اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More
محمد حسن قاسمی

حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب کی ذات گرامی تاریخ امارت کا ایک زریں عہد

حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب کی ذات گرامی تاریخ امارت کا ایک زریں عہد

از قلم: احمد حسین قاسمی مدنی

معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

_______________________

عمر باید مرد پختہ کار آید چنیں
در دیار ہندفخرروزگار آید چنیں

تاریخ امارت کا رجل عظیم:

امارت شرعیہ کی تاریخ میں اس کےبانی حضرت مولانا ابو المحاسن محمدسجاد رحمۃ اللہ علیہ سے اب تک بے شمار شخصیتیں آئیں اور سبھوں نے اپنے حصے کے کام انجام دے کر وقت مقررہ پر اس دار فانی سے کوچ کر گئیں، انہی مبارک اور باسعادت ہستیوں میں ایک اہم اورنمایاں نام حضرت امیر شریعت سادس مولاناسیدنظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، ان کا نام امارت شرعیہ کے چند عظیم معماروں میں شمار ہوتا ہے، یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ کی عظمت و شوکت کا ستارہ اگرگزشتہ ایک صدی سے ہندوستان کے افق پر جگمگا رہا ہے ؛ تو اس کی پشت پر کار فرما رجال کارمیں ایک معتبر شخصیت اورعظیم مرد درویش حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہ اللہ کی ذات گرامی بھی ہے۔

ادارے، تحریکات اور تنظیمیں دراصل سعئ پیہم اور جہد مسلسل کا تقاضا کرتی ہیں، حضرت والا کی ذات میں دیگراوصاف کےساتھ سب سے نمایاں وصف جس نے امارت شرعیہ جیسی سو سالہ قدیم تنظیم کو زمینی سطح پر سب سے زیادہ استحکام بخشا، وہ ان کی لگاتار محنت اور مسلسل جاری رہنے والی کوشش تھی اور یہ بھی دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہےکہ کوئی ادارہ، کوئی تنظیم مخلص ذمہ داران وکارکنان کے بغیر دیر تک قائم نہیں رہ سکتی، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب انہی مخلصین میں سے ایک تھے،جن کے دم سے ادارےکی لو تیزتھی، کہنا چاہیے کہ امارت شرعیہ کا سنہرا اورعروج وترقی کادورآپ جیسے مخلصوں سے قائم رہا ۔

امارت شرعیہ کاسنہرادور :

یہ بات اہل علم اور ارباب بصیرت پر ظاہر ہے کہ حضرت مولانا سیدمنت اللہ رحمانی ،حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہم اللہ یہ وہ عناصر ثلاثہ تھے؛ جن کی شبانہ روز جدوجہد نے امارت شرعیہ کو ملک و بیرون ملک میں ایک قابل تقلید تنظیم کے طور پر متعارف کرایا، اس عہد میں حضرت مولانا الشاہ منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ، ادارہ کے روح رواں اور حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین صاحب صاحبین کی حیثیت سے ان کے دو مضبوط اورطاقت وربازو تھے، حضرت قاضی صاحب نظام دارالقضاء کے استحکام کے ساتھ امارت شرعیہ کو وسائل سے مالا مال کرتے اور ملک اوراس کی سرحدوں سے باہر اس کی خدمات کاکماحقہ تعارف کراتے ؛ تو دوسری جانب حضرت سید نظام الدین صاحب داخلی طور پر ادارہ کی جڑوں کو مضبوط فرماتے، اور اس کے شعبوں کو مستحکم کرتے ۔امارت شرعیہ کو پھلواری شریف کی ایک تنگ گلی سے شاہ راہ پر لانے، خواص کے حلقے سے نکال کر عوام میں یکساں معروف و مقبول بنانے اور چہاردانگ عالم میں اس کا نام روشن کرنے کے مشکل مراحل میں حضرت رحمہ اللہ کا نمایاں کردار ہے، آپ کی ذات وصفات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ اللہ نے آپ کو امارت شرعیہ کے لیے ہی تخلیق فرمایا تھا، امارت شرعیہ جیسی ہمہ جہت و ہمہ گیر دینی و ملی تنظیم کو جیسے محنتی، باصلاحیت اور حد درجہ مخلص منتظم و ناظم کی ضرورت تھی؛ رب کریم نے حضرت امیر شریعت سادس کی صورت میں ادارہ کو عطا فرما دیا۔

