فتح اللہ گولن: زندگی اور خدمات
فتح اللہ گولن: زندگی اور خدمات
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
________________
ابتدائی زندگی اور پس منظر:
فتح اللہ گولن کا اصل نام محمد فتح اللہ گولن ہے۔ آپ کی پیدائش 27 اپریل 1941 کو ترکی کے صوبہ ارزروم کے ایک چھوٹے سے گاؤں کورکوک میں ہوئی۔ آپ کے والد رامز گولن ایک معزز عالم دین تھے اور والدہ رفعت حانم ایک دینی خاتون تھیں جو بچوں کو قرآن کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ فتح اللہ کی ابتدائی تعلیم اسلامی ماحول میں ہوئی، جہاں دینی تعلیمات اور اخلاقیات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کے والدین نے بچپن سے ہی ان کی دینی اور اخلاقی تربیت میں گہری دلچسپی لی۔
گولن نے قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ، چھوٹی عمر میں ہی اسلامی تعلیمات پر گہرا مطالعہ شروع کیا۔ اس زمانے میں ترکی کی حکومت میں سیکولرزم کا غلبہ تھا، اور دینی تعلیمات کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ اس ماحول میں گولن کا دینی رجحان ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا، جہاں سے انہوں نے دین کی خدمت کو اپنا مقصد بنا لیا۔
دینی تعلیم اور فکری نشوونما:
فتح اللہ گولن نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور پھر وہ معروف اسلامی درسگاہوں میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ وہ جدید دینی مسائل اور روایتی اسلامی تعلیمات کے درمیان توازن پیدا کرنے کے قائل تھے۔ گولن کے لیے تصوف اور روحانیت کا میدان بہت اہم تھا، اور انہوں نے اس میں گہری دلچسپی لی۔ ان کی زندگی کا مقصد ہمیشہ یہ رہا کہ دین کی اصل روح کو لوگوں تک پہنچایا جائے، جس میں محبت، امن، بھائی چارہ اور انسانیت کی خدمت کو اہمیت حاصل ہو۔
گولن نے ترکی کے مختلف شہروں میں دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے خصوصی کلاسز کا اہتمام کیا۔ ان کے درس و تدریس کا اہم موضوع اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدید معاشرتی مسائل کا حل تھا۔ ان کی تقاریر اور کتابیں عوام و خواص میں بے حد مقبول ہوئیں، اور ان کی تعلیمات کا اثر ترکی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں محسوس کیا جانے لگا۔
خدمت تحریک: ایک عالمی تعلیمی اور فلاحی تحریک:
فتح اللہ گولن کی خدمات میں سب سے نمایاں "خدمت تحریک” ہے، جو ایک عالمی سطح کی تعلیمی اور فلاحی تحریک ہے۔ اس تحریک کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا، جب گولن نے ترکی میں اسلامی اور جدید تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول اور تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کیے۔ ان کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ تعلیم ہی انسانیت کی فلاح کا راستہ ہے، اور اسی کے ذریعے معاشرتی ترقی اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
"خدمت تحریک” کا بنیادی فلسفہ انسانیت کی خدمت ہے۔ اس کے تحت دنیا بھر میں ہزاروں تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں، اور سماجی فلاحی ادارے قائم کیے گئے، جو تعلیم کے ذریعے دنیا میں امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔ اس تحریک کے تحت ترکی، وسطی ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں تعلیمی ادارے اور فلاحی تنظیمیں قائم کی گئیں۔
تعلیم: جدید اور دینی علوم کا امتزاج:
گولن نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ تعلیم کا مقصد صرف دینی یا دنیاوی علوم تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ دونوں شعبے ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں۔ گولن کے تعلیمی نظریے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، اور معاشرتی علوم کو بھی خاص اہمیت دی گئی۔ وہ یہ مانتے تھے کہ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے مسلمان نہ صرف اپنے مذہبی اقدار کو زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کا بھی کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
"خدمت تحریک” کے تعلیمی ادارے گولن کے اس نظریے کا عملی مظہر ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی تعلیمات اور جدید علوم کا امتزاج پیش کیا جاتا ہے، اور طلباء کو نہ صرف دینی طور پر مضبوط کیا جاتا ہے بلکہ انہیں جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بھی بنایا جاتا ہے۔ گولن کا ماننا تھا کہ ایک مضبوط علمی بنیاد ہی معاشرتی ترقی کا ضامن ہو سکتی ہے۔
