مطالعہ معاشرتی حیثیت کا آئینہ دارِ

مطالعہ معاشرتی حیثیت کا آئینہ دارِ

از:- محمد ناصر ندوی

پرتاپگڑھی، امارات۔

ہم ایک ایسے دور کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں روز بدلتے حالات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن ہماری بے بسی کا یہ حال ہے کہ ہم وقت کے ساتھ خود کو تبدیل ہونے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور کا تقاضہ جدید لوازمات زندگی ہیں، لیکن علم کے بغیر انسان کی شخصیت ادھوری اور زندگی بے رونق بلکہ بے سود ہے،علم انسان کو قیمتی بناتا ہےاور انسان کا وفادار ساتھی ہے،عربی زبان کے نامور شاعر متنبی کے ایک شعر کا مصرع ہے:’’ وَخَيْرُ جَلِيْسٍ في الزَّمانِ كِتابُ‘‘ کہ زمانہ میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔
طلب علم کے معاملے میں ہمارا تعلق جو کتابوں کے ساتھ استوار تھا، وہ اب تیزی کے ساتھ ماند پڑتا جارہا ہے،اس کی جگہ آج سوشل میڈیا اورسمارٹ فون نے لے لی ہے، جس سے دانستہ یا نادانستہ ایک بے ہنگم معلومات کا انبار ہمارے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے، جس کا ہمیں فائدہ تو کم ہی ملتا ہے،مگر نقصان زیادہ پہونچ رہا ہے،اور پھر کتاب تو ہمیں ایک حوالہ مہیا کرتی ہے جو ہم اپنی گفتگو میں کسی کے سامنے بیش کرسکتے ہیں، جب کہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات پر اعتماد نہیں کیا سکتا کہ کسی وقت بھی ڈیلیٹ یا تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
کتابوں کا مطالعہ ہماری عقل وسمجھ میں پختگی اور وُسعت پیدا کرتا ہے
ایک وقت تھا جب لائبریریاں کتابوں اور پڑھنے والوں سے بھری ہوتی تھیں،لوگ درسی اور غیر درسی کتب کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے تھے،سوسائٹی میں ایسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،اور لوگوں کو ان سے تعلق رکھنے میں فرحت محسوس ہوتی تھی،ان سے مشورے کئے جاتے تھے ،ہہت سے لوگوں کو کتابوں کے حصول کا شوق اور کتابوں سے حد درجہ عقیدت تھی، اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم امام ابن الخشابؒ (متوفی: ۵۶۷ھ) کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب پانچ سو درہم میں خریدی، قیمت ادا کرنے کےلئے کوئی چیز نہ تھی، لہٰذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہوکر مکان بیچنے کا اعلان کیا، اور مکان بیچ کر کتاب کی قیمت ادا کی (ذیل طبقات الحنابلۃ،ج:۲، ص: ۲۵۱)۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ بچے بھی گھر سے ذاتی خرچ کےلئے ملنے والے پیسوں میں سے پس انداز کرکے اپنی پسندید کی کتابیں خرید کر پڑھتےاور اپنی الماریوں میں سجاتے تھے،اور یہ کلچر عام ہوچکا تھا کہ ایک دوسرے کو تحفہ میں کتاب پیش کرتے کیا کرتے تھے،کوئی ایسا گھر شریفوں کا نہیں سمجھا جاتا تھا جہاں کتابوں کی الماری نہ ہو،گویا کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نےکتابوں اور کتب خانے سے تطہیرِ قلب ونظر اور تزکیۂ ذہن وفکر کے علاوہ آرائشِ مکین ومکان کا بھی کام لیاہے، مسلمانوں میں کتب خانوں کی اہمیت اس حد تک تھی کہ کتابوں کا وجود رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا، لڑکیوں کے جہیز میں کتب خانے دیئے جاتے تھے، گویا نکاح شرعی اور سماجی ضرورت کے ساتھ علمی ضرورت بھی بن گیا تھا، چنانچہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۲۳۸ھ) نے سلیمان بن عبد اللہ زغندانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ ۲۲۱ھ) کی بیٹی سے شادی اس لئے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۲۰۴ھ) کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا۔ (أنساب للسمعاني:۶/۳۰۶)۔
کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے؛ بلکہ انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والی قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی ناہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے، جب انسان گردشِ زمانہ، زندگی کے تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی اور ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آجاتا ہے، اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھتا اور اس میں نکھار پیدا کرتا ہے،اور اپنی اچھائی اور برائی سے باخبر ہونے لگتا ہے۔
لیکن اس ٹیکنالوجی نے ایسی کایا پلٹی کہ جدید آلات نے کتابوں کی جگہ قبضہ جمالیا، اور ہمیں مطالعہ سے دور کرکے ذہنی غلامی کا شکار بنالیا ۔
مطالعہ تو روح کی غذا ہے، جیسے جسم کو توانا اور تندرست رکھنے کےلئے اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح روح کو سیر کرنے میں مفید مطالعہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے علماء اور بزرگوں کا کتب بینی سے گہرا رشتہ رہا ہے، یہ بات بہت عام ہے کہ بعض علماء پوری پوری رات مطالعہ میں گزار دیتے تھے، ابھی ماضی قریب کے ایک بزرگ عالم ربانی مولانا شبیر عطاء شاہ ندوی سلونی رائے بریلوی رات رات بھر مطالعہ میں گزار دیتے تھے،ایک مرتبہ تکیہ کلاں رائے بریلی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور رات کا قیام فرمایا ،عشاء کے کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر ایک لالٹین لےکر مہمان خانہ کی بالائی منزل پر چلےگئے ،اورپوری رات مطالعہ میں گزار دی۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی دُعا قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔ "رَب زدنی علما "(اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما) یہ دعا ہمیں اس فکر و تدبر کی طرف دعوت دیتی ہے کہ آپ ﷺ نے علم کے اضافے کی دعا فرمائی ہے تو ہمیں بھی اس اضافہ کےلئے سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔
اَب سوال یہ ہے کہ کن علوم کا مطالعہ کیا جائے؟ جس کا جواب یہ ہے کہ جو آپ کا اپنا ذوق ہے اس کے مطابق مفید علوم پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید اور سیرت رسول ﷺ کے مطالعے کو اپنی عادت بنائیں، آپ ﷺ اور آپ کی چیدہ جماعت کے اُسوہ کو آج کے دور میں رہنمائی کا واحد ذریعہ سمجھ کر قوم کی ترقی کا سبب بنیں، پھر اس کے علاوہ جو بھی مطالعہ کریں اس میں مثبت سوچ کو اپنائیں، تاکہ ہمارے ذہن میں وُسعت نظری پیدا ہو،قوت برداشت اور گفتگو میں شائستگی آئے، ایسی کتابوں کا انتخاب کریں جن میں قوموں پر آنے والے عروج و زوال کے اسباب اور وجوہات دریافت ہوسکیں،اور مخاطب سے دلیل کے ساتھ گفتگو کرنے کے قابل بن سکیں۔
"حصول علم ہے ہر اک فعل سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر”۔

*قابل مطالعہ کتب کی خصوصیات*
مطالعہ ایسی کتابوں کا ہو،جو نگاہوں کو بلند، سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت ، علم میں گیرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہوتو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہاجائے گا،اور ایسا مطالعہ انسان کی زندگی سنوار دے گا ۔
مطالعہ کےلئے منتخب کی گئی کتابوں کا معیار ایسا ہوکہ:
1۔ جس سے ہماری اسلامی تربیت اور ذہن سازی ہو۔
2۔ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکیں۔
3۔ ظلم کے نظام کو سمجھ سکیں، اس سے بچنے کی تدبیر کرسکیں،
4۔ اخوت،رواداری،ہمدردی اور بڑوں کے ادب کی اہمیت سمجھ سکیں۔
5۔ ملک کی آزادی کا صحیح مطلب سمجھ سکیں، اور ترقی کا شعور پیدا ہوسکے،
6،ایسی کتابیں مطالعہ کی جائیں جن سے تجارت کے اسلامی طریقے معلوم ہوسکیں، تاکہ معاشرے کو دھوکہ ،بددیانتی اور فریب کاری سے محفوظ رکھنے کا بھروسہ پیدا کیا جاسکے۔
6۔ ایسی کتب جن سے ہم اولیاء اللہ اور علمائے ربانیین کی جد وجہد اور ان کی مساعی جمیلہ سے روشناس ہو سکیں۔
7۔ ملک کو آزاد کرانے والوں کی تاریخ اور اس مخلص قیادت سے واقف ہوسکیں، جس نے قوم کی آزادی اور ترقی کےلئے تن من دھن کی بازی لگادی، اور ملک کو آزاد کرانے میں اہم کردار کیا،اور عملی جدو جہد سے ملک کو بام عروج تک پہونچایا۔
مطالعہ سے پہلے ہمیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ ہم اس سے کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں، جس موضوع کا انتخاب کریں، اس پر محققین کی کتابوں کی فہرست بنائیں، پھر ان کتابوں کا مطالعہ کریں،اور پڑھنے کے ساتھ نوٹ بھی تیار کریں،ایک عام آدمی کو انہیں کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جو اس کی مثبت ذہن سازی کرسکیں، جذباتیت کو مثبت سمت دے سکیں، تاکہ نوجوان معاشرے میں مفید کردار ادا کر سکیں۔
یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ اس خیال سے مطالعہ کو ہرگز ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یاد نہیں رہتا؛ بلکہ مطالعہ ضرور کرے کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور ظاہر ہوتا ہے؛ اس لئے کہ مہندی میں سرخی پتھر پر بار بار گھسنے کے بعد ہی آتی ہے۔
آج ملک مصائب ومشکلات سے دوچار ہے، جس سے نجات کےلئے رہنمائی کا کوئی سازگار ماحول میسر نہیں ہے، اور نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ سائنسی ذہن کا عروج ہے ،جو بغیر دلیل و ثبوت کے ماننے کےلئے تیار نہیں، نوجوانوں کی اس پہلو سے درست رہنمائی کی سخت ضرورت ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ان طاقتوں کا آلۂ کار نہ بننے پائیں جو انہیں اپنے مفاد کےلئے استعمال کرکے ضائع کر رہے ہیں۔
ایسے علم کے حصول سے دور رہیں جو کسی کو فائدہ نہ دے سکے، ایسے علم سے آپ ﷺ نے پناہ مانگی ہے، ایسے علم شیطانی وسوسوں کا بیش خیمہ بنتے ہیں اور حق کی پہچان میں رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں ،آج مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں صحیح راستہ کی پہچان کا طریقہ کار معلوم نہیں ہے۔
مطالعہ انسان کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے ،اور دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے
بہرحال! انسان کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنا چاہئے ،ورنہ اندر سے خالی ہوتا جائے گا،اور خیر وشر کے امتیاز کے بغیر دوسروں کی نگارشات ہی شئیر کرنے پر اکتفا کرے گا،جو لوگ مطالعہ کر رہے ہیں ،وہ تحسین کے مستحق بن رہے ہیں ،اور اپنے مطالعہ سے خود کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں، اور دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
وقت اللہ کی بڑی نعمت ہے، اس کو ضائع کرنا ایک طرح کی خودکشی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ خودکشی ہمیشہ کےلئے محروم کردیتی ہے اور تضییع اوقات ایک محدود زمانے تک زندہ کو مردہ بنادیتا ہے،جب تک انسان کی طبیعت، دل ودماغ نیک اور مفید کاموں میں مشغول نہ ہوگا اس کا میلان ضرور بدی اور معصیت کی طرف رہے گا، پس انسان اسی وقت صحیح انسان بن سکتا ہے جب وہ اپنے وقت پر نگراں رہے، ہر کام کےلئے ایک وقت اور ہر وقت کےلئے ایک کام مقرر کرے،اگر کسی سے کہا جائے کہ آپ کی عمر میں سے دس پانچ سال کم کردئیے گئے ہیں تو یقینا اس کو سخت صدمہ ہوگا؛ لیکن وہ معطل بیٹھا ہوا خود اپنی عمر عزیز کو ضائع کررہا ہے، مگر اس کے زوال پر اس کو کچھ افسوس نہیں، انسان کی کامیابی کا واحد علاج یہی ہے کہ اس کا وقت فارغ نہیں ہونا چاہئے۔
ہمیں چاہئے کہ پڑھنے لکھنے کا مزاج بنائیں، تاکہ خود بھی ٹھوکر کھانے سے محفوظ رہیں،اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھ سکیں ،جو لوگ مطالعہ کا زیادہ وقت نہیں نکال سکتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ روزانہ کسی معتبر اور مفید کتاب کا پابندی کے ساتھ صرف 10 منٹ ضرور مطالعہ کیا کریں ،دل چاہے یا نہ چاہے وقت متعین کریں اور مطالعہ کی عادت ڈالیں،تھوڑی ہی مدت میں اپنی شخصیت میں تبدیلی محسوس ہونے لگے گی،اپنی نظروں میں اپنی قدر ومنزلت بڑھے گی،دل کی دنیا بدلنے لگے گی،اور زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی بنتا جائے گا،پہلے دوا کے طور مطالعہ شروع کریں، ان شاء اللہ جلد غذا بن جائے گا،کیونکہ:

"سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر”

مطالعہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی کا رخ متعین ہوجائے گا، شخصیت میں نکھار آئےگا ، اخلاق میں ترقی کردار سے ظاہر ہونے لگےگی، اور زندہ رہنے کا "گر” اور زندگی گزارنے کا سلیقہ معلوم ہوگا،مطالعہ انسان کی ترقی کا ضامن ہے ،اسے اوج کمال تک پہنچاتا ہے،اور معاشرہ میں انسان کی حیثیت کا آئینہ دارِ ہے۔
علم کا اصل منبع اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے، اگر ہم اس کے علم سے کچھ حصہ سیکھ جائیں تو انسانیت کو اس سے فائدہ پہنچنا چاہئے تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع عطا فرمائے ،اور دوسروں کی زندگی سنوارنے اور خوشگوار بنانے کےلئے ہمارا علم عام اور تام فرمائے۔

محمدناصر ندوی پرتاپگڑھی
دبئی متحدہ عرب امارت۔
11/1/2025

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