مولانا امداد صابری
مولانا امداد صابری
🖋معصوم مرادآبادی
__________________
آج اردو صحافت کے محقق اعظم مولانا امداد صابری کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 13 اکتوبر 1988کو دہلی میں وفات پائی۔ جس وقت ان کا انتقال ہوا، ان کی عمر 73برس تھی۔ انھوں نے تصنیف وتالیف اور تحقیق وتدوین کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے، ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکا۔ انتقال سے ایک سال قبل انھوں نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ وہ اب تک 76 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان میں پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل” تاریخ صحافت اردو ” بھی شامل ہے۔
مولانا امداد صابری ایک ذی علم مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علامہ شرف الحق صابری اپنے عہد کے بڑے عالم دین تھے۔ان کے ذاتی ذخیرے میں بے شمار کتابیں اور نادرونایاب اخبارات کی فائلیں تھیں، جن سے مولانا امداد صابری نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اردو صحافت کے محققین کے لیے وافر مقدار میں خام مواد فراہم کردیا۔
مولانا امداد صابری نے اردو صحافت کی تحقیق وتدوین کے میدان میں ہی اپنے جوہر نہیں دکھائے بلکہ کئی اخبارات وجرائد بھی نکالے۔ وہ اس کے علاوہ سماجی خدمت کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے۔ انھوں نے غریب مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی لڑائی بھی لڑی اور ان کے حق میں عوامی تحریکیں چلائیں۔ جس زمانے میں وہ دہلی میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر تھے تو میں نے دیکھا کہ وہ رکشہ پر بیٹھ کر ضرورت مندوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان کی مہر اور پیڈ ساتھ ہوتا تھا۔جہاں جہاں اس کی ضرورت ہوتی وہ بلاتکلف حاجت مندوں کے کام آتے تھے۔ انھوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ بنیادی طورپر وہ ایک درویش صفت، شریف النفس اورخدا ترس انسان تھے۔ انھیں تحریر و تقریر دونوں میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے تقریباً پچاس برس اردوزبان اور خصوصاً اردو صحافت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔امداد صابری اپنے جذبہ خدمت اور ملی غیرت کے لیے معروف تھے۔ صاف گو تھے اور کسی غلط بات کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسی بنا پر وہ کانگریس اور اس کے سربراہوں سے نباہ نہ سکے۔ کانگریسی رہنماؤں کی بجائے وہ سبھاش چندربوس کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ اسی عقیدت و محبت کی بنا پر وہ آخر تک سبھاش چندربوس جیسی ٹوپی اوڑھتے رہے۔وہ 1930 سے عملی سیاست میں تھے اور ابتدائی تین سال انھوں نے نیتاجی سبھاش چندربوس کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ آزاد ہند فوج میں بھی سرگرم رہے ۔وہ کانگریس کے خلاف جنتا انقلاب میں شریک ہوئے اور جنتا پارٹی کے دور حکومت میں چار سال تک دہلی کے ڈپٹی میئر رہے۔
امداد صابری کی پیدائش 16 اکتوبر سنہ 1914ء کو دہلی کے معروف علاقہ چوڑی والان میں ہوئی۔ جس خاندان میں ان کی ولادت ہوئی وہ اپنے علم و فضل میں مشہور تھا۔ ان کے والدعلامہ شرف الحق صابری اپنے عہد کے مشہور عالم دین تھے، انہیں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے خاص تعلق تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند کے نام ”امداد الرشید صابری“ میں دونوں شخصیتوں کے نام یکجا کر دئیے تھے۔لیکن انھوں نے شہرت مولانا امداد صابری کے نام سے پائی۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو صحافت پر تحقیق ہے، جو ان سے پہلے اتنی عرق ریزی کے ساتھ کسی نے نہیں کی تھی۔ اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر درجنوں کتابیں تحریر کیں ۔ دہلی کی دیواری صحافت سے بھی انھیں شغف تھا۔یعنی پوسٹروں کی اشاعت اور انہیں راتوں رات دیواروں پر چسپاں کرنے کا شوق تھا۔ ان کے پوسٹر خاصے دلچسپ اور زبان و بیان کے لحاظ سے منفرد اور موثر ہوتے تھے۔
علمی ذوق کے ساتھ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لیا۔ دو مرتبہ کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ وہ دہلی کارپوریشن کے ڈپٹی میئر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
امداد صابری انتہائی سادہ مزاج تھے۔ کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے میں بھی سادگی پسند کرتے تھے۔ ان کے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنے گھر کی سادہ سی بیٹھک میں وہ اپنے کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے۔یوں تو ان کی کتابوں کی تعداد 75 کے آس پاس ہے، لیکن یہاں چند اہم کتابوں کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (1)تاریخ صحافت اردو (پانچ جلدیں)(2)تاریخ جرم و سزا (تین جلدیں) (3)فرنگیوں کا جال (4)داستان پرغم(5)تاریخ آزاد ہند فوج(6)نیتاجی سبھاش چندربوس کے ساتھ(7)سبھاش بابو کی تقریر(8)آزاد ہند فوج کا البم(9)1857ء کے مجاہد شعراء(10)1857ء کے غدار شعراء(11)حاجی امداد اللہ اور ان کے خلفا (12)رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک(13)رسول خدا کی غریبوں سے محبت(14)فیضان رحمت (15)دہلی کی یادگار شخصیتیں (16)دہلی کے قدیم مدارس اور مدرّس (17)سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں (18)اللہ کے گھر میں بار بار حاضری(19)اخبار’مخبر عالم‘ مرادآباد اور تحریک آزادی (20)آثار رحمت(21)جنوبی افریقہ کے اردو شاعر(22)روح صحافت (23)اردو کے اخبار نویس(دوجلدیں) (24)شہیدان آزادی مرادآباداور صوفی انباء پرشاد
مولانا مامداد صابری نے 13/ اکتوبر 1988ء کو کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 74 برس کی عمر میں دہلی میں وفات پائی اور مہندیاں قبرستان میں دفن ہوئے۔