1965 عیسوی سے مسلسل 2015 عیسوی تک حضرت مرحوم نے امارت شرعیہ کو اپنے خون جگر سے سینچا، وہ امارت کی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی جیسے نابغہ روزگار اور عظیم قائد کی سرپرستی و رہنمائی اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جیسی بالغ نظر، بابصیرت اور جامع کمالات شخصیت کی رفاقت نے آپ کے سامنے ملت کی فلاح و بہبود کے لیے نوع بنوع کاموں کے میدان دیے اور آپ نے امارت شرعیہ کے کاز کو تصور سے بڑھ کر بلندی عطا کی، آپ کے کام کرنے کا طریقہ بہت سادہ اور اصول و ضوابط کے مطابق ہوتا، آپ محنت و سعئ مسلسل اور اخلاص پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھتے، دفتر میں آپ کی حاضر باشی اور کاموں میں حد درجہ انہماک نے امارت شرعیہ کو دیرینہ وقار اور مسلمانوں میں غیرمعمولی اعتماد بخشا تھا۔

حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی آپ کےدورنظامت میں:

آپ کے زمانہ نظامت میں کام کرنے والے کارکنان کی شہادت و گواہی آپ کو امارت شرعیہ کے جملہ نظماء و منتظمین میں نمایاں مقام و منزلت عطا کرتی ہے، چنانچہ بطور استشہاد کے آپ کی نظامت میں کام کرنے والے ملک کے ایک معروف، مستندعالم ربانی اورآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے موجودہ صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ کی تحریر کا ایک مختصر اقتباس قارئین کے سامنے پیش ہے :

،،جامعہ رحمانی اور اس کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا منت اللہ رحمانی نے مجھے تحقیق و مطالعہ کے لیے خصوصی وظیفہ پر پہلے ایک سال کے لیے امارت شرعیہ پھلواری شریک پٹنہ بھیجا اور پھر مزید ایک سال کی تجدید فرمائی نیز پڑھنے لکھنے کے کچھ کام بھی سپرد کیے، اس درمیان یوں تو کام کرتا تھا اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دفتر نظامت میں تشریف رکھا کرتے تھے؛ لیکن ان کے اور قاضی صاحب کے درمیان اتنی قربت اور فکری ہم آہنگی تھی کہ دونوں شعبوں کے لیے دونوں بزرگوں کو یکساں طور پر ذمہ دار خیال کیا جاتا تھا، قاضی صاحب کہ اسفار کثرت سے ہوتے تھے اور حضرت مولانا سیدنا نظام الدین صاحب زیادہ تر دفتر میں موجود رہتے تھے، ان کی حاضر باشی اور قاضی صاحب کے اسفار دونوں امارت کے کاز کے لیے بے حد مفید ہوتے تھے، اس دو سالہ مدت میں آپ کو قریب سے دیکھنے کا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، فجر کے وقت دفتر میں آنا، کارکنوں کو نماز کے لیے بیدار کرنا اور مسجد کے قریب نہ ہونے کی وجہ سے دفتر ہی میں نماز فجر ادا کرنا، روز کا معمول تھا، ادارہ کے اکابر و اصاغر میں سب سے زیادہ جماعت کے پابند آپ ہی تھے، نماز سے فارغ ہوتے ہی وہیں اپنی تپائی کے سامنے بیٹھ جاتے؛ جو قدیم دفتر یعنی موجودہ قاضی نور الحسن میموریل اسکول کے وسیع وعریض ہال میں دیوار کی طرف وسط میں تھا اور دائیں بائیں دونوں طرف معاون ناظم، انچارج بیت المال، ایڈیٹر نقیب اور مختلف محررین کی تپائیاں تھیں، اکثر دنوں فجر سے لے کر نماز عشاء تک اسی جگہ آپ کا قیام رہتا، صرف دوپہر میں کھانے کا اور نماز کا وقفہ ہوتا اور عصر بعد چائے نوشی کا، جب ہجوم کار ہوتا تو عصر بعد بھی یہیں بیٹھے رہتے اور متنوع کام کرتے، انتظامی ہدایات دیتے، اچھی خاصی تعداد میں خطوط آتے، انہیں پڑھتے، ان کا جواب لکھتے، مبلغین اور سفراء سے مختلف علاقوں کے حالات سنتے، کارکنوں کی درخواست پر بروقت کاروائی کرتے، آنے والوں سے اور بیرونی مہمانوں سے حسب مراتب اور حسب ضرورت گفتگو فرماتے، ان واردین میں سرکاری نمائندوں اور معروف علماء سے لے کر پڑوس کے غریب اور ضرورت مند فقراء تک سب ہوتے، بنفس نفیس ٹیلی فون اٹھاتے، اور ہر فون کرنے والے کو مطمئن کرتے، اخبارات کے لیے بیان لکھواتے ، قاضی صاحب کی عدم موجودگی میں دارالقضا کے کام کی بھی نگرانی کرتے، غرض کہ نوع بنوع کام اور ہر کام کی بروقت تکمیل، اس عرصے میں آپ کو جاننے اور سمجھنے کا بہتر موقع حاصل ہوا اور آپ کی صلاحیت کے مختلف پہلو اور خدمت کے مختلف میدان سامنے آئے،،۔

آپ کی متنوع صفات:

محترم قارئین! شخصیتیں اوصاف سے تشکیل پاتی ہیں ،اور جس شخصیت میں جس قدر خوبیاں، صفات اور اسکیلز زیادہ ہوں گی؛ ان کے کاموں میں معیار اور تنوع بھی اسی قدر موجود ہوں گے ،حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درج ذیل اوصاف انہیں امارت شرعیہ کے دیگر امراءو اکابرین میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتے ہیں :

وسیع القلبی:

اللہ تعالی نے حضرت کو وسعت قلبی کی جو عظیم دولت بخشی تھی، وہ بہت مشکل سے اوروں کی زندگی میں نظر آتی ہے، آپ اپنی فطرت میں بہت فراخ دل اور وسیع ذہن کے مالک تھے، ٹکراؤ اور تنازعات کی مشکل سے مشکل گھڑی میں اپنی کشادہ دلی کی وجہ سے اتحاد کی راہ نکال لیتے، یہی وجہ ہے کہ امارت جیسی وسیع تنظیم کو آپ نے ہمیشہ داخلی و خارجی طور پرمضبوط ومنضبط اور حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ تمام قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھا، ایک بڑے ادارہ و تنظیم کے ذمہ داران وکارکنان کا باہم مختلف الذہن ہونا، بشری تقاضےکی رو سے ایک فطری و بدیہی امر ہے؛ جہاں چوٹی کے علماء ،قضاۃ، مفتیان اور ذمہ داران و کارکنان ہوں اور ادارے کے کاموں میں بےشمارتنوع و اقسام ہوں؛ تو وہاں اختلافات کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں؛ مگر حضرت کو رب کریم نے جس کشادہ قلب و ذہن سے نوازا تھا، اس میں سمندر کی طرح گہرائی اور صحرا جیسی وسعت تھی، اختلافات کو سمیٹ کر اتحاد میں جذب کردینے کا مثالی ملکہ خداداد تھا ،آپ نے امت کے جملہ مکاتب فکر کو اپنے اسی بنیادی نقطہ نظر سے ہمیشہ امارت شرعیہ سے جوڑے رکھا۔ دل میں وسعت ہو تو بڑے سے بڑے اختلافات اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے، اسی وسعت ذہنی کی دین تھی کہ طبیعت میں گھلاوٹ، مزاج میں نرمی، اور لب و لہجے میں بلا کی مٹھاس تھی ، اپنے اور پرائے کو موہ لینے کی بے مثال تاثیر حضرت کےسلوک و رویے میں موجود تھی، آپ کے سامنے ذمہ دارہوں یا ادنی درجے کے ملازم، باتوں میں اپنا پن، خلوص ووفا، اورغیرمعمولی شفقت و محبت ہوتی اورآپ کا اتنا مخلصانہ انداز ہوتا کہ کسی کو بات مانے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا۔

تحمل و برداشت:

حضرت میں تحمل و برداشت کا وصف بھی بہت نمایاں تھا، آپ کی نصف صدی کے طویل زمانے میں ہزارہا ایسے موڑ آئے،جہاں مزاج کے خلاف ناخوشگوار واقعات پیش آئے ؛مگر آپ نے تحمل وبردباری کا اعلی نمونہ پیش کیا اور ہر موقع پر تلخ باتوں کو پوری خندہ پیشانی کے ساتھ گوارا کیا اور نامناصب رویوں کو برداشت کر لیا، امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی مشاورتی اجلاسوں میں بعض شرکاء کی جانب سے سخت سے سخت تنقید اور اعتراضات کاسامنا ہوتا؛ مگر آپ بڑی حلم و بردباری کے ساتھ ان تمام باتوں کو بغور سنتے اور ہر ایک کا پوری سنجیدگی کے ساتھ تشفی بخش جواب دیتے ، آپ کے تحمل و برداشت کا یہ عالم تھا کہ امارت شرعیہ کا عام کارکن بھی آپ کے سامنے اپنی بات بلا کسی خوف تردید کے رکھ سکتا اور اپنا احتجاج درج کرا سکتا تھا۔

