حق کی دعوت کے تقاضے اور داعی کا کردار
حق کی دعوت کے تقاضے اور داعی کا کردار
از: محمد عمر فراہی
_____________________
کچھ عرصہ پہلے اسلام جمخانہ ممبٔی میں وحدت اسلامی کے امیر مرحوم مولانا عطاء الرحمن واجدی صاحب کی تعزیتی نشست سے واپس لوٹتے ہوۓ ٹرین میں ممبٔی کے معروف اردو صحافی اور رکن جماعت ڈاکٹر سلیم خان صاحب اور نہال صغیر صاحب سے ملاقات ہو گئی جو خود بھی اسی نشست سے واپس گھر لوٹ رہے تھے ۔ نہال صاحب نے تفریحا سلیم خان صاحب کا تعارف کراتے ہوۓ کہا کہ ان سے ملئے یہ ہیں ڈاکٹر سلیم خان صاحب ۔ معروف صحافی اور جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن۔
حالانکہ پیشہ وارانہ طور پر میرا اپنا تعلق کبھی نہ تو ادب سے رہا اور نہ سیاست اور صحافت یا کسی مذہبی تحریک سے لیکن ایک مذہبی گھرانے اور ماحول سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ادبی اور مذہبی مطالعے کا جو شوق بچپن سے تھا اسی شوق نے مجھے 2001 میں کچھ لکھنے پر مجبور کیا اور میں حادثاتی طور پر میگزین زاد سفر کے بعد اردو ٹائمز کے ایک مستقل کالم نگار کے طور پر شائع ہونے لگا ۔اسی دوران اردو کے کئی لکھاری جس میں عالم نقوی ۔ دانش ریاض ۔ممتاز میر ۔ سلیم خان ۔شکیل رشید اور نہال صغیر صاحبان وغیرہ وغیرہ بہت سی شخصیات سے متعارف ہوا اور تحریکی افراد سے بھی بہت قریبی روابط رہے ۔یہی وہ دور تھا جب عالمی اور قومی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت اور خوف کی تحریک اپنے عروج پر تھی ۔یوں کہیں کہ عالمی سطح پر 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر امریکہ نے جہاں کئی مسلم ممالک کو تباہ کیا اور مقامی سطح پر گودھرا گجرات اور اس کے بعد ملک میں مختلف مقامات پر بم دھماکوں کی بعد خوف و دہشت کا جو ماحول بنا اس نے مسلمانوں سے بہت کچھ چھین لیا ۔نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی قیادتوں پر خوف مسلط ہوا اردو قلمکار بھی کیا لکھے کیا نہ لکھے اس کے لئے بھی فیصلہ کرنا بہت آسان نہیں تھا ۔شاید انہیں حالات سے بیزار ہو کر ممبئی کی واحد تحریکی خاتون صحافی جو ایک کالج میں لیکچرار بھی ہیں اور جو اردو ٹائمز کی مستقل کالم نگار تھیں انہوں نے لکھنا پند کردیا ۔مجھے یاد ہے ملک میں ہو رہے سلسلہ وار بم دھماکوں کے دوران ٹائمس آف انڈیا نے اپنے اداریے میں Enough is enough کا عنوان لگاتے ہوۓ مسلم دانشوروں اور علماء کو تنبیہ کی تھی کہ اب بہت ہو چکا مسلمانوں کے ذمہ داران کو آگے آ کر اس دہشت گردی کی کھل کر مذمت کرنی چاہئے ۔اسی دوران اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے نے اگر اپنی تحقیقات کے ذریعے زعفرانی دہشت گردی پر سے پردہ نہ ہٹایا ہوتا تو ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے وہ روشن خیال علماء قلمکار اور دانشوران جن کی نظر میں جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیمیں پہلے ہی مشکوک تھیں تحریکی افراد کو کبھی معاف نہیں کرتیں ۔