متحد ہونے سے زیادہ باعمل مسلمان ہونے کی ضرورت ہے۔
متحد ہونے سے زیادہ باعمل مسلمان ہونے کی ضرورت ہے۔ کامیابی کا دارومدار کثرت تعداد پر نہیں حق اور سچائی پر قائم رہنے میں ہے!
✍️ عبدالغفارصدیقی
_____________________
مسلمان متحد ہوجائیں، مسلمانوں کے مسائل کاحل اتحاد میں ہے،اتحادمیں بڑی طاقت ہے۔وغیرہ جملے اکثر ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔مساجد میں ائمہ،اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں علماء،سیاسی پلیٹ فارموں سے رہنما،سمپوزیم اور سمیناروں میں دانشورحضرات ان جملوں کو اپنے اپنے انداز سے بولتے ہیں۔یہ جملے سننے میں بہت بھلے لگتے ہیں۔جو سنتا ہے وہ اثبات میں سر ہلاتا ہے۔ایسا محسوس کراتا ہے کہ وہ تو اتحاد کے لیے تیار ہے بس دوسرا اس کے اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ایسی ویڈیوز پوسٹ کی جارہی ہیں جن سے اتحاد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔بلاشبہ اتحاد میں بڑی طاقت ہے۔لیکن یہ اتحاد کس مقصد کے لیے ہو،کیسے ہو؟ کن بنیادوں پر ہو؟یہ باتیں بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی یہ بات کہ اتحاد میں بڑی طاقت ہے۔اسلام بھی اتحاد کا داعی ہے مگر وہ اس کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے اور وہ بنیاد اعتصام بحبل اللہ ہے۔(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔آل عمران۔103)
سوال یہ بھی ہے کہ کیا بھارت کے موجودہ مسلمان متحد ہوسکتے ہیں؟وہ جتنے خانوں میں تقسیم ہیں اور اپنی پسند کے اسلام پر وہ جس شدت سے قائم ہیں۔کیا کوئی موجودہ تحریک ان کو ایک لڑی میں پروکر بنیان مرصوص بنا سکتی ہے؟وہ جس طرح اپنے بزرگوں کی عقیدت میں غرق ہیں کیا یہ عقیدت مندی ان کی کشتی کو اتحاد کے ساحل پر لگاسکتی ہے؟کیا ہم میں سے کوئی طبقہ اور کوئی گروہ اپنے بزرگوں کی فروگزاشتوں کو تسلیم کرنے اور ان سے لا تعلقی کا اظہار کرسکتا ہے؟جب کہ ہم نے ان کو صحیح ثابت کرنے میں عمریں کھپادی ہیں۔ہمارے مدارس کا پورا نصاب تعلیم ان بزرگوں کی عقیدت و تقلید پر قائم ہے۔ہماری درسی کتابوں میں ان کے اقوال اسی طرح شامل ہیں جیسے کہ یہی ماخذ دین ہوں۔
اپنے اختلافات و انتشار کو ہمارے رہنما بڑے فخر کے ساتھ اسکول آف تھاٹس کا خوبصورت نام دیتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں جس طرح ہندوؤں میں کئی اسکول آف تھاٹس ہیں اسی طرح اسلام میں بھی کئی اسکول آف تھاٹس ہیں۔کیا واقعی اسلام میں بھی ایسا ہے؟ہمیں تو قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ بات نظر نہیں آئی۔وہاں تو سیدھے سیدھے ایک اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و اتباع کا حکم ہے۔وہاں تو ایک کتاب الٰہی ہے اور اس کی تشریح کے طور پر نبی اکرم ﷺ کے اقوال و اعمال ہیں؟پھر یہ کئی اسکول آف تھاٹس کہاں سے در آئے ہیں؟کیا کسی آیت کی تشریح و انطباق میں اختلاف رائے کی بنیاد پر الگ اسکول آف تھاٹس قائم ہوسکتا ہے؟پھر قرآن مجید کی وہ کتنی آیات ہیں جن کے معنی و مفہوم میں اختلاف پایا جاتا ہے؟معاف کیجیے ہم اپنی گمراہیوں اور اپنی خواہشات کی پیروی کو اسکول آف تھاٹس کا نام دے رہے ہیں۔جب آپ بنیادی طور پر یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اسلام میں کئی اسکول آف تھاٹس ہیں تو پھر اتحاد کی رٹ کیوں لگارہے ہیں؟
اسلام میں اللہ کی کتاب ہی الکتاب ہے اور اس کا رسول ہی معلم ہے۔یہی کتاب اور معلم اسکول آف ٹھاٹس ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا اسکول آف تھاٹس نہیں ہے۔یہاں صاف صاف اعلان ہے:۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے“(النساء۔59)قرآن مجید میں یہود ونصاریٰ کو اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلہ کرنے پرکافر،ظالم اور فاسق کہا گیا ہے اور اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا گیا:۔”پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو“۔(المائدہ 44تا48)۔نہ صرف یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کے مطابق فیصلہ کیا جائے بلکہ اس فیصلہ کو بے چون و چرا تسلیم بھی کیا جائے:۔”نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔“(النساء۔65)ان واضح ہدایات کے بعد بھی کیا کسی اور اسکول آف تھاٹس کی گنجائش باقی ہے۔
