ہیں۔ آخر میں ان کے بہت سے ملفوظات بھی شامل ہیں۔ آپ کے فیوض و برکات کا اصل ظہور 545ھ میں ہوا، اور اسی دور میں مخلوق کا رجوع بھی ہوا۔ یہ مواعظ بھی اسی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ "فیوض یزدانی” کے نام سے کیا گیا ہے، جس کے مترجم عاشق الٰہی میرٹھی ہیں اور یہ مدینہ پبلشنگ کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔
-
3. فتوح الغیب:
یہ کتاب بھی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے جو علم تصوف و معرفت پر مبنی ہے۔ اس کے مضامین قرآنی اسرار اور طریقت کے اصولوں سے لبریز ہیں۔ یہ کتاب مختلف مقالات پر مشتمل ہے، اور ہر مقالہ معرفت و حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ اس کتاب میں غوث اعظم کے 78 وعظ شامل ہیں جو مختلف مواقع پر بیان کیے گئے۔ ان مقالات کا مطالعہ ایمان میں گرمی پیدا کرتا ہے اور صحیح عقائد و اعمال کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ کتاب شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے صاحبزادے محمد عیسیٰ کی تعلیم کے لیے تصنیف کی تھی، جس میں فنا و بقا اور نفس و دل کے امراض اور ان کے علاج کی رہنمائی بھی موجود ہے۔ اس کتاب کے کئی ترجمے ہو چکے ہیں، جن میں مشہور ترین ترجمہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا ہے۔ ابو الحسن سیالکوٹی، نواب صدیق حسن بھوپالی اور محمد عالم کاکوروی نے بھی اس کے تراجم کیے ہیں۔
وفات اور مزار:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا وصال 561 ھ (1166ء) میں بغداد میں ہوا۔ آپ کا مزار آج بھی بغداد میں مرجع خلائق ہے، جہاں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور سلسلۂ قادریہ کے پیروکاروں نے آپ کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے جو ان شاء اللہ العزيز تا قیامت جاری رہے گا۔
آثار و تعلیمات کا اثر:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تعلیمات کا اثر نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ پوری انسانیت پر مرتب ہوا ہے۔ آپ کی تعلیمات محبت، امن، خدمت خلق، اور اخلاقیات پر مبنی تھیں، جو آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آپ کے پیروکار آپ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں خدمت خلق اور دین کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔
آپ کی تعلیمات میں اخلاص، تقویٰ، اللہ پر بھروسہ، اور صبر و شکر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو اللہ کی محبت کی طرف مائل کیا اور دنیاوی محبت سے دور رہنے کی تلقین کی۔ آپ کی شخصیت کا اثر آج تک اسلامی دنیا میں محسوس کیا جا سکتا ہے، اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگ اپنی زندگیاں سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نتیجہ:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی شخصیت ایک روشن چراغ کی مانند ہے، جو ہمیشہ دین اسلام کی روشنی پھیلانے اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے روشن رہے گا۔ آپ کی تعلیمات نے نہ صرف آپ کے زمانے میں لوگوں کے دلوں کو بدل دیا، بلکہ آج بھی لاکھوں مسلمان آپ کے تصوف، اخلاقیات، اور روحانیت کی روشنی سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔
آپ نے دین اسلام کی اصل روح کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے دنیاوی خواہشات کو ترک کرنا اور تقویٰ و اخلاص کی راہ اپنانا ضروری ہے۔ آپ کی شخصیت نے روحانیت اور شریعت کے درمیان توازن قائم کیا، اور آپ کی تعلیمات نے مسلمانوں کو اللہ کی قربت اور محبت کی راہ دکھائی۔
سلسلۂ قادریہ آج بھی دنیا بھر میں موجود ہے اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو روحانی ترقی کی طرف لے جا رہا ہے۔ آپ کے مواعظ اور تصانیف آج بھی اسلامی ادب میں ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہیں، جو لوگوں کو دین اور دنیا میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی زندگی، آپ کے احوال و آثار، اور آپ کی تعلیمات ہر دور کے انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ کی فکر اور کردار نے اسلامی تاریخ میں ایک گہرا نقش چھوڑا ہے، جسے وقت کی گرد ماند نہیں کر سکی۔ آپ کی عظمت کا یہ تسلسل قیامت تک قائم رہے گا، اور آپ کی روحانی روشنی امت مسلمہ کے دلوں میں ہمیشہ چمکتی رہے گی۔