آہ ڈاکٹر تابش مہدی پرتاپگڑھی بھی نہیں رہے !
از:- محمد قمر الزماں ندوی
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
ابھی کچھ گھنٹے پہلے سوشل میڈیا کے توسط سے یہ خبر ملی کہ
سرزمین پرتاپگڑھ کی اہم علمی شخصیت، متعدد کتابوں کے مصنف و مؤلف، رابطہ ادب اسلامی کے رکن رکین، جماعت اسلامی ہند کے فعال ممبر اور مشہور شاعر و ادیب جناب تابش مہدی صاحب پرتاپگڑھی حال مقیم دہلی، جو مولانا اجمل فاروق ندوی دہلی کے والد محترم تھے ،وہ بھی داغ مفارقت دے گے ۔
انا لللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا سے ندوہ میں متعدد بار ملاقات رہی اور بھی کئی پروگرام میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ، بہت خلیق ملنسار اور بااخلاق انسان تھے ، محبتی انسان تھے، امت کا درد رکھتے تھے، علماء اور اہل علم سے محبت کرتے تھے ،طبیعت میں سادگی اور ظرافت بھی تھے ،اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے حمد و مناجات اور ،نعتیہ اشعار بہت وجد کیساتھ اور بہت کیفیت کے ساتھ پڑھتے اور گنگاتے تھے ، رابطہ ادب اسلامی کے پروگرام میں ہمیشہ شرکت کرتے تھے اور اس کے پروگرام میں اپنا کلام یا بعض اساتین شعراء کا کلام بہت درد اور وجد کیساتھ پڑھتے تھے۔
میرا ان سے اچھا تعلق و ربط تھا ، پہلے فون پر بھی اکثر گفتگو ہوتی تھی ، ادھر جب سے ہم خود بیمار ہوگئے تو رابطہ کمزور ہوگیا تھا ، البتہ ان کی تحریریں پڑھتے رہتے تھے اور ان کا کلام برابر سنتے رہتے تھے ۔
میں نے علی گڑھ کے پروگرام میں اپنی کتابیں ان کو ہدیہ کیں، تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ تو اب پرتاپگڑھ کے ہی ہوگئے ہیں ۔ اس سرزمین کا خوب نام روشن کیجئے میری دعا آپ کیساتھ ہے ، وہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ، اور ان کو مہمیز لگاتے تھے۔
آج ان کی وفات کی خبر سن کر بہت افسوس اور صدمہ ہوا ، یقینا ان کی وفات سے علمی و ادبی دنیا کا نقصان ہوا ہے ۔
جناب تابش مہدی صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے رکن رکین تھے، اس کے باوجود وہ علمائے دیوبند اور علماء ندوہ سے بہت محبت کرتے تھے ، حسنی خاندان کے تو وہ گرویدہ تھے ، انہوں نے یہاں کے علماء اور اہل اللہ کی کتابوں سےاور خاص طور سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح کی کتابوں سے بھرپور استفادہ کیا، ان کا نکاح دیوبند کے عثمانی خاندان میں ہوا تھا، اس طرح دیوبند ان کا وطن ثانی بن گیا تھا، ان کی زندگی اور حیات و خدمات کو گرامی قدر جناب مولانا عماد قاسمی صاحب کریلا نے بہت خوبصورتی اور سلیقہ سے متعدد ذرائع سے اخذ اور مرتب کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے ، آپ بھی اس سے استفادہ کریں ۔ تاکہ مرحوم کی خدمات سے واقفیت ہو ۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
ڈاکٹر تابش مہدی صاحب 3 جولائی 1951ء کو پرتاپ گڑھ، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1964ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ پرتاپ گڑھ سے جونئیر پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا، 1966ء اور 1967ء میں بالترتیب تجوید و قراءت سبعہ انھوں نے مدرسہ سبحانیہ الہ آباد اور مدرسہ تعلیم القرآن حسن پور، مرادآباد میں حاصل کی۔
سنہ 1970ء میں انھوں نے عربی و فارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی (عربی)، 1978ء میں منشی (فارسی) اور 1980ء میں کامل (فارسی) کا امتحان پاس کیا۔ نیز 1971ء میں جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات (اردو)، 1977ء اور 1985ء میں بالترتیب جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر و ادیب کامل (اردو) کا امتحان کا پاس کیا۔ اخیر میں 1989ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) اور 1997ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے اردو تنقید میں پی ایچ ڈی کیا۔
۔
اساتذہ سخن
ان کے اساتذۂ سخن میں شہباز امروہوی (تلمیذ افق کاظمی)، بلالی علی آبادی (تلمیذ شفیق جونپوری)، سروش مچھلی شہری (شاگرد آرزو لکھنوی)، ابو الوفاء عارف شاہ جہاں پوری (تلمیذ ریاض خیرآبادی) اور عامر عثمانی شامل ہیں۔
نکاح اور اولاد
18 مئی 1979ء میں تابش کا نکاح دیوبند کے مشہور خطاط اشتیاق احمد عثمانی کی پوتی اور ممتاز احمد عثمانی کی بیٹی راضیہ عثمانی سے ہوا، جن سے ان کی سات اولاد ہیں، جن میں دو فرزند شاہ دانش فاروق فلاحی اور شاہ اجمل فاروق ندوی کے علاوہ چار دختران ثمینہ تابش صالحاتی، طوبیٰ کوثر صالحاتی، یمنیٰ کلثوم اور نعمیٰ کلثوم ہیں۔
تدریسی و عملی زندگی
-
تدریس
جولائی 1971ء میں تابش نے ابوالکلام آزاد کالج پرتاپ گڑھ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا جولائی 1973ء تک وہاں تدریسی فرائض انجام دیے، پھر جنوری 1974ء سے جون 1978ء تک دار العلوم امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور جون 1986ء تا اپریل 1990ء جامعۃ الفلاح بلریا گنج، اعظم گڑھ میں بہ حیثیت مدرس کام کیا۔ فی الحال اپریل 2018ء سے اسلامک اکیڈمی مرکز جماعت اسلامی ہند، دہلی میں فن تجوید و قراءت کی خدمت انجام دے رہے تھے۔
صحافتی زندگی
تابش مختلف اوقات میں پندرہ روزہ پیغام حق پرتاپ گڑھ، پندرہ روزہ اجتماع دیوبند اور ماہنامہ الایمان دیوبند کے مدیر؛ ماہنامہ گل کدہ سہسوان (بدایوں)، ماہنامہ ذکریٰ رامپور، ماہنامہ تجلی (دیوبند)، ماہنامہ زندگی نو (نئی دہلی) اور ماہنامہ ایوان اردو (دہلی اردو اکادمی) کے معاون مدیر اور ماہنامہ کتاب نما (دہلی) کے مہمان مدیر رہ چکے ہیں۔ نیز فی الحال اپریل 2002ء اور جنوری 2005ء سے بالترتیب ماہنامہ پیش رفت (دہلی) کے رکن مجلسِ ادارت اور سہ ماہی کاروان ادب (لکھنؤ) کے مشیر اعزازی و رکن مجلسِ ادارت ہیں۔
علمی و ادبی اداروں وابستگی
تابش نے جون 1991ء سے 3 جولائی 2009ء تک مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ نیز وہ ابوالکلام آزاد انٹر کالج پرتاپ گڑھ و ادارہ ادب اسلامی ہند کے رکن اساسی؛ عالمی رابطہ ادب اسلامی (ہند) اور دار الدعوۃ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن دہلی کے رکن؛ ادبیات عالیہ اکادمی لکھنؤ کے چیئرمین، ادارۂ ادب اسلامی ہند کے سابق نائب صدر، سہ ماہی کاروان ادب لکھنؤ کے مشیر اعزازی و رکن ادارت ہیں۔
قلمی و ادبی زندگی
تابش مہدی کی 55 مطبوعہ تصانیف ہیں، جن میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
شعری مجموعے
- نقش اول (1971ء)
- لمعات حرم (1975ء)
- سرود حجاز (1977ء)
- تعبیر (1989ء)
- سلسبیل (2000ء)
- کنکر بولتے ہیں (2005ء)
- صبح صادق (2008ء)
- طوبیٰ (2012ء)
- غزل نامہ (2011ء)
- مشکِ غزالاں (2014ء)
- رحمت تمام (2018ء)
- غزل خوانی نہیں جاتی (2020ء)
- دانائے سبل (2023ء)
- *تنقید*
- مولانا منظور نعمانی کی تصویر (1980ء)
- جماعت اسلامی حقیقت کے آئینے میں (1981ء)
- تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ (1983ء)
- تبلیغی جماعت اپنے بانی کے ملفوظات کے آئینے میں (1985ء)
- اردو تنقید کا سفر (1999ء)
- نقد غزل (2005ء)
- تنقید و ترسیل (2011ء)
- تجزیے
- صل علی صل علی (1992ء)
- میرا مطالعہ (1995ء)
- شفیق جونپوری – ایک مطالعہ (2002ء)
- رباب رشیدی – ایک سخن ور پیارا سا (2006ء)
- عرفانِ شہباز (2014ء)
- حالی شبلی اور اقبال (2017ء)
سفرنامہ
وہ گلیاں یاد آتی ہیں (2007ء)
کارہائے نمایاں
آبِ خضر (تذکرۂ شعرائے اڑیسہ)، لفظوں کا آکاش، اضافی تنقید، نئے تنقیدی مسائل اور امکانات
اعزازات
حضرت حسان ایوارڈ، کل ہند حمد و نعت اکادمی، دہلی (2005ء)
نشان اردو، اردو اکادمی نیپال (2013ء)
راسخ عظیم آبادی ایوارڈ، بہار اردو اکیڈمی (2013ء)
ایوارڈ برائے خدمات اردو، اردو اکادمی دہلی (2015ء)
علامہ اقبال عالمی ایوارڈ برائے شعر و ادب، اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا، (2021ء)
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ڈاکٹر تابش مہدی کی کامل مغفرت فرمائے، غریق رحمت کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، ان کے پسماندگان اور وارثین کو صبر جمیل عطا کرے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین ثم آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے