کیا جلسوں کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟؟
از:- ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
یوں تو پوری سال دینی جلسوں اور پروگراموں کاسلسلہ رہتا ہے ۔ البتہ رجب اور شعبان کا مہینہ آتے ہی جلسوں کا سیلاب سا امڈ پڑتا ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا مدرسہ اور مکتب اہنے یہاں جلسہ کرانے کو فخر سمجھتا ہے ۔ پیشہ ور مقرروں کو بلایا جاتا ہے۔ جن کا آمد و رفت کا خرچ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض مقرر تو باقاعدہ طے کر لیتے ہیں کہ اتنا روپیہ چاہیے ۔ دینی جلسوں میں بلانے کے لیے روپیہ لینا چاہیے یا نہیں یہ ایک الگ اور قابل غور مسئلہ ہے؟ ہاں! ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے خطیب عموماً اپنی خطابت کی زور آزمائی دکھانے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا سماج و معاشرے کی اصلاح و تربیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر حساس اور باشعور شخص کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مروجہ دین کے نام پر منعقد ہونے والے جلسوں کے زمینی سطح پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ جلسوں کا معاشرتی اصلاح اور دین کی درست تعبیر و تشریح میں کیا کردار ہے؟ عہد حاضر کا یہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اس پر سنجیدہ تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے سماج میں دین کی تبلیغ و اشاعت کے جو ذرائع اور وسائل ہیں ان میں جلسہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے ۔ جلسہ گاہ کو اتنا خوبصورت اور دلکش بنانے کی سعی کی جاتی ہے کہ اچھی خاصی رقم تو پنڈال کو آراستہ کرنے میں لگ جاتی ہے ۔ اس کے بعد کھانے کا نظم ، مقررین کا آمد و رفت کا خرچہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں اور لوازمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کل جلسوں میں اسراف کیا جارہاہے اور ان کا نتیجہ صفر ہے ۔ عوام اپنی اصلاح اور دین سیکھنے کی غرض سے کم بلکہ یہ دیکھنے آتے ہیں کہ کس نے جوشیلی اور جذباتی بیان کیا ۔ وہیں مقررین بھی عام طور پر عوام کو اپنی خطابت دکھاتے ہیں ۔ گویا دونوں کا ہی معاملہ بالکل بے سود اور عبث ہے ۔ سچ بات یہ ہے کہ اسی وجہ سے آج ہمارے سماج میں اس قدر جلسے ہورہے ہیں مگر ان کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔ ہمارے واعظین کو بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
ان روایتی جلسوں میں عموماً ایسی باتیں بیان کی جاتی ہیں جن کا تعلق اپنے نظریہ کی ترجمانی سے ہوتا ہے، یا پھر قرآن و حدیث کی تشریح اپنے مسلک کے مطابق کی جاتی ہے ۔ حقیقی اسلام کی تعلیمات نہ تو اس پیشہ ور مقرر کو پتہ ہوتی ہیں اور نہ ہی عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات بتائی جاتی ہیں۔ کیونکہ اگر یہ پیشہ ور مقررین ایسا کریں گے تو پھر ان کی شہرت و مقبولیت میں کمی واقع ہو جائے گی ،عوام واہ واہ نہیں کریں گے ۔ اس لیے اگر دوسرے لفظوں میں کہوں کہ رسمی جلسوں میں ہونے والی تقریروں نے جس طرح اسلام کی حقیقی روح کو مسخ کیا وہ واقعی غیر معمولی ہے اور اس کے منفی نتائج معاشرے پر مرتب بھی ہورہے ہیں ۔ پیشہ ور مقررین کیا کیا کہتے ہیں اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ حال میں سوشل میڈیا پر ایک صاحب کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا وہ اپنی بیان میں کہہ رہے تھے کہ غوثِ اعظم کو دست گیر اس لیے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ آسمان سے گرتے ہوئے چوتھے آسمان تک آیا، تو عوث اعظم نے اپنے ہاتھ کا سہارا دیا ( نعوذ باللہ من ذالک) یہ کس نے لکھا ہے؟ اور یہ بات کہاں سے آئی ہے؟ اس کی سند کیا ہے ؟ اس طرح کے بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ البتہ اس سوالوں کو نظر انداز کردیں تو سب سی بڑی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ملحد اگر یہ بات کہے کہ مسلمانوں کا خدا اتنا کمزور ہے کہ خود کو سنبھالنے کے لیے ایک انسان کا سہارا لینا پڑا، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟
اس لیے یہ بات کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے کہ آج ایک بڑا طبقہ جو نام نہاد مولویوں کا ہے ،اس نے اسلام کے نام پر سماج میں جو زہر گھولا ہے اور عوام کو دین و ثواب کے نام پر جن جن چیزوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دی ہےان میں بیشتر ایسی باتیں ہیں جن کا تعلق اسلام سے قطعی طور پر نہیں ہے ۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے آئے دن سوشل میڈیا پر ہماری نظروں سے ایسی باتیں گزرتی ہیں جنہیں پڑھ ، سن اور دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو اسلام عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے آیا تھا، جسے ہم آفاقی دین کہتے ہیں اس کے متعلق اب کیسی کیسی باتیں ہورہی ہیں ۔ در اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو اپنے حصار اور مسلک کی حدود میں رہ کر سمجھا اور وہی عینک لگا کر ہم نے اسلام کی تشریح کی ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام پر بیشتر اعتراضات ان فرسودہ اور روایتی باتوں کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں جن کا اسلام سے تو کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ انہیں مسلم سماج کا ایک بڑا طبقہ دین سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ اس کے خلاف ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار تک نہیں ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی فرد ان روایتی باتوں کے خلاف کچھ کہنے کی جسارت کرتاہے تو اس کی بات کو رد کردیا جاتاہے۔ کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کے متدین اور اصحاب فکر کو سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی ہوگی کہ اسلام کے نام پر جو غلط فہمیاں سماج میں پھیلائی گئی ہیں ان کا تدارک کیسے ہو اور اسلام کی سچی و حقیقی تصویر کو پیش کس طرح کیا جائے۔
سماج میں جلسوں کے اصلاحی اور مثبت تعمیری کردار کے متعلق کوئی بات یقینی طور نہیں کہی جاسکتی ہے ۔ جتنی تگ ودو سے ہمارے یہاں دین کے نام پر جلسوں کو منعقد کیا جاتاہے اگر اس کا ایک فیصد اثر سماج پر دکھنے لگے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سماج کی حالت خصوصا مسلم سماج کی حالت اس طرح خستہ نہیں ہوتی ۔ تعلیم سے لے کر دیگر تمام حساس شعبوں میں مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ یقیناً قابل تشویش ہے ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ قوموں میں انقلاب جذباتی بیانات اور غیر سنجیدہ لٹریچر کے فروغ سے نہیں آتا ہے، بلکہ انہیں ان کے مزاج و فطرت کے مطابق ایسے بیانات اور لٹریچر دیا جائے جس میں حقائق کا پہلو غالب ہو ، سنجیدگی اور متانت عیاں ہو۔ جو مواد سوچ و فکر کو مہمیز کرے اور سامعین و قارئین کو کسی مثبت ، تعمیری اور حساس نتیجہ کی طرف مائل کرے ۔ ان کے اندر تحت پیدا کرے ۔ اگر ہمارے سماج میں ان خطوط کی روشنی میں کام ہونے لگے تو یقین جانیے اس کے نتائج نہایت مُفید اور دور رس ہوں گے ۔ جلسوں کے انعقاد یا ان کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے لیکن ان کی اہمیّت اور سماجی حیثیت کو اسی وقت ہم کامیاب و کارگر بنا سکتے ہیں جب کہ ہم ان میں اسراف سے بچتے ہوئے کام کریں اور ایسے علماء و اصحاب علم کو مدعو کریں جن کا علم مستند ہو ۔ جن کا نظریہ معتدل اور متوازن ہو۔ ورنہ تو جلسے ہوتے رہتے ہیں اور دین کے نام پر لوگ خرچ کرتے رہتے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔
آج کے اس دور میں ہمیں ان مسائل اور مباحث کی طرف توجہ یقینی طور پر دینی ہوگی جن سے قومی و سماجی ہم آہنگی کی روایتیں مستحکم ہوتی ہوں ۔ سماجی انتشار کا خاتمہ ہر سطح پر ضروری ہے ۔ ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سماج میں دین کے نام پر کی جانے والی بے بنیاد اور غیر منطقی باتوں سے تشدد و تنگ نظری پیدا ہوتی ہے ۔ سماج کا امن و امان غارت ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذہب کی غلط تعبیر و تشریح تقریبا دنیا کے تمام مذاہب میں کی گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک طبقہ ہر مذہب میں ایسا ضرور مل جائے گا جو اپنی مرضی کے مطابق اپنے دھرم کو پیش کرتا رہا اور عوام کا استحصال مذہب کے نام پر ہوتا رہا ہے ۔ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کرنی ہوگی اور ان کے شر سے سے بچنا ہوگا ۔