ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ؟
از: محمد رہبر رشیدی جامعی
دارالعلوم نظامیہ رضویہ
_____________
آج کے اس پر خطر و پر آشوب دور میں کسی بھی چشم حق بینا سے مخفی و پوشیدہ نہیں کہ کچھ نام نہاد و علماء نما دین و ملت کی حرمت و تقدس کو پامال کرنے پر تلے ہیں ، مولویان بے توفیق مذہبی روح کا قتل و خون کر رہے ہیں، وارثین انبیاء کی عزت، پرسنالٹی اور وقار کو مجروح کرنے بر سر پیکار ہیں، دل اور روحانیت کی نگاہ سے دیکھیں تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ عوام کالانعام اور دین کے اصول و عقائد سے بے بہرہ لوگ ارکان خمسہ کو پس پشت ڈال کر دین کی اصل صورت و شبیہ کو مسخ کرکے ان بے ہنگم جلسوں ، مشاعروں اور قوالیوں کو شریعت مطہرہ کی اساس و بنیاد ثابت کرنے کی طفلانہ کوشش کر رہے ہیں ۔ دین کا سودا کر رہے ہیں ،ان پیشہ ور گوییے اور خطبا کے کردار سے ملت پر ایسا بدنما داغ لگ رہا ہے کہ غیر اہلیان مذاہب کے سر بھی احساس شرمندگی سے جھکتے نظر آرہے ہیں ، دین کے نام پر روٹی بوٹی سینکنے والے شریعت مطہرہ کو تختہ مذاق بنا رہے اور شبانہ روز مسلک اعلی حضرت کا نعرہ زن اختلاف و انتشار کا ایک نیا طوفان برپا کر رہے ہیں ، بر سر اسٹیج ہی دست و گریباں ہیں اور قرآن و حدیث کی عظمت و تقدس کا ستیاناس کیا جا رہا ہے ، صحیح بات یہ کہ ان نیم خواندہ کے یکجا ہونے سے ایک نیا فرقہ معرض وجود میں آجاتا ہے۔
اس ہنگامہ خیز میدان میں ان لوگوں کی اکثریت ہے جنہوں نے درس نظامی کی جماعت اولیٰ ، جماعت ثانیہ کی کتابوں کو شاید صحیح سےپڑھا ہو، اور صحت الفاظ و درستی مخارج کے ساتھ ناظرہ قرآن پڑھا ہو، بلکہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں فقط دعوت خوری و اوقات گزاری کی ، شریعت مطہرہ کے احکام سے یکلخت بے بہرہ، دین متین کے اہم اور بنیادی اصول و عقائد کی آشنائی سے یکسر محروم ، روز مرہ کے در پیش مسائل سے نا واقف ایسے لوگ اسٹیجوں کی زینت بنے، رفتہ رفتہ دین و سنیت کے ٹھکیدار بنتے ہوۓ نظر آۓ اور ہنوز ایسی تباہی مچا رکھی ہے کہ اگلی دس صدی میں بھی اس کا تدارک نہیں کیا جاسکتا ہے ، سنیت کی کشتی کو اس طرح ڈبا رکھا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی ساحلی سطح پر نہیں لا سکتیں، حقیقت یہ ہے کہ ان آوارہ و آزاد خیالوں کو نعت خوانی کا سلیقہ بھی نہیں آتا، منبر رسول کا پاس و لحاظ تک نہیں، زبان و کلام میں سنجیدگی و شائستگی نہیں ان گویوں کی طرح پیشہ ور مقررین کا بھی یہی حال ہے کہ خطابت میں ایمان و ایقان کی چاشنی و حلاوت محسوس نہیں کی جاتی ہے ، ان کے خطابات مطالعہ سے بیزاری و دوری کی طرف غماز ہیں، یہی وجہ کہ آۓ دن اپنی جوشیلے تقریر میں من گھڑت قصے، داستان و افسانہ اور بے سروپا موضوع روایات سامعین و حاضرین کے گوش گزار کرتے ہیں، اہل سنت کے مسلمات سے انحراف ورزی کرتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اہل علم کا قلم چلتا ہے اور مفتیان عظام کی طرف سے ان پر درجنوں فتوے داغے جاتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں سبقت لسانی سے ایسے کلمات نکلے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس طبقے کے افراد اصلاح بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ، اسٹیجوں پر مار پیٹ ، دھکا مکی ان کا شعار بن چکا ہے۔ حالیہ کئی مہینوں سے کلپس اور ویڈیوز میں دیکھنے کو مل رہا جس میں یہ پیشہ ور گوییے اور خطبا دھڑلے سے منبر رسول کی توہین و تنقیص کر رہے ہیں ، دین و سنیت کا مذاق اڑا رہے ہیں اور قرآن و احادیث کے ساتھ طوفان بد تمیزی کر رہےغرضیکہ ان نام نہاد مولویان بے توفیق نے دین و شریعت کے پاکیزہ محافل و مجالس کو معجون مرکب و بازیچہ اطفال بنا ڈالا۔
جبے قبے ، چشمے ، مخصوص رومال ہونٹوں پر پان کی سرخیاں، منہ بولے نذرانے دو شیزاؤں سا بال یہ ساری چیزیں اس طبقہ کی اصل شناخت بن گئی ہیں ، یہ بات بھی بہت حد تک صحیح ہے کہ پروگرام کے لیے گروپ بنا لیا ہے جو دین فروش نقیب و خطیب اور ضمیر فروش نعت گو پر مشتمل ہے ، اب ہر کسی کو انفرادی طور پر کال کرنے کی چنداں حاجت نہ رہی۔ ان ٹولیوں نے عوام کالانعام کو بے دریغ ہو کر لوٹا۔
حیرت ہے اس کم ظرف طبقے پر کہ اردو ادب کے فروغ اور نشر و اشاعت کے نام پر علوم ضروریہ سے بے بہرہ قوم کے مابین شب و روز مشاعرہ کرتے کراتے ہیں، لاکھوں روپے صرف کرتے ہیں، شرم آنی چاہیے کہ بھینس کے سامنے بیم بجانے سے کیا فائدہ ، ہماری قوم بھی اپنی بے شرمی و بےحسی اور بیوقوفی کی سرحدیں پار کر چکی ہیں جو ان گویوں، علماء نما اور دین کے ساتھ بے باک و جری تمسخر کرنے والوں پر پیسوں کی بارش کر رہے ہیں اور آفت جاں کو دعوت دے رہے ہیں ، گاؤں کے یتیموں پر دست شفقت کیوں نہیں پھیرتے؟ بیواؤں کا سہارا کیوں نہیں بنتے ؟ غریبوں کی غمخواری و ہمدردی کیوں نہیں کرتے ؟ لاچاروں اور بےبسوں کی مشکل کشائی کیوں نہیں کرتے؟ مدارس و مکاتب کے سفید پوش پر کیوں نہیں خرچ کرتے؟ مذکورہ معروضات کے جواب میں حقیقت کی کسوٹی پر پرکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دین کے سودا گروں نے ہمیشہ اپنی منفعت و مفاد کے تناظر میں بیان دیا ہے ، اجتماعی و عائلی مسائل پر کبھی بات کرنے کی زحمت نہ کی اور مفت میں جنت کا ٹکٹ تقسیم کیا ہے ۔
ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دین و شریعت کے سچے اور مخلص ترجمان ہمارے دینی ادارے کے مدرسین ہیں ، انبیاء کرام کے سچے وارثین وہی لوگ ہیں جو نان شبینہ پر قناعت کرکے گنجلک مسائل کی پیچیدگیوں کو سلجھاتے ہیں ، دین کے گیسوئے برہم کو سنوارتے ہیں ، لائبریری سے کتابوں کی خاک چھان کر میدان تحقیق و تدقیق اور تصنیف و تالیف میں جان و لہو کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ جی ہاں مدارس کے مدرسین یہ وہ باکمال شخصیات ہیں جو شریعت کے خلاف ہر اٹھنے والی انگلی کا دلائل و براہین کی روشنی میں دندان شکن جواب دینے کا ہنر جانتے ہیں اور ہر محاذ پر دشمنان اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجانا جانتے ہیں ۔ علماء نما کی نہیں علماء کی قدر کریں ! حدیث شریف میں آیا ہے: کن عالما او متعلما او مستمعا او محبا فلا تکن الخامس فتھلک