سعئ پیہم وجہدمسلسل:

جس صفت نے سب سے زیادہ آپ کی ذات کو جلا اورانفرادیت بخشی اور امارت کی تحریک کو آگے بڑھانے کا کام کیا، وہ آپ کی لگاتار محنت اور مسلسل جاری رہنے والی کدو کاوش تھی، آپ کام اور محنت پر یقین رکھنے والے ملت کے سچے خادم تھے، آپ کی زندگی میں تاحدنظر کام، کام اور کام ہی تھا، آپ تھکے بغیر میانہ روی اور اعتدال و توازن کے ساتھ اپنے کاموں کو ہمیشہ جاری رکھتے، آپ اپنی مدت نظامت اور زمانۂ امارت میں جملہ کارکنان سے زیادہ وقت دینے اور کام کرنے والےذمہ دار ثابت ہوئے، آخری ایام میں اپنے ضعف و نقاہت اور پیرانہ سالی کے باوجود بھی کوشش کرتے کہ آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت امارت کے کاموں میں صرف ہو، امارت کے مرکزی دفتر میں رہ کرتحریکی و تنظیمی امور کوپایۂ تکمیل تک پہنچانا آپ کی خواہش رہتی، امارت شرعیہ کا دائرہ کار آپ کے دوران نظامت پھیلا اور خوب پھیلا، متحدہ بہار کئی ریاستوں میں تقسیم ہو کر کاموں میں مزید تنوع پیدا کرنے کا سبب بنا ،ملت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر نئے شعبوں اور مختلف قسم کے دینی و عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا مرحلہ آیا ،آپ نے اپنی انتھک محنتوں سے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، بڑی تعداد میں مسلم علاقوں میں نئے دارالقضا کا قیام، مختلف ریاستوں میں ذیلی دفاتر کی تعمیر اور کئی اضلاع میں ٹکنیکل آئی ٹی آئی کالج کا وجود عمل میں آیا ، ان تمام کی پشت پر آپ کی جہد مسلسل کی قوت کار فرما رہی، اپنے مقصد سے عشق اور اپنے مشن سے بے پناہ محبت آپ کی زندگی کا عنوان جلی قرار پایااور سچی بات یہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی حرکت و عمل سے عبارت ٹھہری ۔

تواضع و انکساری:

اللہ نے آپ کو جتنا اونچا مقام و مرتبہ عطا کیا تھا اور آپ کے حصے میں ملک و ریاست کے جتنے اعلی عہدے اوربلندمناصب آئے، آپ کی زندگی میں اس کی وجہ سے کوئی تفوق اور برتری کا مزاج پیدا نہیں ہوا، آپ نہایت سادہ زندگی گزارنے کو اہمیت دیتے، طبیعت میں بڑی تواضع و انکساری تھی، آپ کے یہاں ہٹو بچو اور دربان داری کا ہرگز تصور نہیں تھا، بڑے سے بڑا آدمی یا چھوٹے سے چھوٹا انسان آپ کے یہاں سکون سے آجا سکتا تھا،حضرت کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا، اس سادگی نے امارت کے کاموں کو ملک بھر میں بڑا وقار اور تصور سے زیادہ اعتبار بخشا، آپ کے رہن سہن، نشست و برخواست، خوردو نوش سب میں سادگی جھلکتی ؛ہاں مگر یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان تمام حالات میں آپ نےاپنے عالمانہ وقار، قائدانہ کردار اور ذاتی خودداری کو باقی رکھا، آپ سے ملاقات کر کے ایک عام اور اجنبی آدمی کے لیے آپ کے عہدہ جلیلہ اور عالی منصب کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ آپ امارت شرعیہ کے کارکنان کے ساتھ مشفقانہ ورفیقانہ برتاؤ سے پیش آئے، آپ کے اندر ذرہ برابر انتقامی جذبہ نہ تھا، حلم و بردباری کوٹ کوٹ کر آپ کی رگ و پے میں بھری تھی، اتنے طویل عرصے میں کسی نے کبھی بھی آپ کی ذات میں مناصب و منزلت کاادنی زعم نہیں دیکھا، اسی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو علماء و صلحا اور عوام و خواص میں بے حد محبوبیت ومقبولیت عطا فرمائی تھی اور ملت کے بڑے قائدین نےبھی آپ پر مکمل اعتماد کیااور امیر شریعت بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ اور جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی حیثیت سے منتخب فرمایااور سفینہ ملت کی ناخدائی آپ کے سپرد فرمائی ۔

فکر کی پختگی اور دور اندیشی:

امارت شرعیہ کا میدان عمل ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی حساس مجلسیں یا ملکی سطح کے سلگتے ملی مسائل ہوں، ان تمام مواقع پر آپ بہت دوربینی اور گہری بصیرت کے ساتھ کسی مسئلے پر لب کشائی فرماتےاور اس کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئےپھراپنی رائے دیتے، معاملہ جیسا بھی ہنگامہ خیز کیوں نہ ہو آپ نہایت سنجیدگی سے اس کےاحوال وعواقب پر گہری نظر ڈال کرکوئی بات کہتے، معاملات کے تمام مثبت و منفی زاویوں کا اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں جائزہ لیتے ؛پھر کوئی فیصلہ صادرکرتے، لمبی خدمات کی وجہ سے آپ کی آراء اور مشورے تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن کی حیثیت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مشاورتی اجلاس میں بڑوں کوہمیشہ آپ کےاظہار رائے کا انتظار ہوتا، بسااوقات آپ اس کا اظہار بھی فرماتے کہ مولوی صاحب علم آپ کا زیادہ ہو سکتا ہے مگر تجربات تو ہمارے زیادہ ہیں، آپ کبھی بھی جذبات کی رو میں نہیں بہتے اور نہ کبھی حالات سےمشتعل ہو کر کوئی فیصلہ لیا ،آپ کو فکر و بصیرت کی عظیم دولت کے ساتھ اصابت رائے کی نعمت عظمی بھی حاصل تھی، اسی بنا پر بزرگان قوم و ملت نے امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی اعلی قیادت کے ساتھ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء جیسے مرکزی اداروں کی مجلس شوری کا معززرکن نامزد فرمایا ۔

آپ کےعمل پیہم پرجریدۂ نقیب کی شہادت:

امارت شرعیہ کے اکابرین کی خدمات و تاریخ کا اگرکوئی حقیقی مطالعہ کرنا چاہے؛ تو اس کا ایک آسان نسخہ امارت شرعیہ میں ہردم موجود ہے، وہ اس طرح کہ امارت شرعیہ کی سوسال خدمات اور اس کے جملہ رجال کار کی تمام قربانیاں جریدۂ نقیب کے پرانے اوراق میں زندہ و تابندہ ہیں، اس کے ورق ورق پر بزرگوں کے نقوش وفا ثبت ہیں اوران کے لازوال کارنامے، دستاویزات کی شکل میں آج بھی من وعن موجود، ہم جیسے کوتاہ دستوں کو دعوت عمل دے رہے ہیں، راقم السطور نے نقیب کی پرانی چند جلدوں کا جب مطالعہ کیا؛ تو پتہ چلا کہ ان اکابرین نے ہر نئی صبح ملت کے کسی نہ کسی مشکل ترین مسئلے کو حل کیااور ہر شام گرداب میں پھنسے ، سفینۂ ملت کوکسی نہ کسی نئی منزل کا پتہ دیا، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کی متحرک و فعال شخصیت نے نصف صدی کے طویل عرصے پر محیط، امارت شرعیہ جیسی خالص دینی و شرعی تنظیم کی جو بے لوث اور بے بدل خدمات انجام دی ہیں؛ اس کی شہادت جریدۂ نقیب کے ہر ورق اور ہر سطر سے عیاں اور بیاں ہے۔
امارت شرعیہ میں آپ کی 50/سالہ خدمات کی گواہی دینے کے لیے امارت شرعیہ کا ترجمان اور ہفتہ وار جریدہ نقیب 1965ء سے لے کر 2015ء کے سینکروں شمارے کافی ہیں، نقیب کی اشاعت کا کوئی ایسا شمارہ نہیں جس کے صفحہ قرطاس پر آپ کی کارکردگی کاکوئی قابل ذکرحصہ رقم نہ ہو، گو نقیب کے ہر ایک شمارے کی زبان تحریر یہ پکار رہی ہے کہ :

نہیں لکھا ہے سر ورق پر مصاحبوں نے جونام میرا
اگر پڑھو گےبچشم دل تو ہمی ملیں گے ورق ورق پر

