ندیمے از دیوبند
ندیمے از دیوبند
✍️ مفتی ناصرالدین مظاہر
_________________
قدرت کی فیاضیاں کبھی کبھی کہیں کہیں اس قدر نظرآتی ہیں کہ بے اختیار اُس سرزمین اور اُس علاقہ کی تقدیر پر رشک ہونے لگتا ہے ، کیاآپ حجاز مقدس کے تقدس سے نظریں چراسکتے ہیں ؟کیا مصر و شام کے تقدس کی قسمیں کھانے والا حانث ہوسکتاہے؟ کیاکوفہ اور بصرہ والوں کی تقدیر اس لائق نہیں ہے کہ انھیں جھولیاں اور ڈالیاں بھربھر کر مبارک بادپیش کی جائے؟کیاماوراء النہرکے علاقے،اصفہان اور بخاریٰ کے خطے،بغداداور رے کے سبزہ زار اس لائق نہیں ہیں کہ آپ وہیں کے ہورہیں؟ دور کیوں جائیں اسی بھارت میں دیکھ لیجئے شیرازہند کی زرخیزی، اعظم گڑھ کی شادابی، دوآبہ کے سبزہ زار، دہلی ودیوبندکی علمی کھیتیاں کیا اس لائق نہیں ہیں کہ آپ یہاں پر لنگراندازہوجائیں؟ یہاں کی نورونکہت اوریہاں کی علمی کہکشاؤں میں رہ کراپنے دل کی دنیاروشن اورفکرکی کھیتی سیراب کریں؟۔
جی ہاں؟ دیوبند شہراب بھی کوئی خاص ترقی پر نہیں ہے ،نہ ہی اس کانام اچھا ہے نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکرصنعت ہے ،نہ ہی یہاں حرفت ہے، یہاں کاکوئی مخصوص کاروبار بھی نہیں ہے ،یہاں کاپورا نظام بس ام المدارس دارالعلوم کے گردگھومتا ہے ،طلبہ کی چہل پہل سے یہاں ہلچل ہے، علماء کی آمد و رفت سے یہاں کے کاروبار میں رونق ہے ،جوں جوں طلبہ بڑھتے جاتے ہیں دیوبندکی آب وتاب میں اضافہ ہوتاچلاجاتاہے ،بازاران کی وجہ سے زندہ ہیں،مارکیٹیں انھوں نے ہی بسائی اورجمائی ہوئی ہیں،دیوبند کا تمام تر روزگار ان ہی خانہ بدوش مہمانان رسول کا مرہون منت ہے چنانچہ یہ آب وتاب اوریہ رونق شعبان کے جاتے جاتے ختم سی ہوجاتی ہے ،بہتوں کاکاروبار منجمد ہوجاتاہے،کتب خانے اپنا نظام الاوقات تبدیل کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں،ہوٹل والے ہوٹلوں کومقفل کرناشروع کردیتے ہیں،رکشہ والے بوریہ بسترسمیٹ لیتے ہیں،جو دکاندارکل تک کسی کے سلام کاجواب دینے کی فرصت اورپوزیشن میں نہیں تھے آج وہ ہرجگہ فرشی سلام کرتے نظرآتے ہیں ۔سچ کہوں تودیوبند کو دارالعلوم سے شناخت اورپہچان ہے اوردارالعلوم کودیوبند سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔
اب آتے ہیں مقصد اصلی کی طرف، یہ دیوبنداتناخوش بخت وخوش نصیب ہے کہ یہاں ہردور میں جبال علم اورماہرین علوم پیداہوتے رہے ہیں،یہاں دین کی وہ کھیتی ہوتی ہے جس کی رونق سے عالم منورہے،یہاں دین کاہرشعبہ زندہ وتابندہ ہے،یہاں اسلام کی کہکشائیں روشن ومنورہیں،یہاں شریعت کی آبشاریں بہتی ہیں ،یہاں طریقت کے دجلہ وفرات کبھی خشک نہیں ہوئے،یہاں کتابوں کی بڑی منڈی ہے ،یہاں طباعت اوراشاعت کاکام نصف النہارپرہے،یہاں دنیابھرکاعالی دماغ مل جائے گا،اس نے یورپ کوپورب سے ملانے میں کلیدی کرداراداکیاہے ،یہاں آپ کوہرمیدان میں سیری اورآسودگی مل سکتی ہے،یہاں پہنچ کرہرواردو صادرواپسی کانظام بھول جاتاہے ،یہاں کی مٹی میں بڑی کشش ہے اسی کشش کانتیجہ ہے کہ آج دیوبند میں ’’دیوبندی‘‘ چراغ لے کرتلاش کرنے پڑتے ہیں ،یہاں گل ہائے رنگارنگ سے چمن کوزینت ہے،اسی چمنستان کاایک پھول اوراسی سیارے اورکہکشاں کاایک ستارہ محترم مولاناندیم الواجدی بھی تھے جوخالص دیوبندی ہیں،دیوبندی ان کامسلک بھی تھا،دیوبند ان کاوطن بھی تھا،دیوبندی ان کی شناخت اورپہچان بھی تھی، دیوبندنے انھیں بہت کچھ دیااورنتیجہ کے طورپرانھوں نے بھی دیوبندکوبہت کچھ دیا،انھوں نے شانداردرسی وغیردرسی تصنیفات دیں،انھوں نے عربی علوم وادب کاایک نصاب ونظام دیا،انھوں نے نادرونایاب کتابوں کے سلیس اورمعیاری ترجمے دئے،انھوں نے دنیاکومعیاری کتابیں دیں، معیاری رسالہ دیا،بچیوں کامعیاری ادارہ دیا، کتابوں کاتجارتی مرکز دیا،دارالعلوم دیوبندکی شاندار ترجمانی کی، دیوبندیت کی ترویج واشاعت میں اپناخون جگربہایا، فقہی سیمیناروں میں انھوں نے درکفے جام شریعت کامظاہرہ کیاتوطریقت میں سندان عشق اٹھائے نظرآئے،وہ بڑوں کے شاگردرشیدتھے توبڑوں کے خلف الرشیدبھی،وہ بڑوں کے منظورنظربھی تھے توبڑوں کے خلیفہ ومجازبھی،وہ ہرمیدان اور ہر معرکے کوسرکئے ہوئے وہ ہونہارعالم دین تھے جن پر ان کے معاصرین ہی کونہیں ان کے بڑوں کوبھی نہ صرف کامل یقین واعتمادتھابلکہ کبھی کبھی اپنے بڑوں کی نمائندگی کرتے اوران کی دعاؤں سے مالامال ہوتے دنیانے دیکھا۔وہ حضرت مولاناوحیدالزماں کیرانویؒ کے جرعہ نوش تھے ،وہ مولاناکیرانویؒ کی درسگاہ علم وادب کے خوشہ چین تھے وہ ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جنھوں نے مولاناوحیدالزماں سے شرف تلمذحاصل نہیں کیابلکہ استاذمحترم کوگویاچوس لیا،یہ خوبی اوریہ صفت بڑی مشکل سے حاصل ہوپاتی ہے ،یہ درک اوریہ کمال تب حاصل ہوپاتاہے جب انسان مٹی میں ملنے اورمل کرپنپنے اورپرورش پانے والے تخم اوربیج کے مانندہوجاتاہے تبھی تونئے بال وپرنکلتے ہیں تبھی تونئے گل وگلاب کھلتے ہیں سچ کہوں تواساتذہ توہرکسی کے بے شمارہوتے ہیں لیکن فائدہ سب سے یکساں حاصل نہیں ہوتا،اساتذہ کی مثال شجرسایہ دارکی سی ہوتی ہے بعض درختوں کاسایہ بہت گھناہوتاہے توبہت سے درختوں کاسایہ دوردورہونے کی وجہ سے دھوپ چھن چھن کرپہنچ جاتی ہے ۔
حضرت مولاناندیم الواجدی کاکمال یہ ہے کہ وہ دارالکتاب جیسے تجارتی اوراشاعتی ادارہ میں اکثروبیشتررہنے کے باوجود اپنے وجودباجودسے علمی دنیاکوقائل رکھا،ان کی بہت سی کتابیں درس نظامی میں شامل ہوکرزندہ وجاوید بن گئیں ،ان کی تقریریں بڑی پرمغزہواکرتی تھیں،ان کی تحریریں اس لائق ہوتی تھیں کہ صدق اورصداقت کی مہرلگادی جائے۔ان کے اخباری بیانات اوران کے ادارئیے بھی بڑے خاصے کی چیزہواکرتے تھے ،وہ تیزقلم ،تیزفہم اورتیزسخن تھے ،ان کی نرم وشیریں زبان،ان کافیاضی اورضیافی کامزاج،ان کااخلاقی پہلواوران کی شرافت نسبی وحسبی یہ ساری دولتیں انھیں اللہ تعالیٰ نے اس قدرنوازی تھیں کہ آج جب سوچتاہوں کہ مولاناکیاتھے؟ توجواب ملتاہے مولاناکیانہیں تھے۔
آہ! آپ نے پوری زندگی قاسم وانور کے چکر لگائے، ہمیشہ فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی،دیارقاسم میں دفن ہونے کی تمنائیں کیں،لیکن قدرت نے دیوبند سے بارہ ہزار کلومیٹر دور شکاگو (امریکہ) میں آپ کے لئے دوگز زمین طے فرمادی تھی چنانچہ اسباب کے درجہ میں آپ علاج کے عنوان اور نیت سے امریکہ پہنچے،طبی امدادبھی بہم پہنچی ، ماہرڈاکٹروں کی نگرانی میں قلب کا آپریشن بھی ہوا، لیکن یہ علاج ومعالجے الٰہی فیصلوں کے آگے کوئی وقعت اوراہمیت نہیں رکھتے ،ہوتاوہی ہے جواس کومنظورہے ۔اللہ تعالیٰ کابلاوا آگیااوراس طرح آپ کی جان نے قفس عنصری کوخیربادکہہ دیا۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