رام، ایودھیا اور دیوالی ____!
✍️عبدالرحیم خان
_________________
دیوالی آرہی ہے، مجھے مٹھائ و مبارکباد سے کچھ لینا دینا نہیں، کہ جہاں میں ہوں وہاں نہ مٹھائ ہاتھ لگنی ہے اور نہ مبارکباد آدان پردان کا موقعہ ملنا ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی جواز و عدم جواز کی باریکیوں کا مجھے کوئ علم ہے۔۔۔۔ البتہ ھندو میتھولوجی اور انکی اپنی کتابوں کے مطابق دیوالی سے جڑی تاریخ کو بہت مختصر میں جان لیتے ہیں.
(نوٹ: یہ کہانی صرف ہندو میتھولوجی کے مطابق ہے۔ معلوماتی ہے اس لیے نشر کی جارہی ہے۔ تجزیاتی مطالعہ کے لیے تقابل ادیان پر مبنی تحریروں کا مطالعہ کریں)
ھندو مذھب میں دو بڑے بھگوان ہیں، برہما اور وِشنو۔۔۔۔۔۔ ھندو مسودات کے مطابق رام دراصل بھگوان “وِشنو” کے ساتویں اوتار ہیں، جنکی پیدائش ایودھیا میں کم وبیش پانچ ہزار سال قبل مسیح ھندو کیلینڈر کے پہلے مہینے “چَیت” کی نویں تاریخ کو ہوئ تھی۔ جسے آج رام نومی کے طور پر منایا جاتا ہے، جو عموماً مارچ اپریل سے مطابق ہوتا ہے۔ ان کا جنم “کوسالہ” کی اس وقت کی راجدھانی “ایودھیا” میں راجہ دشرتھ کے گھر ہوا۔ راجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں۔۔۔ کَوشلیا، کیکئ، سُومترا۔ …. رام کی ماں کوشلیا تھیں، جبکہ انکے دوسرے جڑواں بھائ لکچھمن اور شتروگھن انکی سوتیلی ماں سومترا سے اور تیسرے بھائ بھرت انکی دوسری سوتیلی ماں کیکئ سے پیدا ہوئے تھے۔
رام چونکہ ایک راج گھرانے سے تھے، اسلئے بچپن ہی سے ذمہ دار اور فعال قسم کے تھے۔ رام کا معنی بھی دراصل ویدوں کے مطابق “ڈارک اور کالا” یا پھر “جاذب، خوش مزاج، موثر، خوبصورت، پیارا” ہوتا ہے۔۔۔۔ شاید یہی وجہ ہو کہ رام کی مورتیاں کالی / سانولی رنگت ہی کی ہوتی ہیں۔ یوں تو رام کے بہت سے مترادف نام ہیں پر سب سے زیادہ مشہور “رام چندر” اور “مریادا پرشوتم” ہیں، وہ اسلئے کہ ہندو انہیں “رام چندر یعنی چاند جیسا خوبصورت” اور “مریادا پرشوتم یعنی خوددار آئیڈیل مَین” مانتے ہیں۔
رام کے والد راجہ دشرتھ کوسلا کی سریو ندی کے تَٹ پر موجود راجدھانی ایودھیا کے راجہ تھے، کہا جاتا ہے کہ انکی ماں بھی چونکہ کوسلا ہی سے تھیں اسلئے انکا نام اسی نسبت سے کوشلیا تھا۔ جن دنوں رام ایودھیا میں جوان ہورہے تھے ایودھیا کے قریب جنگلوں میں ایک سنت رہتے تھے وِشومِترا جو پوجا پاٹھ کا کام کرتے تھے، اس وقت راکچھشوں نے آس پاس میں اتنا ظلم کر رکھا تھا کہ وشوامترا راجہ دشرتھ کے پاس آے اور درخواست کی کہ انکی یَگیہ پوجا کی راکچھشوں سے حفاظت کے لئے وہ رام لکچھمن کو انکے ساتھ بھیج دیں۔ راجہ دشرتھ نے دونوں بھائیوں کو وشومترا کے ساتھ بھیج دیا۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ دونوں بھائ جنگل میں وشوامترا کی حفاظت کا کام کر رہے تھے اسی دوران مِیتھلا / Mithila کے راجہ جَنَک / Janak نے اپنے ہاں اپنی بیٹی کی شادی کے لئے سُویمبر کا اہتمام کیا اور آس پاس کے تمام راجیوں میں اعلان کروا دیا کہ جو شہزادہ بھی اسکے پاس موجود وِشنُو کی دھنُش / کمان کو تیڑھا کردے گا وہ اس سے اپنی بیٹی سیتا کا بیاہ کردیں گے۔ رام کے ساتھ موجود وِشومترا نے رام سے اس سویمبر میں شریک ہونے کو کہا۔ ۔۔۔۔۔۔ جب یہ لوگ میتھلا گئے تو رام نے دھنش کو درمیان سے پکڑ کر اسکے تار کو اس زور سے کھینچا کہ دھنش دو حصوں میں ٹوٹ گیا۔ رام کی طاقت دیکھ کر راجہ جنک اپنی بیٹی سیتا سے رام کی شادی کو تیار ہوگئے اور شادی میں شرکت کے لئے رام کے والد راجہ دشرتھ کو اپنے ہاں میتھلا بلا بھیجا۔ شادی کرکے رام سیتا کو لیکر ایودھیا واپس آگئے اور بارہ سال تک یہیں ساتھ رہتے رہے۔
ایک دن جب رام اپنے بھائیوں کے ساتھ گھر سے باہر تھے تو راجہ دشرتھ کی تیسری بیوی اور بھَرت کی ماں یعنی کیکئ نے اپنے شوہر سے کہا کہ “کیا آپ کو یاد ہے کہ بہت پہلے آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ۔۔۔ کیکئ! زندگی میں ایک بار تم مجھ سے کچھ بھی مانگو گی میں اسے پورا کرونگا؟”۔ راجہ دشرتھ نے کہا کہ ہاں مجھے اپنا وعدہ یاد ہے، بولو کیا چاہئے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سوتیلی ماں کیکئ نے ایسی ڈیمانڈ کردی کہ جس سے راجہ دشرتھ سمیت اس کے سبھی بیٹے اور باقی گھر والے بھی سکتے میں آگئے۔ کیکئ نے کہا کہ رام کو چودہ سالوں کے لئے ڈنڈاکہ کے جنگلوں میں بنواس پر بھیج دیا جائے۔ باپ بھائیوں اور دیگر اہل خانہ کی ناراضگیوں کے باوجود رام نے اپنے والد سے اس کی تعمیل کے لئے درخواست کی، اور کہا کہ مجھے بنواس جانے میں کوئ پریشانی نہیں کیونکہ نہ میں بادشاہت کا خواہش مند ہوں اور نہ عیش و آرام کا طالب ہوں۔ رام نے جب اپنا فیصلہ اپنی بیوی سیتا کو سنایا تو وہ بھی ساتھ جانے کو بضد ہوگئیں، اور نکلتے وقت بھائ لکچھمن بھی رام و سیتا کی دیکھ بھال کے لئے ساتھ ہولئے۔
رام بنواس کے لئے کوسالا ایودھیا سے نکل پڑے، جمنا ندی کو پار کتے ہوئے آگے بڑھے، جب چِترکُوٹ پہونچے تو منداکنی ندی کے کنارے پر قیام کیا (ان دنوں چترکوٹ یوپی و مدھیہ پردیش کے بارڈر پر ہے)۔ قیام کے دوران یہیں چِترکُوٹ میں رام کی ملاقات انکے ایک بھکت سے ہوئ جس کا نام شَبری تھا۔ رام نے شبری سے کچھ کھانے کی درخواست کی تو اس نے بیر کھانے کو دئے۔ اسکی بھکتی کا یہ عالم تھا کہ جتنے بیر وہ رام کو دیتی تھی پہلے اسے آدھا کھاکر چیک کرتے تھی کہ میٹھے بھی ہیں یا نہیں۔ رام بھی اسکی بھکتی دیکھ بنا کسی کشمکش کے شبری کے جوٹھے بیر کھاتے گئے۔ ۔۔۔۔۔۔ شبری کے جوٹھے بیر کھانے کا یہ قصہ ھندو میتھولوجی میں کافی مشہور ہے۔
دس سال تک رام یہیں آس پاس کے جنگلات میں اور مختلف آشرموں میں رہے۔ دس سال کی جد و جہد کے بعد گوداوری ندی کے کنارے پنچوتی جا پہونچے۔ اس علاقے میں بہت زیادہ راکچھش ہوا کرتے تھے۔ ایک دن شُوپڑنکھا نامی ایک زنانہ راکچھش نے رام کو دیکھا، ان پر فریفتہ ہوگئ اور انہیں اپنے بس میں کرنا چاہا۔ جب وہ کامیاب نہ ہوسکی تو رام کی بیوی سیتا کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا۔ اس بات سے غصہ ہوکر رام کے بھائ لکچھمن نے شوپڑنکھا کے ناک کان کاٹ دیئے۔ اب بات بہت آگے بڑھ چکی تھی۔ شوپڑنکھا دراصل لنکا کے راجہ راون کی بہن تھی اسلئے اپنی بہن کا بدلہ لینے راون خود پنچوتی آپہونچا اپنے لشکر سمیت۔ وہاں سیتا کو دیکھا تو ان پر فریفتہ ہوگیا اور اپنے ایک راکچھش کمانڈر مرِیچا کو حکم دیا کہ وہ ہرن بن کر سیتا کو اپنے پاس بلائے، اور جب سیتا ہرن سمجھ کر اسکے قریب آئیں تو راون انہیں اغوا کر لنکا لے کر چلا گیا۔
سیتا کے اغوا کا پتہ لگتے ہی رام و لکچھمن کی پریشانیاں مزید بڑھ گئیں، کیونکہ راون بیحد طاقتور تھا اور انکے پاس وسائل کے نام پر کچھ بھی نہ تھے۔ پنچوتی سے اب دونوں بھائ جنوب کی طرف نکل پڑے جہاں انکی ملاقات سُگریو سے ہوئ جن کے پاس بندروں کی ایک پوری فوج تھی۔ اس فوج میں انکے کئ کمانڈر تھے اور ایک بڑے بہادر کمانڈر تھے ہنومان۔ ادھر رام لکچھمن سُگریو اور ہنومان کے تعاون سے راون سے مقابلے کی تیاری کر رہے تھے، اُدھر راون سیتا کو اپنی بیوی بنانے کے فراق میں تھا۔ بالآخر رام راون اور ہنومان میں لنکا میں جنگ ہوئ، راون مارا گیا اور سیتا کو لنکا سے دوبارہ واپس لایا گیا، اور پھر وہاں سے چودہ سال کی مدت پوری کرکے دونوں بھائ اور سیتا ایودھیا واپس ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس بنواس سے واپسی پر خوشی میں لوگوں نے ایودھیا میں دیئے روشن کئے تھے اور پھر رام ابھیشیک یعنی رام راجیہ کی ابتدا بھی ہوئ۔۔۔۔۔۔۔ اسی واپسی کے دن کی مناسبت سے دیوالی منائ جاتی ہے۔