روحانیت اور تصوف کی اہمیت:
فتح اللہ گولن کی شخصیت میں روحانیت اور تصوف کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے تصوف کو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ سمجھا اور اس کی روحانی اہمیت پر زور دیا۔ گولن کے نزدیک تصوف کا مقصد نفس کی تطہیر اور اللہ کے قریب ہونا ہے۔ انہوں نے یہ تعلیم دی کہ تصوف کوئی الگ فلسفہ نہیں، بلکہ اسلامی زندگی کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے نفس کو پاک کر کے اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے۔
گولن نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں ہمیشہ یہ بات کہی کہ دنیا کی مادی ترقی کے ساتھ روحانیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مسلمان کو ہمیشہ اپنی اندرونی پاکیزگی اور اللہ کے ساتھ تعلق پر زور دینا چاہیے، تاکہ وہ دنیاوی فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔
بین المذاہب مکالمہ: امن اور ہم آہنگی کے فروغ کی کوششیں:
فتح اللہ گولن کا ایک اور اہم کارنامہ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا ہے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کا فروغ ضروری ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مکالمہ شروع کیا اور امن و استحکام کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے۔
گولن نے عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ مکالمے کے ذریعے عالمی سطح پر امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا۔ ان کی یہ کاوشیں بین الاقوامی سطح پر سراہی گئیں اور انہیں ایک عالمی امن کے سفیر کے طور پر جانا جانے لگا۔
ترکی کی سیاست میں کردار اور جلاوطنی:
فتح اللہ گولن کی زندگی کا ایک پیچیدہ پہلو ان کا ترکی کی سیاست میں کردار ہے۔ ترکی میں طویل عرصے تک سیکولر ازم کا غلبہ رہا، اور اسلامی تعلیمات کو دبانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ گولن نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو جدید دور کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے انہیں ترکی کی حکومت کے ساتھ اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔
2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی حکومت نے گولن پر اس بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا۔ حکومت نے گولن تحریک کے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا اور ان کے تعلیمی ادارے بند کر دیے۔ گولن نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ان کا اس بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے گولن کو ترکی چھوڑ کر 1999 میں امریکہ میں پناہ لینا پڑی، جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی خود ساختہ جلاوطنی میں گزار رہے تھے۔
وفات:
فتح اللہ گولن 20 اکتوبر 2024 کو امریکی ریاست پینسلوانیا میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی وفات سے دنیا ایک عظیم عالم دین، مصلح اور خدمت گزار شخصیت سے محروم ہو گئی۔ ان کی خدمات کا اثر نہ صرف ترکی بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں محسوس کیا جاتا ہے۔
گولن کی زندگی کا مقصد دین اسلام کی اصل روح کو دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ انہوں نے تعلیم، روحانیت، امن و استحکام، اور بین المذاہب مکالمے کے ذریعے ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی کوشش کی جہاں دین اور دنیا کا توازن ہو، اور انسانیت کو فلاح کی راہ دکھائی جائے۔ گولن کی تعلیمات اور ان کی خدمت تحریک آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
کتابی حوالہ جات:
-
1. Gülen, Fethullah. Islam and the Challenges of Modernity. Istanbul: Fountain Publications, 2006.
-
2. Yakup, Ahmet. The Educational Model of the Hizmet Movement: An Analysis. Ankara: Necm Publications, 2010.
-
3. Thomas, Peter. Gülen and Turkish Politics. New York: Oxford University Press, 2015.
-
4. Gülen, Fethullah. Spiritual Teachings and Worldly Issues. London: Sufi Publications, 2012.