جو لوگ اپنے بزرگوں کی فروگزاشتوں کو تسلیم کرنے اور ان کی تردید کرنے کی ہمت نہیں کرتے وہ اپنی غلطیوں کو کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں؟یہ امر واقعہ تو اس صورت حال میں ہے جب کہ تمام مذہبی گروہوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نبی کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، صحابہ کرام ؓ کے متعلق بھی الصحابۃکلہم عدول (سارے صحابہ راست باز ہیں)کے عقیدے کو درست مان لیا جائے،مگر کیا صحابہ کرام کے بعد آنے والے فقہاء،محدثین،مجتہدین،مجددین،مفسرین، مترجمین،ناصحین و واعظین کے متعلق بھی یہ بات درست تسلیم کرلی جائے کہ وہ بھی انبیاء کی طرح معصوم اور صحابہ کی راست باز تھے؟کیا ان سے غلطیوں،کمزوریوں،بھول چوک اور فروگزاشتوں کا صدور ممکن نہیں تھا؟کیا ان کی تحریریں اور وضاحتیں قرآن و حدیث کی طرح حرف آخر ہیں؟اگر نہیں تو پھر ان کے دفاع میں شدت پسندی کا مظاہرہ کیوں ہے؟کیوں مدارس اور مساجد کو جنگ کا میدان بنا رکھا ہے؟کیوں ان کے نام پر مسالک کی دوکانیں سجا رکھی ہیں؟کیا ان سب کی موجودگی کسی اتحاد کا امکان پیدا کرسکتی ہے؟کیا ان فقہاء،محدثین،مجتہدین،مجددین،مفسرین، مترجمین،ناصحین و واعظین پر ایمان لانا ضروری ہے؟کیا ایک مسلمان کو ان کی وضاحتوں کو درست تسلیم کرنا دین کا حصہ ہے؟اگر نہیں ہے اور واقعی نہیں ہے تو پھر اپنے بزرگوں کے احترام کے ساتھ دوسروں کا بھی احترام کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟آخر یہ بات تسلیم کرلینے میں کیا حرج ہے کہ”ہمارے ان بزرگوں نے دین اسلام کے لیے بہت محنت کی ہے لیکن بشری تقاضہ کے تحت کچھ فروگزاشتیں بھی ہوئی ہیں،ہم ان فروگزاشتوں یا قابل اعتراض باتوں سے دست برداری کا اعلان کرتے ہیں۔“کیا اس اقرار سے ایمان و اسلام میں کوئی کمی واقع ہوجائے گی؟جب کہ یہ اقرار ملت کے انتشار کو دور کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں کیا وہ ان کے متحد ہوجانے سے حل ہوجائیں گے؟کیا موجودہ حکومت کا وجود اور عدم وجود مسلمانوں کا مرہون منت ہے؟کیا مسلم عوام کا اتحاد پارلیمنٹ میں قانون سازی کو روک سکتا ہے؟کیا ووٹ شماری میں مسلمان غیر مسلموں کو شکست دے سکتے ہیں؟ظاہر ہے ان سوالوں کا جواب نفی میں ہی ہے۔پھر اتحاد کا کیا مطلب رہ جاتاہے؟گزشتہ دس سال کے دور حکمرانی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومت نے مسلمانوں کے خلاف جس قانون کو چاہا منظور کرالیا ہے۔قانون ساز اداروں میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور مسلمانوں کاکوئی اتحاد ان کو ان اداروں میں اکثریت تک نہیں پہنچا سکتا۔اس کے بجائے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان خود کو سچا مسلمان بنا لیں اس سے کم سے کم ان کی آخرت سنور جائے گی۔یہ بھی امید ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرکے وہ خود کو فضل الٰہی کا مستحق بنالیں اور پھر آسمانی بادشاہت ان کے حق میں خیر و فلاح اور عزو شرف کا فیصلہ فرمادے۔میرے مطالعہ کی حد تک دنیا میں وہی گروہ فاتح ہوتا ہے جو حق اور سچائی کے لیے مخلص ہو کر منصوبہ بند طریقہ سے کسی لائحہ عمل پر عمل پیرا ہوتا ہے۔تاریخ اس پر شاہد ہے کہ حق نے باطل کو ہمیشہ شکست دی ہے۔خواہ اہل حق کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو اور اہل حق کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔مسلم امت کو قومی کشکمش میں پڑنے کے بجائے خود کو مفید اور ثمر دار بنانے کی ضرورت ہے۔اگر وہ خود غیر مفید ہوں گے تو ان کو کوئی چیز فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ جب تک وہ خود کو نہیں بدلیں گے ان کے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔خدا کی کتاب اور رسول کی تشریحات کے سوا ان کے لیے کوئی مرکز اتحاد نہیں ہوسکتا۔مدارس میں اختلافی امور کی تدریس کے ساتھ اتحاد پر وعظ و تقاریر بے سود ہیں۔شاید اسی صورت حال میں قرآن نے اہل ایمان کو بھی ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔:”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔“(النساء۔136)پس میں سمجھتا ہوں کہ ہم مسلمان از سر نو پورے شعور کے ساتھ اسلام قبول کریں،کلمہ شہادت ادا کریں اور اپنی عملی زندگی میں اسلامی اخلاق و معاملات کا مظاہرہ کریں۔ان کی زبان میں شائستگی ہو،ان کے معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو،وہ اپنے فرائض زندگی کو کماحقہ ادا کرنے والے ہوں،وہ ایک دوسرے کے حقوق دینے والے ہوں،ان کے محلہ طہارت و نظافت کے گواہ ہوں،ان سے مل کر لوگوں کو خوشی ہو،ان سے تجارت کرنے اور لین دین کرنے پر لوگ مطمئن ہوں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ہماری ذلت کو عزت سے اور ہماری محکومی کو غلبہ و اقتدار سے بد ل دے گا۔اس کے خزانہ میں سب کچھ ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔بس وہ دیتا اسی کو ہے جو خود کو اس کی نعمتوں کا مستحق بنالیتا ہے۔بے عمل اور بد عمل انسانوں کا اتحاد خواہ کتنا بھی پائدا ر ہو شاخ نازک بنے آشیانے کی طرح ہے جو حق و سچائی کے ایک جھونکے سے بکھر سکتا ہے۔