جامعہ ابی بن کعبؓ بنیاٹول: ایک خوبصورت نغمہ گاہِ قرآنی(پہلی قسط)

جامعہ ابی بن کعبؓ بنیاٹول: ایک خوبصورت نغمہ گاہِ قرآنی (پہلی قسط)

از: ظفر امام کھجورڑی

دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج، بہار

____________________

انسان اپنے ہی مقدر پر اس وقت رشک کرنے لگتا ہے جب اس کے نصیبے کو اس کی توقع سے زیادہ خدائی عطیہ اور عظیم شخصیات کی توجہ میسر ہوتی ہے،میں نے کبھی اپنے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات رقم نہ کی تھی کہ مجھ جیسے نابکار اور بےمایہ انسان کی تقدیر مجھے بطور ممتحن علم کی اُس نگری،تربیت کی اُس چھاؤنی اور اُس نغمہ گاہِ قرآنی کی دلنشیں مسند پر بٹھادے گی جس کی روحانی،پُرکیف اور نغمگیں چھاؤں میں چند لمحے گزارنا بھی انسان اپنے لئے سعادت اور خوش بختی سمجھتا ہے،اور میں یہ کیسے سوچ بھی سکتا تھا کہ یہ تو میری مرتبت سے بالا کی چیز تھی،چند مہینوں پہلے تک جس ادارے کی زیارت آپ کو خواب کا سا احساس دلائے اگر چند مہینوں کے بعد اسی ادارے کی مسند پر آپ بطور ممتحن فروکش ہوں تو آپ اپنے نجمِ بخت کو اوجِ کمال پر چمکتا ہوا محسوس نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے؟

جی ہاں! وہ دن میری زندگی کا سب سے خوبصورت ترین دنوں میں سے ایک تھا جب میں سرزمینِ دیناجپور (مغربی بنگال) کے ایک نو دریافت معروف ادارہ ”جامعہ ابی بن کعبؓ بنیاٹول اتر دیناجپور“ کے بانی و مہتمم حضرت اقدس مولانا و مفتی تنویر عالم صاحب قاسمی مدظلہ العالی کی مخلصانہ دعوت پر فارسی اور عربی اول کے طلبہ کے ششماہی امتحان لینے کی غرض سے آپ کے ادارے میں پہنچا تھا اور اپنی روح و دل کو اس کی دلآویز فضاؤں سے معطر کیا تھا۔

27/اکتوبر 2024؁ء بروز اتوار کی وہ ایک سہانی صبح تھی،موسمِ برسات کی الوداعی گھٹاؤں کے شگاف سے چرخِ کہن کا مہرِ درخشاں کرۂ ارضی پر اپنی لطیف اور پاکیزہ کرنیں بکھیر رہا تھا،سردی کی دستک نے چمنستانِ ارضی کو پُربہار بنا دیا تھا،پرند و پکھیرو اپنی جستجوئے رزق کے لئے آشیانوں سے نکل کر فضائے آسمانی میں چہک رہے تھے، وادیوں میں دھان کے سبز پودے لہریں مار رہے تھے اور دور افق پر کہرے کی باریک جالیاں دل و نگاہ کو سرور بخش رہی تھیں،اس سہانے اور دل فزا موسم میں راہ چلتے ہوئے میرے دل میں یہ احساس گدگدا رہا تھا کہ شاید موسم نے حسن کا یہ پیراہن میری مسرتوں کو دوبالگی بخشنے کے لئے اپنے اوپر چڑھا لیا ہے۔

میں چونکہ اپنے دوستوں کی ایک جماعت کے ساتھ بطور زائر اس دن سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل اس ادارے کی زیارت سے مشرف ہوکر لوٹا تھا اس لئے اس دن مجھے زیادہ پوچھ تاچھ کی زحمت اٹھانی نہیں پڑی، ٹھیک سات بجے میں مدرسہ کے احاطے میں داخل ہوگیا۔
مدرسہ کا احاطہ کیا ہے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ صحرا میں سبزہ اور ریگستان میں نخلستان کا سماں پیش کرتا ہوا ایک خوبصورت،دلکش اور جاذبِ نگاہ گہوارہ ہے،ادارے کی عمارت کو اِس خوبصورتی اور قرینے کے ساتھ زمین کی پُشت پر نقش کیا گیا ہے کہ انسان کچھ دیر تک دیکھتا ہی رہ جائے،لمبائی میں پھیلی کئی کمروں پر مشتمل دو منزلہ قیام گاہ کی وہ حسین سی عمارت،اُس کے بیچوں بیچ سے کسی مہہ جبیں کی مانگ کی مانند نکلتی ہوئی مسجد کی وہ شاندار سی تعمیر،قیام گاہ اور مسجد کی دیوارواں پر پھیری گئی وہ سفید سی قلعی،مسجد کے شمشاد قامت محرابی دروازے کے کناروں پر قرآنی آیات کی وہ خوبصورت سی زر نگاری،مسجد کے دالان سے دو رویہ نکلتے ہوئے سرو کے وہ خوبصورت درخت،ان کی شاخہائے نازک پر پھدکتی خوبصورت چڑیوں کی ڈار اور ان کی چھاؤں کی ایک سمت پر بنی طلبہ کرام کی کھیل گاہ اور دوسری سمت پر بنی عارضی طعام گاہ کسی طلسم کدہ کی تصویر پیش کرتی ہے۔

میں جس وقت احاطے میں داخل ہوا اُس وقت طلبہ مسجد کے سامنے سرو کے درختوں کے سایے میں کھڑے ہوکر خدا کی جناب میں مناجات پیش کر رہے تھے،اور اساتذہ سامنے دست بستہ کھڑے تھے،طلبہ کے ساتھ اساتذہ کی یہ آمیخت محمود و ایاز والی منظر کشی کر رہی تھی،اُس منظر کے دیکھتے ہی میرے افقِ دماغ پر علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بجلی کی طرح کوند گیا۔
؎ بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
میں بھی اس مقدس کارواں میں شامل ہونے کو اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتا ہوا سب سے پیچھے کھڑا ہوگیا،یہ وہ مناجات تھی جسے میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہزاروں بار سن اور سینکڑوں بار سنا چکا تھا،مگر اس دن جب اسی مناجات کے الفاظ ایک طلمساتی لب و لہجہ اور رعشہ انگیز ترنم میں میرے کانوں سے ٹکرائے تو میں سن کر بےقرار ہوگیا، میرے جسم پر ارتعاش کی لہریں دوڑ گئیں،کچھ دیر کے لئے دل کے اندھیارے اجیارے ہوگئے، اور جب مناجات خواں نے اپنی پُرسوز لے میں ڈوب کر عجز و انکساری سے لبریز اس شعر

؎ تو غنی ہے اور ہم ہیں بے نوا
کون پوچھے گا ہمیں تیرے سوا

کی تان کو چھیڑا تو پلکوں نے اَن سنے ”بیشک“ کی آواز کے ساتھ عرقِ انفعال کے دو قطرے ٹپکادئے جو وہیں کہیں گم ہوکر رہ گئے۔
یہ سچ ہے کہ مناجاتِ باری لہجے میں جس سوز و رقت اور انداز میں جس نشیب و فراز کی متقاضی ہوا کرتی ہے وہ اس مناجات میں بدرجۂ اتم موجود تھی،الفاظ کے زیر و بم کے ساتھ ترنم کی سحر آفرینی اور لہجہ کی تابانی سازِ دل کے بجھے ہوئے تاروں کو چھیڑ رہی تھی،ابھی قلب و جگر موسمِ بہار کے پرندوں جیسی موسیقی سے لبریز اس مناجات سے محظوظ ہو ہی رہے تھے کہ مناجات خواں نے یہ کہتے ہوئے
؎ اپنی رحمت ہم پے اب مبذول کر
یہ مناجات اور دعا مقبول کر

مناجات کو اختتام کی منزل عطا کردی اور میری روح کو اُس ریگستان میں تشنہ چھوڑدیا جہاں دور دور تک پانی کے ایک قطرے کے لئے مسافر ترس جاتا ہے، اور آج مکمل دو ماہ بیت گئے مگر اب تک میری روح کی تشنگی ویسی ہی برقرار ہے اور اُس لہجہ کی ایک بوند کے لئے مارے مارے پھر رہی ہے۔

مناجات سے فارغ ہوئے تو ادارے کے بانی و مہتمم حضرت اقدس مولانا و مفتی تنویر احمد صاحب قاسمی کی معیت میں دفتر میں داخل ہوا جہاں دسترخوان ناشتہ سے آراستہ ہوکر محوِ انتظار تھا،سچ پوچھئے تو ناشتہ کے تکلفات دیکھ کر مجھے اپنے آپ ہنسی آ رہی تھی اور میں یہ سوچ کر زیرِ لب ہنس بھی رہا تھا کہ نہ جانے مجھ بےمایہ و بےسواد انسان سے محبت کرنے والوں نے اپنے دل میں کس حد تک خوش گمانیاں پال رکھی ہیں،اور اِدھر معاملہ اب تک” من آنم کہ من دانم “ پر ہی اٹکا ہوا ہے،دسترخوان پرحضرت مہتمم صاحب کے ساتھ فاضل نوجواں، بے پناہ صلاحیتوں کے مالک اور جامعہ ابی بن کعبؓ کے عربی درجات کے مؤقر استاذ جناب مولانا شمشاد صاحب قاسمی کی بھی رفاقت حاصل رہی۔

مولانا شمشاد صاحب قاسمی اُسی علاقے کے ایک مایہ ناز اور محنتی عالمِ دین ہیں،مجھ سے ایک سال پہلے دارالعلوم دیوبند سے ان کی فراغت ہوئی،اور پچھلے تین چار سالوں سے جامعہ ابی بن کعبؓ بنیا ٹول میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں،دارالعلوم دیوبند کی گزرگاہوں میں اکثر ان سے آنکھیں چار ہوا کرتی تھیں،غالبا رسمی سلام و کلام بھی تھا،مگر ذاتی تعارف نہ تھا،اُس دن جب میں نے مولانا کو دیکھا تو یاد آیا کہ مولانا تو دیکھے بھالے لگتے ہیں،پھر ملاقات کے بعد آپ کے مکمل تعارف سے واقفیت حاصل ہوئی،مولانا کے اندر کیا ہے میں تو اتنا نہیں جانتا،مگر شاید کہنے والے نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے: مُشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید“ (مشک وہ ہے جو خود خوشبو دے عطار کو کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ یہ خوشبودار ہے) مولانا کی صلاحیتوں کی روح پرور خوشبو مجھے اُس وقت محسوس ہوئی جب میں نے مولانا سے متعلق طلبہ کی کتابوں کا امتحان لیا جس کی مختصر سی جھلک نیچے کی سطروں میں موجود ہے،اُن طلبہ پر آپ اور آپ کے ہم منصب استاذ حضرت مفتی عبدالکریم صاحب قاسمی اور حضرت مہتمم صاحب مدظلہ العالی ( آپ بھی ایک گھنٹہ درس دیتے ہیں) نے مل کر جو محنت کی ہے وہ یقینا لائق صد تحسین اور قابل مبارک باد ہے۔
ناشتہ سے فراغت ملی تو وقت کی سوئی نے صبح کے آٹھ بجے سے آگے کا سفر طے کرڈالا تھا اور مجھے فارسی اور عربی اول کے جملہ طلبہ کی مکمل کتابوں کا تنہا امتحان لینا تھا،اس لئے مزید گفت و شنید کو بعد کے لئے مؤخر کردیا اور مولانا شمشاد صاحب کی معیت میں امتحان گاہ میں داخل ہوگیا۔

میرے سامنے درجہ فارسی کے طلبہ تپائیوں کے پیچھے بغایتِ ادب بیٹھے تھے،ان کے امتحان سے فارغ ہوکر میں نے عربی اول کے طلبہ کا بھی امتحان لیا،دونوں جماعتوں کا امتحان لینے کے بعد مجموعی طور پر جو تاثر میرے لوحِ دل پر مرتسم ہوا وہ یہی کہ اساتذہ اور طلبہ نے مل کر واقعی محنت کی محفل جمائی تھی،نہ جانے اساتذہ نے طلبہ پر کس دھج کی محنت کی تھی اور طلبہ نے اپنے طور سے کس نوعیت کی کوشش کی تھی کہ اُس دن امتحان گاہ میں سارے ہی طلبہ کسی در شہوار اور گوہر تابدار کی مانند جگمگا رہے تھے،فارسی کی کتابیں ہوں کہ اردو کی،ابتدائی عربی ادب کی کتابیں ہوں کہ تاریخ و سیرت کی سب ان کی نوکِ زبان تھیں،اِدھر ابھی صحیح طور سے سوال پوچھا نہیں جاتا کہ ”جواب حاضر ہے“ کا منظر رونما ہوتا،میں ان کی حاضر جوابی،بیدار مغزی،قوتِ یادداشت اور اعلیٰ استعداد کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہوئے بنا نہ رہ سکا،اب اگر ایسے باکمال طلبہ پر مشتمل پوری جماعت کا داخلہ ہی ہندوستانی تعلیم گاہوں کا جھومر کہلانے والے ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں ہوجائے تو اس میں چنداں تعجب کی بات نہیں۔

جی!آپ نے صحیح پڑھا،میرے علم میں اپنے علاقے کا اب تک کا یہ واحد ادارہ ہے جس کی ایک پوری جماعت کا داخلہ سالِ رواں دارالعلوم دیوبند میں ہوا تھا،جب ستمبر کے مہینے میں احباب کے ایک قافلہ کے ساتھ پہلی بار اس ادارے میں میری حاضری ہوئی تھی تو دورانِ گفتگو حضرت مہتمم صاحب نے یہ خوش خبری سنائی تھی،جسے سن کر ہم میں سے ہر ایک کی زبان سے ”واااہ“ اور ”سبحان اللہ“ کے فوارے چھوٹ پڑے تھے،مگر قربان جاؤں اُس پیکرِ اخلاص پر کہ نہ انہوں نے کوئی شور مچایا اور نہ ہی کوئی اشتہار بازی کی بلکہ چپکے سے رب کے حضور سجدۂ شکر بجا لایا اور پھر اپنے اگلے مشن کو بامِ کمال تک پہنچانے میں لگ گئے۔

امتحان میں سب سے کٹھن مرحلہ نمبر دینے کا ہوتا ہے، قلم نے ذرا لغزش کھائی اور سدا کے لئے بےانصافی کا داغ آپ کے دامن کو داغ دار کرگیا،ان طلبہ میں سے ہر ایک مساویانہ نمبرات کا حقدار تھا، اب میں یہ سوچ کر ہلکان ہوا جا رہا تھا کہ ان کے نمبرات میں کن امتیازات کی بنا پر تفاوت برتوں؟مگر نمبرات تو مجھے بہرحال دینے ہی تھے سو میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس مرحلے کو پار کیا۔ (جاری)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