تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت
ازقلم: مفتی ناصرالدین مظاہری
_________________
حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الراكب شيطان، والراكبان شيطانان، والثلاثة ركب "،
اکیلا سوار شیطان ہے، دو سوار بھی شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ والے ہیں (ترمذی)
اس حدیث شریف میں اکیلے یا دو لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ تین لوگوں یا تین سے زیادہ سفر کرنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کو پسند فرمایا گیا ہے۔
اکیلے سفر کرنے کی ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں دی تھی حالانکہ آپ کا زمانہ مذہبی منافرت کا نہ تھا آپ کے زمانے میں دور حاضر کی طرح دنگے اور فساد نہ تھے ، نظر اور نظریے آج کے حساب سے ٹھیک تھے ، ماحول عمدہ تھا،انسانیت زندہ تھی ، کسی سے کسی کو ذاتی ، نسلی اور مذہبی دشمنی نہیں تھی لیکن اج آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے ، لوگوں کے ہجوم میں ایک سے بڑھ کر ایک بھیڑیے نظر آئیں گے جو آپ کو موقع ملتے ہی کھا جائیں گے ، آج کے حالات کی روشنی میں اگر آپ غور کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس زمانے میں اور زیادہ اہمیت کا حامل اور اس پر عمل کرنا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے ۔
بلا قصور کسی کو مار دینا ، موب لنچنگ کر دینا، مار پٹائی کرنا اور مذہب دیکھ کر لوگوں سے سلوک اور رویہ رکھنا اس زمانے میں عام ہو چکا ہے ، ایسی صورت میں اگر آپ بھیڑیوں کے ہجوم میں اکیلے ہیں تو پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی روشنی میں ٹھیک نہیں ہے ویسے بھی اکیلا سفر کرنے والا عام طور پر اطاعت اور عبادات سے اس لیے محروم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا ساز و سامان چھوڑ کر عبادت کے لیے کیسے جائے اور کہاں جائے جبکہ دو یا دو سے زائد ساتھی ہونے کی ضرورت میں نماز کے اوقات میں نماز کا یا روزہ کی شکل میں سحر و افطار کا انتظام بہت اسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر کسی طرح سفر کرنے والے کو کسی بھی طرح کی کوئی ضرورت پیش آجائے تو اس کے لیے اس کو سامان سے دور ہٹنا پڑے گا جس کی وجہ سے سامان کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہے گا اسی طرح اچانک کوئی حادثہ یا اچانک کسی بیماری کے پیش آجانے پر اگر دو یا دو سے زیادہ افراد ہوتے ہیں تو فوری طور پر مدد اور معاونت کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں اور اکیلے ہونے کی صورت میں بھلے ہی آپ اجنبی لوگوں کے درمیان ہوں اپ کا کوئی یار و مددگار نہیں ہوتا کیونکہ نفرت کی بیج اور نفرت کی اندھیاں اتنی تیزی کے ساتھ میں امن کے دشمنوں نے چلائی اور شروع کی ہوئی ہے کہ اب سکون نام کی چیز سفر تو کیا حضر میں بھی نہیں ہے۔
اسی طرح عموما دیکھا گیا ہے کہ اگر ادمی تنہا سوتا ہے تو اس زمانے میں گناہوں کے کاموں میں زیادہ مصروف رہتا ہے مثلا آج کے زمانے میں ہر آدمی کے ہاتھ میں موبائل موجود ہے اور موبائل میں دنیا بھر کی الائیں بلائیں موجود ہیں ، تنہا انسان پر شیطان جلدی قابو پا لیتا ہے اور جب ایک یا دو یا دو سے زائد لوگ ہوتے ہیں تو ہر آدمی ایک دوسرے کاحاظ کرنے کی وجہ سے گناہوں سے باز رہتا ہے۔
میں خود کئی بار نیند کی وجہ سے سہارنپور اترنے کے بجائے انبالہ پہنچ گیا ، میرا ایک دوست اکیلا سفر کررہا تھا اس کی بھی آنکھ سہارنپور میں نہیں کھلی اور انبالہ پہنچ گیا وہ واپس دوسری ٹرین سے سہارنپور کے لئے روانہ ہوا اور اتفاق سے پھر آنکھ لگ گئی اور روڑکی پہنچ گیا۔اگر یہ ساتھی اکیلا نہ ہوتا تو یہ نوبت بالکل نہ آتی۔
کبھی کبھی دوران سفر اچانک کوئی بیماری آجاتی ہے تو بھیڑ کے باوجود کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ایک شاعر نے تو بہت عجیب بات کہی ہے:
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہرے کے نشانات مٹا دیتے ہیں
اور ساحل سحری نینی تالی نے کہا کہ
میں لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر
سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا
تنہا مسافر اگر حادثہ کا شکار ہوگیا تو کوئی بھی بندہ اس کے گھر تک اطلاع نہیں پہنچا پاتا ہے ، بے شمار لاشیں مردہ گھروں میں لاوارث موجود رہتی ہیں اور گھر والے پریشان رہتے ہیں ۔ اس لئے بھی تنہا سفر سے بچنا چاہئے۔
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے