حضرت مولانا نور الزماں فاضل شمسی نہیں رہے!!
_________________
آج مورخہ 14/ دسمبر 2024ء بروز ہفتہ بوقت بعد نماز فجر سوشل میڈیا کے توسط سے اور مختلف علاقائی گروپوں کے ذریعہ سے یہ جانکاہ خبر ملی کہ ولی کامل حضرت مولانا نور الزماں صاحب فاضل شمسی امام عید گاہ بیسا تقریباً سو سال کی عمر میں اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے ، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
مولانا کی وفات کی خبر پر بے ساختہ یہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور یہ کہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مولانا نور الزماں بن مولانا اسحاق بن شیخ عبد المعبود بن شیخ دولت علی غالبا1925/ میں سرزمین ڈیوکنڈہ سنہولہ ضلع بھاگلپور بہار میں میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی اور پھر تحتانیہ وسطانیہ سے لے کر فوقانیہ تک کی تعلیم علاقہ کی مشہور دینی درس گاہ مدرسہ شمسیہ گورگاواں میں حاصل کی، وہاں مولانا عبد المجید صاحب رح اور مولانا رمضان علی صاحب سے سے خصوصی تعلق رہا اور ان سے بطور خاص جانوئہ تلمذ تہہ کیا ،اعلی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے مرکز علم و فن مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ پٹنہ میں داخلہ لیا اور وہاں سے آپ نے علوم شرعیہ اور مختلف علوم و فنون میں عالم و فاضل کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصہ تک آپ نے قدیم دینی دانش گاہ مدرسہ عزیزیہ بہار شریف میں بھی داخلہ لیا اور وہاں کے فاضل استاتذہ کرام سے علوم شرعیہ میں مزید خوشہ چینی کی اور ان سے خصوصی استفادہ کیا ۔ 1951ء میں آپ نے فراغت حاصل کی اور 1952ء میں ہائی اسکول تارا پور مونگیر میں استاذ فارسی مقرر ہوئے، ایک طویل مدت تک یہاں علم کی شمع روشن کرتے رہے ، ہزاروں طلبہ نے آپ سے استفادہ کیا اور ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے، جو خود اب ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں ، 1993ء میں یا 1998ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور پھر آپ نے بقیہ زندگی اپنے گھر اور علاقہ میں خدمت دین اور تبلیغ دین میں گزاری، ملی و فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے، آپ کی علوم شرعیہ پر خاص طور پر تفسیر پر گہری نظر تھی، ہمیشہ قدیم و جدید تفاسیر کا مطالعہ کرتے رہتے تھے ،اخیر عمر تک آپ کا حافظہ قوی رہا اور یاداشت پکی رہی ۔ مولانا مرحوم جب تک تارا پور میں رہے وہاں سے قریب مسلم بستی غازی پور کی جامع مسجد کے امام و خطیب رہے اور ہمیشہ اپنے کو تعلیم و تربیت اور تبلیغ و اصلاح سے منسلک رکھا، جمعہ میں اصلاحی تقریر کرتے اور لوگوں کو دین کی طرف مائل کرتے، وہاں بھی آپ نے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور تاحیات اس کی سرپرستی اور نگرانی کرتے رہے، آپ ہمیشہ تعلیمی دینی ،اصلاحی اور ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کی دولت کے ساتھ ظاہری وجاہت اور اثر و رسوخ سے بھی خوب نوازا تھا ،آپ علاقہ کے مانند اور مقتدر علماء میں شمار ہوتے تھے اور لوگ آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، آپ اپنے علاقہ کی تاریخی عید گاہ بیسا کے امام تھے ، نصف صدی سے زیادہ تک آپ نے اس ذمہ داری کو انجام دیا، ادھر جب پیری اور بڑھاپا غالب آگیا تو اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے اور یہ منصب اپنے صاحبزادگان کے حوالے کردیا ، قاضی مجیب الرحمٰن قاسمی معاون قاضی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ اور ان کے بھائی قاضی افروز سلیمی صاحب چونکہ ان کے معتمد اور قریبی لوگوں میں تھے ، اس لیے عیدین میں ان دونوں سے تقریر کرواتے اور بطور خاص زکوٰۃ کی اہمیت پر تقریر کے لیے کہتے تاکہ مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچیں اور پوری ذمے داری سے اس فریضہ کو ادا کریں، تاکہ ملت کے بے سہاروں کی مدد و نصرت ہوسکے، نیز دینی مدارس کی بقا کے لیے اس کو ضروری سمجھتے۔
