ڈاکٹر ظفرکمالی کا تصنیفی سرمایہ: تعارفی سلسلہ

ڈاکٹر ظفرکمالی کا تصنیفی سرمایہ: تعارفی سلسلہ

از:- امتیاز وحید

شعبہ اردو، کلکتہ یونیورسٹی

رباعیاں (۲۰۱۰ء):

ایک سو چوالیس صفحات اور تین سو چوراسی رباعیوں پر مشتمل مجموعہ ’رباعیاں‘۲۰۱۰ء میں عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دلی سے شایع ہوا۔ ’رباعیاں‘ میں حیات و کائنات کے متنوع اعباد پر مشتمل رباعیاں شامل ہیں۔حمد و نعوت سے شروع ہوکر اس میں تجربی اور نظری،اخروی اور دنیاوی،فکری اور تخیلاتی،حکمت و موعظت، ملک و ملت، عرفان و آگہی،اتحاد و یگانگت،صبر و استقلال، حماست و شجاعت، تعمیریت، انسانی عظمت اور وقار،علم و جہل،فقر و استغنا،مذہبی رواداری اور رفاہِ عامہ، مفلس و نادار اور داخلیت اور روحانیت پر محیط مضامین اور وسیع موضوعات کا شاعرانہ اظہار قابل توجہ ہے۔
مجموعے کی پہلی رباعی اس میں شامل بقیہ تمام رباعیوں کے سرنامہ کا درجہ رکھتی ہے:

جذبوں کو رباعی کی زباں دے دی ہے
جو پاس تھی وہ جنسِ گراں دے دی ہے
آواز مری کوئی سنے یا نہ سنے
دینی تھی مجھے میں نے اذاں دے دی ہے

زیر تبصرہ کتاب کا سرورق

یہ رباعی اس مجموعے کے مزاج اور اس کے مشمولات کا نقیب ہے۔ان رباعیوں میں جذبے جب شعری پیکر میں ڈھلتے ہیں توہماری ملاقات ایک ایسے ظفر کمالی سے ہوتی ہے جو عالمانہ طور پر باریک بیں، ژرف نگاہ، معاشرتی طور پر بیدار، ملک وملت کا ہمدرد،انسانی سوز سے لبریز، مسرت کا جویا اور غم کا رفیق،نوجوانوں کا دوست اور غم خوار، بے ہمتی کو للکارنے والا،ایمان و اعتقاد میں راسخ، جہالت سے گریزاں، شہرت سے بے زار، حق کا طرف دار،بے سروسامانی سے لڑنے والا،جوشِ عمل سے چٹّانوں سے ٹکرانے والا،ذوقِ سفر سے آشنا اور شعورِ ہستی سے آگاہ ہے۔ظفر کمالی نے اخلاقیات اور انسانی شرافت کا جو سبق پڑھا ہے،اس کی گہری چھاپ مجموعے میں شامل تمام رباعیوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان میں فن کار کی وسعتِ فکر کہیں بھی سطحی فکر اورارزاں خیال بندی پر قانع نہیں ہوتی بلکہ جذبے آبشار کے مانند عُلوے تخیل سے انسانی سوز میں اترتے چلے جاتے ہیں۔حماست اور تشجیعی مضامین سے چند رباعیاں دیکھیں:

جو وقت کے ماتھے کی شکن دیکھتے ہیں
کب روح میں اپنی وہ تھکن دیکھتے ہیں
رہتے ہیں سدا جوشِ عمل سے لبریز
ظلمت میں بھی سورج کی کرن دیکھتے ہی

چٹّانوں سے ٹکراتا کے نکلتا دریا
ہر گام پہ بل کھاتا مچلتا دریا
ہے جوشِ عمل دل میں اگر ساتھ چلو
انسانوں سے کہتا ہے اچھلتا دریا

گرداب میں مستور ہے منزل کا نشاں
پرواز کی حد میں ہے ہر اک کاہکشاں
تیشہ ہے اگر ہاتھ میں تو کیا ہے پہاڑ
منجدھار کنارا ہے جو ہمّت ہے جواں

ان رباعیوں کے تیور، فکر، ان میں پوشدہ زندگی کی حکیمانہ ہنرمندی، جذبے کو صیقل کرنے کی للک اور ہمّت کو نشانِ منزل بنانے کا حوصلہ قابلِ غور بھی ہیں اور قابلِ داد بھی۔رباعی کو محض استادانہ مقدرت اور فتوحات کی جولانگاہ بنانے میں یقین رکھنے والوں کے لیے ظفرکمالی کی ان رباعیوں میں امکانات کی ایک نئی فضا ملے گی۔
بسااوقات فکرِ کمالی کو حیرتی بنانے میں مستعمل لفظیاتی نظام کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ خیال نے لفظوں کی انجمن سجائی ہے یا لفظیاتی اساس کے سہارے علوے فکری کی عمارت گھڑی کی گئی ہے۔یہاں ظفرکمالی کی فکر اور فنی ریاضت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو:

کہتا ہے زمانہ جنھیں مقہو‘ر کے ہاتھ
وہ ہاتھ نہیں ہوتے ہیں مجبو‘ر کے ہاتھ
سرکارِ دو عالمﷺ نے انھیں چو‘ما ہے
چو‘ مو کہ ہیں یہ بندۂ مزدو‘ر کے ہاتھ

مذہب بے زار اشتراکی فلسفہ غربا پروری اور اس کے مکروہات سے واقف اہلِ نظر ظفرکمالی کے فکری سیاق اور لفظیاتی دروبست کوانقلاب و تغیرات کے نام پرکھن گرج سے بھرپور لفظیاتی نظام کے متوازی رکھ کر دیکھیں توفکر اور فن دونوں سطحوں پر حرمت اور ہزیمت کے سارے پہلو آئینہ ہوجائیں گے۔خیالات مطّہر،لفظیات سادہ، سیاق مقدس، قوافی خوب، ان تمام حمائد کا عکس اس رباعی میں درآیا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