بھارت کے مسلمانوں پر ہیمنت کرکرے کا بہت احسان ہے اور شاید انہیں اسی جرآت کی سزا بھی دی گئی ۔اب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس خوف کے با جود کسی مسلم اور اسلام پسند قلم کار کے لئے قومی میڈیا اور خود روشن اور لبرل خیال مسلم قلمکاروں کا بیک وقت جواب دینا کتنا مشکل کام تھا۔ لیکن چند اردو قلمکاروں نے مسلمانوں کے حوصلے کو زندہ رکھا۔
اسی ٹرین کے سفر کے دوران جب انقلاب اخبار کے ایک بزرگ کالم نگار کا تذکرہ ہوا تو نہال صاحب نے کہا کہ سلیم خان صاحب کی دعوت سے آج انقلاب کا یہ آزاد خیال لبرل مغرب نواز صحافی جس کی قلم ہمیشہ اسلام پسند تحریکوں کے خلاف زہر اگلا کرتی تھی اب وہ نہ صرف صوم و صلوات کے پابند ہیں ان کا قلم اسلام پسند تحریکوں کی حمایت اور مغرب کی منافقت کا پردہ فاش کرتے ہوۓ نظر آتا ہے ۔سلیم خان صاحب نے فوراً نہال صاحب کو ٹوکتے ہوۓ کہا کہ بھائی آج کل میں ان کے بہت قریب ضرور ہوں لیکن ان کے ملحدانہ افکار میں تبدیلی اس وقت آئی جب وہ باندرہ میں کچھ وقت مولانا مختار ندوی صاحب کے رابطے میں آۓ اور ان سے بحث و مباحثات کے دوران ہی اسلام کے تعلق سے جو ان کے منفی تاثرات تھے وہ زائل ہونا شروع ہو گئے ۔
یاد رہے مولانا مختار احمد ندوی صاحب کئی کتابوں کے مصنف اور ممبئی میں اہل حدیث کی مشہور و معروف شخصیات میں شمار ہوتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے ایک رکن بڑی سادگی سے ایک شخص کے اسلام کی طرف پلٹنے میں ایک اہل حدیث عالم کی خدمات کا اعتراف کرنے میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نہیں لیا۔
میرا یہاں یہ کہنے کا بالکل مطلب نہیں کہ جماعت اسلامی کے لوگوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے ۔یہ اہل تقویٰ کی خصوصیات اور پہچان ہے خواہ اس نے کسی بھی مسلک اور مذہب میں آنکھ کھولی ہو ۔ انسانوں کی اکثریت خوبصورت پسند ہوتی ہے ۔ لوگوں میں لوگوں کے اخلاق اور اچھی باتوں سے ہی کشش پیدا ہوتی ہے ۔ذاکر نائیک کی ہی مثال لے لیں ۔ان کا ایک سلفی گھرانے سے تعلق ہے لیکن انہیں ہر مسلک کے لوگوں میں مقبولیت ملی اور ان کی تبلیغ سے ان لوگوں میں بھی اسلامی جذبہ پیدا ہوا جنھیں مولوی حضرات نے اسلام سے دور کر دیا تھا ۔ خود ذاکر نائیک نے اہل حق اور اہل تقوی کی پزیرائی کی ۔اب یہ الک بات ہے کہ اسی دنیا میں کچھ مولویوں نے حق کو اپنے گھر کی جاگیر سمجھ رکھا ہے خواہ انہوں نے دین کو تجارت ہی کیوں نہ بنا رکھا ہو۔
بحیثیت مسلم امہ ہماری سوچ یہی ہونی چاہئے کہ دعوت و عزیمت کا فریضہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چاہے جس تنظیم یا فرد کے ذریعے انجام دی جارہی ہو ہمیں خلوص کے ساتھ اس کا اعتراف کرتے ہوۓ اپنا تعاون پیش کرنا چاہئے نہ کہ ہم ایسی تنظیموں اور افراد کی حوصلہ شکنی کرکے انتشار اور فساد کا سبب بنیں ۔