مولانا مرحوم کا تعلق خانقاہ و مدارس ،علماء اور اہل علم سے ہمیشہ گہرا رہا ، وہ مولانا منت اللہ رحمانی کے تربیت یافتہ تھے ،ان کے مسترشدین میں سے تھے،خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ سے ان کا گہرا تعلق تھا ، انہوں نے مولانا رحمانی صاحب رح کے ساتھ مونگیر اور بھاگلپور کے علاقہ میں رد قادیانیت پر بھی کام کیا ، خانقاہ کے پروگرام میں ہمیشہ شرکت کرتے، اخیر میں حضرت امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رح سے بیعت ہوگئے تھے اور ان کے مرید بن گئے تھے، وہ خانقہی نظام کے قائل اور اس کے موئد تھے اور اس کے وسیع تر اثرات کے معترف تھے، امارت شرعیہ سے بھی ان گہرا تعلق تھا ،وہ ارباب حل و عقد میں تھے ، وہاں کے ترجمان ہفتہ وار نقییب کو ہمیشہ حرفا حرفا پڑھتے تھے اور امارت شرعیہ کی آواز پر خود لبیک کہتے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے مہمیز لگاتے، اس ادارہ کا تعاون کرتے اور کراتے،وہ امارت شرعیہ کو ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا قلعہ کہتے تھے ۔۔
انہوں نے اپنے تمام بچوں کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کیا ، ان میں تنویر صاحب انجنئیر بنے اور خورشید صاحب سرکاری اسکول میں مدرس ہوئے، یہ دونوں بھائی اپنی اپنی میعاد مکمل کرکے ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں، تیسرے صاحب مولانا تحسین ندوی ہیں ، جنہوں نے لمبے عرصے تک جامعہ ابن تیمیہ گڈا میں خدمت انجام دی ، اخیر میں والد صاحب کی خدمت کی غرض سے گاؤں میں رہنے لگے تھے ۔پورا خاندان علم و ادب اور تعلیم و تربیت کا اعلیٰ نمونہ ہے ، پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سب خوش و خرم ہیں اور بامقصد زندگی گزار رہے ہیں، یہ سب مولانا مرحوم کے لیے صدقئہ جاریہ ہیں اور ان کے حق میں دعا خیر کا وسیلہ و واسطہ بھی ، مولانا مرحوم کے بارے میں سنا ، کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا ! علم و عمل سے بھرپور اتنی لمبی عمر دے کہ میرے پینشن سے میرے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی تعلیم حاصل کریں وہ بھی فائدہ اٹھائیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور لمبی زندگی علم و فضل اور عمل صالح کے ساتھ مرحمت فرمائی۔ مولانا نے جو سفر حج فرمایا اس کی بھی ایک داستان ہے کہ کس جذب و شوق اور کیف و سرور سے یہ مبارک سفر فرمایا ۔
افسوس کہ مولانا مرحوم سے صرف ایک بار ملاقات کا شرف ہے ، وہ بھی گورگاوں میں مولانا ہمایوں کبیر صاحب مرحوم کے جنازہ کے موقع پر ،
البتہ مولانا کی شخصیت کے بارے میں مولانا محمد نعیم صاحب گڈا سابق استاذ ضلع ہائی اسکول صاحب گنج اور مولانا مجیب الرحمٰن قاسمی صاحب معاون قاضی امارت شرعیہ سے بہت کچھ معلومات ہوتی رہتی تھیں ۔
سچائی یہ کہ مولانا مرحوم علم و عمل کے جامع اور ایک مثالی انسان تھے ، طویل عرصے تک سرکاری ملازمت میں رہے لیکن کبھی بھی دینی ماحول اور دینی خدمت سے الگ نہیں رہے ، صوم و صلوٰۃ کے انتہائی پابند اور صرف پابند ہی نہیں بلکہ پوری زندگی امامت بھی کی، اور خطابت کی ذمہ داری کا ذمہ داری بھی نبھائی ، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اخیر اخیر تک گاؤں میں امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور قریب کے گاؤں بنیا ڈی میں ایک ادارہ کی بنیاد رکھی جو ابھی بھی علم کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہے ۔
مولانا مرحوم کی زندگی سے ہم سب کو سبق اور حوصلہ لینا چاہیے ،خاص طور پر ان لوگوں کو جو عالم اور فاضل بننے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرلیتے ہیں ۔۔۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ،تمام وارثین متعلقین اور جملہ اہل تعلق کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے نیز ہم سب کو ان کی زندگی جیسی اپنی زندگی بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے