کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
🖋شاہدعادل قاسمی
________________
کچھ دنوں قبل علالت کی خبر سے دل کے کل پرزے ٹھنک اٹھے تھے ، شفایابی کے لیے دست وہاتھ کے فنگر وانگلیاں بھی منجمد ہوکر بارگاہ الیی میں حاضر ہوئیں ،پیشانی پر سلوٹیں ضرور اس آپریشن کی نئ ایجاد پر بڑھنے لگیں مگر امیدورجا کی تمنائیں بھی قلب وجگر کے نہاں خانہ میں موجزن ہونے لگیں،اللہ اللہ کرکے قدرے سدھار کی خبر بھی آئ مگر جلد ہی قفس عنصری سے روح کے پرواز کی جھوٹی خبر بھی سوشلیائ دنیا پر تیزی سے پھیلنے لگی،عالم فانی کی ایک اینٹ دیوار حیات سے گرتے گرتے پھر بچ گئ مگر کچھ ہی منٹوں کے بعد ایک مصدقہ خبر ملی جنھوں نے اپنے سر سے والد کے سایہ اٹھ جانے کی خبر دی ،زبان پر مخصوص دعا مچلنے لگی ،انا للہ واناالیہ راجعون پر اپنے اردگرد بیٹھے احباب بھی بے ساختہ شریک زبان ہوگئے اور سبھی یہ پڑھنے لگے ٭منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکمُ تارۂ اخری٭
مولانا ندیم الواجدی کی رحلت کو اگر فکر وفن اور قلم وقرطاس کے ایک عظیم خسارہ سے تعبیر کیا جاۓ تو شاید مبالغہ آمیز یا تحیر خیز نہیں ہوگا، کیوں کہ ہزاروں کے مابین مولانا کی علمی اور فنی صلاحیت اور بلند اولوالعزمی کی میں خو بہ خود مشاہد ہوں ، آپ کی صالحیت اور طلباء سے دلی تعلقی اور قلبی ارتباط کا بھی میں شاہد عدل ہوں،دیوبند جیسے زرخیز اور بافیض شہر کے آپ باشندہ ہی نہیں بل کہ آپ ایک معزز اور علمی گھرانے کے تربیت یافتہ شخصیت کے مالک بھی ہیں ،خدا کاکرم اور آپ پر خصوصی احسان ہے کہ آپ دیوبند کے ہی ایک معروف عالم دین ، دارالعلوم دیوبند کے سابق صدرالقراء جناب قاری عبد اللہ سلیم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے داماد بھی ہیں،قضیۂ دارالعلوم کے بعد حصرت قاری صاحب دارالعلوم ہی نہیں بل کہ ملک سے دل برداشتہ ہوکر امریکہ کے ہوگئے، جہاں علم دین کا پرچم اولیں کو قائم کیا، جسے آج واجدی صاحب کے ہونہار سپوت ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم صاحب آباد کئے ہوۓ ہیں۔
مولانا واجدی کا اصل نام واصف حسین تھا،اسم کا اثر مسمی پر مکمل طور پر غالب تھا،کام کرنے والوں کی مداح سرائ ہی نہیں بل کہ حوصلہ افزائ بھی کی جاتی تھی،انعام واکرام سے بھی نوازا جاتا تھا،دارالعلوم دیوبند کے کسی بھی مقابلہ جاتی پروگرام کے فاتحین اور مساہمین کے لیے دیوبند کے کتب خانہ کے مالکوں کاکردار پورے ملک کے لیے رول ماڈل ہوا کرتے ہیں ،بغیرطلب کئے یہاں کے کتب تجار طالب علموں کو قیمتی کتابیں گفٹ کیا کرتے ہیں ،جس میں واجدی صاحب کا کردار کلیدی ہوا کرتا تھا،معلومات اور افادۂ عام کے لیے بتاتا چلوں کہ اہل مدارس کو یہاں کے کتب خانہ والے آج بھی کتابیں بہ طور عطیہ عطا کرتے ہیں ،جس تحریک اور مزاج سازی کے اگر کوئ موجد اور محرک ہیں تو وہ واصف حسین ندیم الواجدی صاحب ہی ہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل میں دیوبند میں گنے چنے ہی رسالے یا جریدہ شائع ہواکرتے تھے،دارالعلوم دیوبند کا ماہنامہ اور پندرہ روزہ، وقف دارلعلوم کا ماہنامہ پابندی سے باصرہ نواز ہوجایا کرتاتھا، وہیں طلسماتی دنیا کی ڈراؤنی ٹائٹل ورق سے بھی آنکھیں دوچار ہوجایا کرتی تھیں ،اس کے علاوہ تجلی کی تعطلی اور دیگر رسالوں کو زبوں حالی کش مکش کا شکار ہوچکی تھی ایسے انحطاطی دور میں اچانک ندیم الواجدی کا ماہنامہ رسالہ “ترجمان دیوبند”مکمل آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوا،مولاناۓمحترم کی نفاست پسندی اور ادبی ذوق جلد ہی اس کی نیک نامی کو ثابت کرنے میں سفل رہی،انتخاب مضامین ذوق بالیدگی کی غماز بنے اور جلد ہی ادبی دنیا نے اسے اپنی لائبریری کا زینت سمجھا،یہاں پر بھی طالب علموں کے لیے ایک گوشہ طے کیا گیا جہاں قلم کے شوقین طلباء اپنی حاضری دیتے رہے-
مولانا کی زندگی ایک بڑے تاجر وہ بھی کتابوں کے تاجر کے طور پر بھی کافی کامیاب رہی،دیوبند کے بڑے تاجروں میں آپ کا شمار ہے،ہزاروں مصنفوں اور مولفوں کی کتابیں آپ نے طباعت کرائ ہیں ،بل کہ دارالعلوم کے طلباء کی کتابوں کی اشاعت بھی آپ نے فری کی ہیں،تجارتی بنیاد کو جہاں آپ نے ملحوظ نظر رکھا وہیں مالی استطاعت سے کمزور علماء اور غیر مستطیع طلبا کی کتابیں اشاعت کرکے آپ نے ان کی ہمت افزائ اور اچھی خاطرا مدارات بھی کی ہے،مجھے خود یاد ہے میں جب بھی کسی مقابلہ جاتی تحریری اور تقریری پروگرام کا حصہ ہوتا تھا تو مجھ پر آپ کی کرم فرمائیاں مزید مہربان ہواکرتی تھیں،میری کتابوں کی اشاعت پر مجھے دعائیں ممدوح سے جھولی بھر کر ملتی تھیں فجزاکم اللہ خیر الجزاء
گزشتہ برس دیوبند کی آمد پر دارالعلوم کے ناظم مہمان خانہ جناب مولانا مقیم الدین صاحب کی معیت میں دارالکتاب میں حاضری ہوئ۔ مگر میری سوۓ قسمتی حضرت دیوبند سے باہر تھے بایں وجہ شرف زیارت سے محروم رہا ،آج کی اندوہ ناک خبر سے دلی قلق ہوا کہ کاش ایک روز انتظار کرلیا ہوتا۔
مگر چگ گئ جب کھیت تو پچھتاوت سے اب کیا فائدہ؟
مولانا جس طرح خوش خلق،خوش طبع اور خوش مزاج تھے بعینہ آپ خوش پوش اور خوش ذائقہ اور خوش روکے بھی حامل تھے،متانت،سنجیدگی اور قرینے سے سلیقے تک کی خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں-
دارالعلوم سے آپ کا کیا رشتہ تھا تحقیق نہیں ،لیکن زمانۂ قدیم میں آپ کی نیک نامی کو داغ دار کرنے کی بھی ناکام سعی کی گئ،خرد برد کا الزام ،گھریلو اختلافات کا ذکر،ازدواجی ٹینشن کی خبر،علامہ مودودی سے قربت اور مودودیہ کا خطاب بھی ان کانوں نے اس کم سنی کے دور میں سنا ،لیکن جب دماغ بالغ اور عمر بیس سے متجاوز ہوئ تو ساری باتیں ہفوات،ساری باتیں الزامات اور اتہامات کے دہانے ہاتھ باندھے کھڑی تھیں ،اس وقت کی ایک تخریبی مشن تھی جس نے ہر کسی کو نیچ اور کھائ دکھانے کی ٹھان رکھی تھی مگر یہ بھی سچ ہے”جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے”
مولانا حلیم اور مطیع مزاج انسان تھے، دیوار گرادیں یا ان کے دماغ پر بم پھوڑ دیں وہ انتقامی مائنڈ کے ہر گز نہیں تھے، وہ مشن کے پکے اور اپنے دھن کے سچے تھے،بیگ دباۓ سائیڈ سے خراماں خراماں ایسے نکل جاتے تھے جیسے کوئ معمولی انسان جارہا ہو،علیک سلیک اور نگاہیں نیچے کئے کبھی پا پیدل ،کبھی پاؤں رکشہ اور کبھی کسی بائک سوار کے پیٹھ پیچھے ایسے سمٹ کر بیٹھ جاتے جو تہی دست اور عام سا انسان محسوس ہوتے تھے ،جب کہ آپ دین اور دنیاوی نعمت سے بھرپور ہوا کرتے تھے،خاکساری اور منکسر مزاجی آپ کی شان تھی،دردسر بیزنس کے آپ بیزینس مین ہیں،نئ اور پرانی کتابوں کی اشاعت کے فیصلوں پر جہاں ہفتوں سوچ درکار ہے،طباعت شدہ کی اشاعت وترویج پر جہاں دماغی وائرزشش وپنج میں مبتلاء ہیں وہیں آپ علمی ز خیروں اور قلمی بوقلمنی سے مواد اور ماخذ کی جمع خوری میں سرگرداں ہیں اور تین درجن سے زائد کتابوں کے مؤلف ومترجم بن چکے ہیں یہ ایک نعمت خداوندی ہےجو باعث سرخروئ ہے ،امام غزالی کی شاہ کار تصنیف احیاء العلوم کا ترجمہ حضرت ممدوح کی علمی دنیا پر ایک بڑا احسان ہے،عربی اردو بول چال کی ترکیب پر آپ کی تصنیف ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
ایشیاء کی عظیم دانش گاہ کے قریب آپ کی رہائش گاہ اور تجارت خانہ ہے،ہزاروں انفاس امثلہ کے آگے پیچھے آپ کی مساعئ جمیلہُ ہیں ،تحریک وتمدن کے شہر میں آپ اقامت پذیر ہیں مگر پھر بھی فی الحال کسی تاریخی ادارے سے آپ کا انسلاک ہے اور نہ ہی کسی منصب اعلی پر آپ فائز ہیں یہ تو شان کریمی ہے کہ علمی صلاحیت اور فکری ذہنیت نے آج آپ کو ثابت قدم ہی نہیں رکھاہے بلکہ آئیڈیل بھی جانا اور مانا ہے،
آپ نے دیوبند کی سرزمین پر بچیوں کا جامعہ عائشہ صدیقیہ کے نام سے پہلا ادارہ قائم کیا، جہاں بیرون ریاست کی بچیاں بھی زیورتعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
آپ ایک کامیاب انسان کے ساتھ ساتھ کام یاب باپ بھی ہیں،اولاد کی تربیت میں باپ کا جواہم کردار ہوتا ہے آپ نے بخوبی نبھایا ہے،کچھ سال قبل آپ کا کام یاب بیٹا “اسلام اور گلوبلائزیشن” جیسے عنوان پر قلم اٹھاتا ہے تو موضوع کی مناسبت پر چرچے عام ہونے لگتے ہیں اور مستقبل میں ایک باب کے اضافے کی خوش آمدیدسی لگتی ہے اور وہ خیال الحمد للہ آج مبنی برحق دیکھا جارہا ہے،آپ کا لگایا پودا آج غیروں اور گوروں کو اسلامی شربت اور مسلمانی خوراک بیہم پہنچا رہا ہے ،سچ پوچھیئے تو آپ کی نیک اور صالح اولاد آپ کے لیے ایک صدقہ جاریہ سے کم نہیں ہے۔
عن ابی ہریرہ اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلثہ الا من صدقتہ جاریتہ او علم انتفع بہ اوولدصالح یدعولہ(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان جب مرجاتا ہے اس کے عمل کا سلسلہ اس سے ختم ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے
- (۱)صدقہ جاریہ
- (۲)وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاۓ
- (۳)صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا اور صدقہ وخیرات کرے
ملک سے دور بیٹے مفتی یاسر ندیم کے پاس حاضر ہوکر آپ آج رب کے حضور جا پہنچے جہاں پہنچنے کی ہماری سکت ہے اور نہ ہی ہمیں تین مٹھی مٹی سے آپ کے احسان چکانے کا موقع میسر ہے لیکن روزمحشر کی ملاقات ،بہشت بریں کی رفاقت اور دیدار نبی کی رقابت پر مکمل یقین ہے جہاں آپ کے ساتھ جام کوثر سے ضرور تشنگی کو سیرابی بخشیں گے
فی الوقت فانی بدایونی کے سہارے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ
مآل سوز غم ہاۓ نہانی دیکھتے جاؤ
بھڑک اٹھی ہے شمع زندگانی دیکھتے جاؤ
وہ اٹھا شور ماتم آخری دیدار میت پر
اب اٹھا چاہتی ہے نعش فانی دیکھتے جاؤ
سنے جاتے تھے نہ تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