آپ کا زمانۂ کار کئی وجوہ سے امارت شرعیہ کےلیے سب سے زریں عہد رہاہے، اسی زمانے میں اس کی نیک نامی کا شہرہ دوردور تک پہنچا، اس کے شعبے جات نے غیر معمولی ترقی کی، تحریکات و مہمات اور تعمیراتی لحاظ سے آپ کے زمانہ نظامت میں اس عظیم ادارے کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع میسر آیا ۔

خوبیاں جوسنگ میل ثابت ہوئیں:

خلاصہ تحریر یہ کہ آپ نے اللہ کی دی ہوئی جن خداداد صلاحیتوں سے ادارے کو سنوارا، بڑھایا اوراسے ترقی کے بام عروج پر پہنچایا ان صفات میں آپ کی حددرجہ وسعت قلبی و اعلی ظرفی، مثال دی جانے والی صفت تحمل و بردباری، سادہ زندگی اور بے تکلفانہ طرز حیات، ادارے کےلیے شب وروز کی جہد مسلسل اور ملی وقومی تڑپ، اپنے مقصد سے کمال درجےکا عشق اور ملی کاموں سے والہانہ لگاؤ، فیصلوں سے متعلق دوربینی و دور اندیشی، ملت کے تئیں آپ کی بے لوث محبت و ہمدردی جیسے عظیم اوصاف کو آپ کی تحریکی وتنظیمی زندگی میں بنیادی عناصر کا درجہ حاصل ہیں، اسی طرح تنظیم کےمقاصدکی حصولیابی کےلئےآپ کی عرق ریزی وجاں سوزی ، مشکل لمحات میں آپ کی قائدانہ صلاحیت اور دانشورانہ فکر، عوام و خواص کے لیے آپ کی معروف دلداری و دل نوازی، ادارہ کو اکابرین کے کھینچے ہوئے خطوط پر جاری رکھنے اور ملت کی اجتماعی زندگی کی بہتری کےلیے آپ کے شورائی مزاج، زمانہ شناسی و معاملہ فہمی، بیت المال سےمتعلق آپ کی بےمثال دیانت وامانت داری اور تمام دینی وملی کاموں میں آپ کی بے بدل میانہ روی و اعتدال پسندی اورخاص کر اپنے رفقائے کار پر بے پناہ اعتماد جیسی خصوصیات آپ کی راہ عزیمت کے سنگ میل تھے ۔

عرصۂ حیات کےمرحلے :

آپ نے مورخہ 31 /مارچ 1927ء کو ضلع گیا کے گھوڑی گھاٹ قصبے میں ایک علم وفضل والے قاضی گھرانہ جناب قاضی حسین صاحب کے یہاں آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں پا کر آگے درجۂ متوسطات کی عربی تعلیم قدوری تک اپنے والد قاضی حسین صاحب سے حاصل کی، اس کے بعد علیا درجے کی تعلیم کے لیے شمالی بہار کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کا سفر کیا بعدازاں درس نظامی کی تکمیل کی غرض سے دارالعلوم دیوبند کی جانب پابہ رکاب ہوئے اوروہاں 1942 تا 1946ء حضرات اکابرین کی مبارک درسگاہوں سے علوم متداولہ میں فضیلت حاصل کی ،
مزید ایک سال احاطہ دارالعلوم میں رہ کر آپ نے علوم فقہ و تفسیر میں تخصص کیا ۔
تدریسی زندگی کا آغاز "مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی مغربی چمپارن” سے کیا۔ بعدہ کئی سال مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ میں صدر المدرسین کی حیثیت سے دینی علوم کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ 1960ء میں حضرت امیر شریعت رابع کی نگاہ جوہر شناس نے آپ کو پہچان لیا اور بالآخر حضرت کے حکم اور حضرت قاضی مجاہد اسلام قاسمی کے اصرار پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں تشریف آوری ہوئی اور 1998ء تک امارت شرعیہ کے عہدہ نظامت پر فائز رہے۔ پھر حضرت مولانا عبدالرحمن امیر شریعت خامس کےانتقال کے بعد 1998 سے 2015 تک امیر شریعت کے عہدے پر متمکن رہ کر قوم و ملت کی مخلصانہ خدمات انجام دیتے رہے اور انجام کار ملی افق پر نصف صدی تک جگمگانے والا آفتاب دین و شریعت 17/ اکتوبر 2015ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔
حضرت مولانا مرحوم کی ان بے مثال اور تاریخی قربانیوں سے تا قیامت یہ صدا آتی رہے گی کہ :

آغاز محبت میں اگر جان نہ دیتے
یہ کام کسی طرح سے انجام نہ ہوتا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: