ایک اور ساقی فیاض کا دور تمام ہوا
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
مے کدۂ قاسمی کی یہ روایت بھی دل چسپ ہے کہ غالبا ہر سال اس کے کسی ساقی کہنہ مشق کا "دورِ جام” آخری گردش کو پہنچ جاتا ہے، صحنِ دارالعلوم سالانہ ایک شجرِ سایہ دار سے محروم ہوجاتا ہے، الوداعی سلسلے کی تازہ کڑی استاذ گرامی قدر حضرت علامہ قمر الدین علیہ کی رحلت ہے، گذشتہ دنوں آپ کی علالت اور مایوس کن نقاہت وائرل رہی، معالجین بھی دست بردار ہو گئے تھے؛ مگر رب العزت کی چارہ سازی اور دست گیری کا آپشن پھر بھی رہ جاتا ہے اور امیدوں کے لیے گنجائشیں حباب بنتی رہتی ہیں؛ لیکن آج صبح فیصلہ آگیا اور اگر مگر کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
حضرت علامہ کو دو غیر معمولی سعادتیں مقدر ہوئیں اور آپ کے میزان عمل کو گراں بار کر گئیں: ایک یہ کہ دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر نسبتا کم عمری میں ہوا اور پھر بڑی جماعتوں اور درجۂ علیا تک رسائی میں زیادہ عرصہ حائل نہیں رہا، ان دو وجوہ سے آپ کے خوشہ چینوں میں اصاغر ومتوسطین کے ساتھ اکابر وقت بھی شامل ہیں، ابھی میری نظر سے حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کشمیری رکن شوری دارالعلوم دیوبند کی پوسٹ گذری، جس میں انھوں نے اپنے تلمذ کا تذکرہ فرمایا ہے، مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی، حیرت کا نصاب کئی سال قبل پورا ہو چکا تھا، جب میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ استاذ گرامی قدر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ بھی حضرت علامہ کے شاگرد تھے۔
حضرت امینی علیہ الرحمہ حضرت علامہ کے تعلق سے دو پر لطف قصے سناتے تھے، ایک تعلیمی اور دوسرا اقامتی، حضرت امینی کا میبذی کا درس حضرت علامہ سے متعلق تھا، معلوم ہے کہ طلبہ میبذی بھاری دل سے پڑھتے ہیں، درس نظامی کی جو کتابیں نظر ثانی راڈار پر ہیں ان میں میبذی سر فہرست ہے، حضرت نے فرمایا کہ میں حاضر خدمت ہوا اور یہ عرضی رکھی کہ میبذی سے ساتھی ملول ورنجیدہ ہیں، بہتر ہے کہ اس کی جگہ کوئی اردو کتاب پڑھادی جائے، جیسے دینی تعلیم کا رسالہ۔
حضرت علامہ ناظم دارالاقامہ تھے، ایک مرتبہ انھوں نے حضرت امینی کو طلب کیا اور فرمایا کہ مولوی نور عالم! تمھارے نمبرات اعلی آئے ہیں، چھوٹے کمرے کا استحقاق ہو گیا ہے، اگر چاہو تو ایک سیٹ یا دو سیٹ والے کمرے میں منتقل ہوجاؤ، دارالعلوم میں چھوٹے کمرے مرغوب ومطلوب رہے ہیں، ہمارے زمانہ تعلیم میں بھی یہ رجحان تھا اور طلبہ جو کاوش داخلے کے لیے کرتے تھے، اسی درجے کی مشقیں کم سیٹ والے کمرے کے لیے بھی کر گذرتے تھے، حضرت امینی علیہ الرحمہ نے معذرت کر لی اور بدستور بڑے و ازدحام و والے کمرے میں رہائش کو ترجیح دی، عذر یہ بیان کیا کہ حضرت دس بارہ سیٹ والے کمرے میں تنقید وتبصرے کے لیے دوچار کردار مل جاتے ہیں، چھوٹے کمرے میں رائے زنی شغل کے لیے افراد کہاں سے لاؤں گا!
دونوں واقعات میں استاذ کی نرم خوئی، بہی خواہی اور رعایت دیکھیں اور شاگرد کی بے تکلفی، صاف گوئی اور شوخی بھی ملاحظہ کریں، یہ دونوں قصے حضرت امینی کی پروفائل کا امتیاز نمایاں کرتے ہیں، ہم نے ان کو ظرافت، بذلہ سنجی اور فقروں وتبصروں کے بادشاہ کے روپ میں دیکھا؛ لیکن یہاں معلوم ہوا کہ باغ وبہار طبیعت نئی نہیں، قدیم الایام تھی، دارالعلوم میں ہمارے دو اساتذہ ذہانت و احساس کی مثال تھے، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ اور استاذ گرامی حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ، دونوں کی نزدیکی، علمی امنگ، فکری جولانی اور طبعی نشاط کا سرچشمہ ہوا کرتی تھی۔
حضرت علامہ قمر الدین علیہ الرحمہ سے ہم نے مسلم شریف جلد اول اور نسائی شریف پڑھی، حضرت کی آواز صاف اور بلند تھی، اس وقت صحت عمدہ تھی، فتح الملہم اور نووی آپ کے درس کی دو بنیادیں تھیں، ان میں فتح الملہم کا ذکر بہ طور خاص کرنا مناسب ہوگا، حضرت کے مخصوص اہتمام کی وجہ سے مجھ جیسے طالب علم کو فتح الملہم کی مراجعت میں آسانی ہو جاتی تھی، مسلم شریف کا سبق فتح الملہم کی توسیع، تشریح اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے علوم کی خدمت، ترویج اور ان کے شکوہ میں اضافے کا درجہ رکھتا تھا، وہ علامہ عثمانی کی تحقیقات کو عالمِ کیف میں بیان کرتے تھے۔
ان کا سبق پہلے گھنٹے میں تھا، معلوم ہے کہ پہلا گھنٹہ نیند کے دباؤ میں ہوتا ہے، حضرت نظر رکھتے اور سونے والے کو حالت قیام کا پابند کرنے کے لیے "الف ہوجا” کی تعبیر استعمال فرماتے، نیند سے متعلق مشہور شعر:
خمار آلود آنکھوں پر ہزاروں میکدے قرباں
یہ قاتل بے پیے ہی رات دن مخمور رہتا ہے
پہلی مرتبہ آپ ہی سے سنا۔
حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئی سے وابستگی کی وجہ سے روک ٹوک کا خاص ذوق تھا، طالب علمی کی بات ہے میں مسجد قدیم میں حضرت سے متصل صف آرا تھا اور دوران تکبیر دونوں ہاتھوں کو باندھ کر لٹکائے ہوے تھا، حضرت نے کچھ کہے بغیر دونوں ہاتھ جدا کردیے، وہ کوئی منکر دیکھتے تو مسجدِ قدیم میں موقع پر ہی مختصر وعظ فرماتے، یہ منظر کسی بھی دن قائم ہوجاتا تھا، دعا چھوڑ کر جانے والوں کو بھی ٹوکتے تھے۔
آپ حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی سے متاثر تھے، مجلس درس، ملاقات، جلوت اور خلوت ہر موقع کو ان کے ذکر سے معطر رکھتے، انھیں کی طرح شاگردوں کو مولوی صاحب پکارتے، تقرر انھیں کی سفارش پر عمل میں آیا تھا، گو کہ حضرت شیخ فخر الدین علیہ الرحمہ بھی استاذ تھے؛ مگر آپ کو حضرت علامہ کا قریبی مانا جاتا تھا، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ فخر الدین علیہ الرحمہ نے پردہ رکھتے ہوے آپ کا درس سنا، فراغت پر معلوم ہوا تو گھبرائے، وہ نزدیکی بھی ایک زاویہ تھی، فرماتے ہیں کہ میری پریشانی بے بنیاد ثابت ہوئی، حضرت شیخ نے مجلس میں میرے درس کی تعریف کی۔
حدیث میں آتا ہے کہ عمل صالح کے ساتھ طولِ عمر سب سے بڑی نعمت ہے، آپ نے چھیاسی برس عمر پائی اور آخر تک برسر تدریس رہے، تدریس اعمال خیر کا نگینہ ہے، وہ صدقات جاریہ میں سب سے محکم صدقہ ہے، ہر صدقۂ جاریہ محدود اور ممکن الانقطاع ہوتا ہے؛ جب کہ تدریس کا صدقہ غیر محدود اور نا ممکن الانقطاع ہے، مردہ شخص ایصال ثواب کے لیے راہیں دیکھتا ہے اور مدرس کے لیے ثواب کی نہریں جوش مارتی ہیں، حضرت علامہ قمر الدین علیہ الرحمہ کی درازی تدریس نے آپ کے صدقۂ علم نافع کے سوتوں کو خوب وسیع وعمیق کردیا ہے اور اب آپ بصد ناز ان چشموں سے تا قیامت فیض یاب ہوں گے۔