لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کی تباہی ہو یا پھر سعودی عرب میں طوفان اور ہم مسلمان !!
✍️ یحییٰ خان
6 جنوری سے امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی جنگلات کی آگ سے نقصانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک دو درجن سے زائد ہلاکتوں کی اطلاع ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان جنگلوں اور شہرکے پالتو جانور ہلاک ہوچکے ہیں یا زخمی یا پھر وہاں سے فرار ہوئے ہیں۔ ان واقعات کے لرزہ خیز مناظر پر مشتمل ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
گذشتہ ہفتہ سعودی عرب کے مختلف مقامات بشمول مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں آئے شدید طوفان کے ویڈیوز بھی وائرل ہوئے تھے ۔ان دونوں آفات سماوی کےخلاف یہ لکھا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب / قہر ہے۔کیونکہ ان کے مطابق سعودی حکمراں اسلامی ملک کی حرمت کو متاثر کر رہے ہیں تو لاس اینجلس کی آگ اللہ کا قہر ہے کیو نکہ فلسطین / غزہ میں مچائی گئی تباہی اور ہزاروں بے گناہ معصوم افراد کی شہادت میں امریکہ بھی ملوث ہے۔!!
سوشل میڈیا کے تقریبا” تمام پلیٹ فارمز پر ایسے ویڈیوز اور Reels بڑے پیمانے پر وائرل / فارورڈ کی جا رہی ہیں جس میں قرآنی آیات، علماء کرام کے بیانات کے حصے یا پھر اس میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لاس اینجلس پر اللہ کا قہر /عذاب ہے کیونکہ امریکہ غزہ کے معصوم شہریوں کی شہادت اور وہاں کی تباہی میں ا س ر ا ئ ی ل کا ایک حصہ تھا اور اس کی مدد کر رہا ہے۔
جبکہ امریکہ ، لاس اینجلس اور کئی مغربی ممالک میں فلسطین کی تائید میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوچکے ہیں
24 جون کو لاس اینجلس میں مخالف ا س ر ا ئ ل ریالی منعقد کی گئی تھی، بعدازاں صہیونیوں اور احتجاجی عوام کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی)
اس سلسلہ میں کل شام میرے ایک رہنما ،مذہب، سیاست ، ادب کے علاوہ سوشل میڈیا پر عبور رکھنے والے قریبی دوست سے گفتگو ہوئی کہ کیا مسلمانوں کی یہ خوشی بحیثیت مسلمان اور ایک انسان واجبی ہے ؟؟
تو ان کا جواب تھا:
” جو بھی عذاب یا قدرتی آفات آتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیشین گوئی کرنا یا من مانا یا یکطرفہ نتیجہ اخذ کرنا ۔۔۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق ، درست عمل نہیں ہے۔ کیونکہ وجہ صرف اور صرف اللہ جانتا ہے ۔۔ اور بندے اللہ کی مرضی پر اپنے قیاسات کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔
ہاں ایسے واقعات عبرت و نصیحت کے لیے شیئر کیے جا سکتے ہیں وہ بھی یہ کہتے ہوئے کہ: اللہ ہم کو ایسی آفات اور عذاب سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ کے ہی بتائے گئے راستے پر ثابت قدم رہیں اور صراط مستقیم سے نہ بھٹکیں ۔۔۔۔ وغیرہ ”
” اس طرح کا دینی رجحان بنانے کے بجائے ہم ہی سانحات پر خوش ہونے اور دوسروں کو کوسنے بیٹھ جائیں تو ۔۔۔۔ اسلام کبھی آگے پھیل نہیں سکتا بلکہ اسلام کے خلاف ہی لوگوں کی سوچ بنے گی !! "
تو میرا جواب صرف اتنا تھا کہ : مسلمان کبھی بھی سنگ دل، ظالم نہیں ہو سکتا اور نہ انسانوں اور جانوروں کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی منا سکتا ہے !!
زیادہ تر افراد کو یہ گمان ہے کہ لاس اینجلس میں سب سے زیادہ یہودیوں کا نقصان ہوا ہے! جو کہ ان کی کم علمی کا سبب ہے کیونکہ وہاں عیسائیوں، لا مذہبوں کے علاوہ مسلمان، ہندو ، بدھ اور یہودی آبادی بھی موجود ہے۔
کسی ہالی ووڈ ہیرو کا اربوں روپئے کا مکان راکھ میں تبدیل ہوا ہے جو فلسطین پر بمباری کے حق میں ٹوئٹ کرتا تھا جو کہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے!! بالآخر روز ٹی وی پر غزہ کی تباہی پر خوشیاں منانے والا اپنی اس تباہی کے بعد وہاں کے ایک نیشنل نیوز چینل پر روتا ہوا نظر آیا۔یہ بھی سچ ہے کہ ایسے کئی لوگ وہاں رہے ہونگے! لیکن چند لوگوں کی اس کرتوت اور ان کی بربادی پر جشن منانے سے قبل دیگر لاکھوں افراد کی تباہی پر بھی دھیان دینا لازمی ہوتا ہے۔!!
ویکیپیڈیا کے مطابق لاس اینجلس 140 سے زائد ممالک کے لوگوں کا گھر ہے جو 224 مختلف شناخت شدہ زبانیں بولتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے مطابق :
امریکی ریاست کیلیفورنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ 2023 تک شہر کی حدود میں ایک اندازے کے مطابق 3,820,914 رہائشیوں کے ساتھ، یہ نیویارک کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جو جنوبی کیلیفورنیا کا تجارتی، مالیاتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔
لاس اینجلس میں بحیرہ روم کی آب و ہوا اور نسلی اور ثقافتی لحاظ سے متنوع آبادی ہے، اور یہ 13.2 ملین افراد پر مشتمل میٹروپولیٹن شماریاتی علاقہ کا اہم شہر ہے۔ گریٹر لاس اینجلس، جس میں لاس اینجلس اور ریور سائیڈسان برنارڈینو میٹروپولیٹن علاقے شامل ہیں، 18 ملین سے زیادہ رہائشیوں کا ایک وسیع شہر ہے۔
2014 کی رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس کی 65 فیصد آبادی عیسائی ہے۔
- جن میں کیتھولک 32 فیصد۔
- پروٹسنٹنٹ 30 فیصد اور 3 فیصد دیگر عیسائی شامل ہیں۔
- وہیں 25 فیصد لا مذہب۔
- یہودی تین فیصد ۔
- مسلمان 2 فیصد ۔
- بدھسٹ 2 فیصد۔
- ہندو ایک فیصد اور دیگر ایک فیصد ہیں۔
لاس اینجلس کے موجودہ حالات :
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی جنگلات کی آگ سے نقصانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام نے مزید ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آگ کے سبب اموات کی تعداد 24 ہو گئی ہے۔ لاس اینجلس میں چار مختلف مقامات پر لگنے والی آگ سے لگ بھگ 16 ہزار ہیکٹر رقبہ متاثر ہو چکا ہے۔
اب تک لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق اس آگ سے لگ بھگ 135 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر کے نقصانات ہو چکے ہیں۔
حکام نے آگ سے انتہائی پر تعیش اور مہنگے گھروں سمیت لگ بھگ 12 ہزار املاک کے نذرِ آتش ہونے کی تصدیق کی ہے۔آگ سے متاثرہ علاقوں سے ڈیڑھ لاکھ آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
ریاست کیلی فورنیا میں آگ مسلسل تباہی پھیلا رہی ہے اور چھ دن گزرنے کے باوجود اس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔مقامی حکام بھی اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آگ اور بھی پھیل سکتی ہے جس سے مزید گنجان آبادی والے علاقوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔
حکام کے مطابق آگ پھیلنے سے لاس اینجلس کے مزید اہم مقامات کو نقصان پہنچے گا جن میں اس کا میوزیم بھی شامل ہے۔ اس میوزیم میں کئی مشہور فن پارے موجود ہیں۔ لاس اینجلس کی سرکاری جامعہ ’یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا‘ بھی اس آگ کی زد میں آنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