شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ
شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ
✍️ : اسجد نُعمانی کشنگنجی دارالعلوم دیوبند
____________________
تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور ہم آہنگی کی روایت رہی ہے ، مغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ بابر ایک انصاف پسند حکمراں تھے ، تاہم ان کے متعلق بعض غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں جنہیں تاریخی حقائق اور عقلی دلائل کی روشنی میں واضح کرنا از حد ضروری ہے۔
زیر نظر مضمون میں "شاہی جامع مسجد سنبھل ” کی تعمیر اور اس سے جڑی آراء کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ تاریخ کو تعصب سے پاک اور غیر جانبدار ہو کر سمجھنا اتحاد و اتفاق کے لیے ناگزیر ہے ۔
بابر کا کردار:
ظہیر الدین بابر سنبھل آیا اور وہاں اپنے قیام کے دوران جامع مسجد سنبھل کی توسیع و مرمت کرائی، بابر کے دور میں کسی مندر کو منہدم کرکے مسجد بنانے کا دعویٰ غیر مستند، بے بنیاد اور خلاف حقیقت ہے۔
تاریخی شواہد اور تعمیراتی طرز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسجد پہلے سے ہی موجود تھی؛ البتہ بابر نے اس کی توسیع و مرمت کرائی۔
شاہی جامع مسجد سنبھل کی تاریخ:
جامع مسجد سنبھل کی تعمیر 772 ہجری میں سلطان محمد تغلق کے عہد میں ہوئی۔ جب کہ بابر نے 932 ہجری میں اس کی مرمت اور توسیع کرائی ، نیز مسجد کا طرز تعمیر بھی مغلیہ نہیں ہے، جو اس کے بابر سے پہلے موجود ہونے کی نشاند ہی کرتا ہے۔
تاریخی مقدمات:
سنہ ١٨٧٨ء میں جامع مسجد پر ایک مقدمہ دائر کیا گیا ، جس میں ہندو دعوے کو عدالت نے مسترد کیا اور مسجد کے مسلمانوں کے زیر استعمال رہنے کا فیصلہ دیا، سنہ ٢٠١٥ء میں بھی آثار قدیمہ کی حدود میں مبینہ تعمیرات کے الزامات پر مقدمہ درج ہوا ، اسی طرح سن ٢٠١٨ء میں بھی ایک مقدمہ درج ہوا۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی:
ہندوستان میں فرقہ واریت کی جڑیں انگریزی دور میں مضبوط ہوئیں، جب کہ اس سے پہلے مسلمان اور ہندو ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے مذہبی مقامات کا احترام بھی کرتے تھے، چنانچہ مسلم حکمرانوں نے مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کی حفاظت کی اور بعض مندروں کو مالی امداد بھی فراہم کی۔
اسلامی اصول:
اسلام کے مطابق کسی ناجائز زمین پر مسجد تعمیر نہیں ہو سکتی، لہذا بابر جیسے انصاف پسند حکمران پر مندر منہدم کرکے مسجد بنانے کا الزام تاریخ اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
دیگر تاریخی شواہد:
سلطان اورنگزیب اور دیگر مسلم حکمرانوں کے متعلق بھی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں ہیں؛ لیکن تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ شاہ اورنگزیب اور دیگر مسلم بادشاہوں نے بھی مندروں کی حفاظت کی اور ان کے لیے جاگیریں وقف کیں۔
مشترکہ ورثہ:
ہندوستانی تاریخ مشترکہ ورثے کی مثال ہے، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی تہذیب کو پروان چڑھایا۔
خلاصہ کلام :
جامع مسجد سنبھل تاریخی اہمیت کی حامل ہے، اور اس پر بابر کے مرمتی کام کو تعمیر سے تعبیر کرنا ایک عام غلط فہمی ہے، بل کہ مسجد کی بنیاد تو مسلم حکمرانوں کے دور میں پہلے ہی رکھی جا چکی تھی۔
یہ مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی واضح ، روشن اور اعلی مثال ہے
۔