قدم قدم پہ کوئی روشنی بکھرتی ہوئی

ماہنامہ الہادی کا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمبر: ایک گراں قدر علمی تحفہ

از:- امتیاز وحید

شعبہ اردو، کلکتہ یونیورسٹی

انبیا و رسل تو بہت ساری قوموں میں بھیجے گئے لیکن ان کے متبعین نے اپنے پیغمبروں کی توقیر و تمجید کا وہ معیار قائم نہیں کیا، جو مسلمانوں نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے غایت محبت اور عقیدت کے سبب سیرت نگاری کو باقاعدہ ایک خود مکتفی فن کے طور پر متعارف کرا کے کیا۔ اپنے رہبر سے شیفتگی کا عالم یہ ہے کہ مسلمانوں نے نبی مکرم کی ذات، روز و شب کے معمولات، گفت و شنید کی سلیقہ مندی، حرب و ضرب کی منصوبہ بندی ، امیال و عواطف، حسن سلوک، مہمات، دعوتی سرگرمیاں، حقوق کی پاسداری ، اپنوں اور بیگانوں سے معاملات، سراپا،ملبوسات، دینی اور روحانی امور بلکہ ان کی زندگی کی ایک ایک ساعت کو منشاۓ اسلام کی عملی تعبیر کے طور پر محفوظ کرلیا۔ یہ خوش بختی کس اور قوم کے حصے میں نہیں آئی۔ لہذا سیرت رسول سے عالم کو رشد و ہدایت فراہم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا جارہا ہے اور اب یہ تخصیص باقی نہ رہی کہ سیرت نگار صرف مسلمان ہی ہوگا بلکہ اس میں بڑی تعداد ان اہل قلم کی بھی ہے، جو مستشرق ہیں یا غیر مسلم ہندو یا کسی اور عقیدے کے حامل ہیں۔ البتہ مسلم اسکالرز کا ایک بڑا طبقہ نبی کریم کی ذات کو عقیدت و مودت کے ساتھ علمی اور منطقی طور پر سمجھنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ماہنامہ الہادی کے مدیر اخی المکرم مولانا ذکی احمد مدنی کا بیش قیمت تحفہ ملا تو یہ دیکھ کر جی خوش ہوا کہ حضرت والا نے نبی مکرم سے اپنی شیفتگی کے ساتھ اس خصوصی شمارے کو ایک خاص علمی رکھ رکھاؤ کا ترجمان بنایا ہے اور اسے منصوبہ بند طریقے سے اپنی تعلمی اور دعوتی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے امتیازات اور فیوض و برکات سے دنیا کو باور کرانے، سیرت النبی سے جوڑنے اور عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے وہ کئی عملی اقدامات کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے انھوں نے اپنی لایق اور فعال ٹیم کے ساتھ سیرت کانفرنس کے انعقاد کی مبارک طرح ڈالی ہے، جس میں ذی علم حضرات عوام الناس کے سامنے ہادی اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کے کارناموں کی روشنی میں دنیا اور اقوام عالم کے سامنے میں امن و آشتی اور عدل و انصاف کا علم بلند کرتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر مغرب کے نظام جبر اور اس کی مادہ پرست ذہنیت کے در پردہ ان کے انسانیت کش نظریات اور بوالہوس رویے کی قباحت کو تشت از بام کرتے ہیں۔ یہاں اس اعتراف کی اجازت دیجئے کہ الہدی انٹرنیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے سیرت النبی کی عملی کڑیوں کو جس منظم اور منضبط انداز میں مربوط کرنا شروع کیا ہے اور تفہیم سیرت کی عملی صورت پیش کی ہے، نفرت اور عناد کے موجودہ ماحول میں بہت پہلے سے اس کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی تاکہ نبی کریم کی ذات کی صحت مندی کو ہر خاص و تک پہنچایا جائے اور نبی اکرم کے روشن کردار کے تناظر میں برادران وطن کو یہ پیغام دیا جائے کہ نبی کا ہر امتی خیر کا نقیب ہوتا ہے اور شر اور بدی سے اسے کلیتاً بیر ہے اور یہ اس کے دینی دستور اور آئین کا حصہ ہے۔

سیرت کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ مولانا ذکی احمد مدنی حفظہ اللہ ہرسال ماہنامہ الہادی کا خصوصی نمبر ترتیب دیتے ہیں اور اہتمام کے ساتھ شائع کرتے ہیں، جلد دوم کی اشاعت میں امسال انھوں نے گزشتہ برس کی طرح سیرتِ پاک کے متنوع ابعاد کو موضوع بحث بنایا ہے اور قابل لحاظ تعداد میں ہر زمرے میں علماء اور دانشوروں کی تحریروں کو شامل کیا ہے۔ پہلا باب نبی مکرم کے خاندان ، حسب و نسب، پروش و پرداخت، ایام طفولیت اور عادات و خصائل، شادی، زوجہ، اولاد اور نبی کے سماجی مقام و مرتبہ اور اس کے تارو پود سے کلام کرتا ہے۔ سماجی حیثیت کے تعین قدر کے سلسلے میں مولانا ابوالقیس عبد العزیز مدنی کی تحریر شامل کی گئی ہے، جو تعمیر خانہ کعبہ میں تنصیب حجر اسود کے قضیہ سے متعلق نبی کریم کی مرکزی حیثیت کو سامنے لاتی ہے۔ شرع کی روشنی میں مکہ مکرمہ کے فضائل دوسرا باب ہے جبکہ تیسرا باب بعث نبوی اور دعوتی سرگرمیوں سے وابستہ مسائل و نتائج کا احاطہ کرتا ہے۔ چوتھا باب دعوت دین کی راہ کے مسائل و مشکلات پر روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس جادہ پر تیز گام قافلے کو مہاجرت جیسے کرب انگیز مرحلے سے کس طرح گزرنا پڑتا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت دین کا فریضہ کس قدر صبر آزما ہوتا ہے، زیادتیاں اور کلفتیں اس راہ کی آزمائشیں ہیں، نبی کریم کی قیادت میں یہ مرحلہ بھی سرکیا گیا ، جس کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کے لیے بیرون مکہ کی راہ بھی ہموار ہوئی ۔ پانچواں باب مکہ میں اسلام لانے والے اولین صحابہ اور صحابیات اور ان کے صلابت کرداری پر روشنی ڈالنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ چھٹے باب کو ان مباحث کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے جو نبی کی حیات،بعث اور دعوتی سرگرمیاں ، دعوتی مسائل و مشکلات اور مکہ میں مشرف بہ اسلام صحابی و صحابیات رسل کے ضمن میں پانچ ابواب پر محیط ہے۔ ان مباحث کی روشنی میں تعلیمات نبوی کو سامنے رکھ کر عصر حاضر کے سماجی و عالمی مسائل و مشکلات کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ میں زیر بحث شمارے کے چٹھے باب کو اس خصوصی پیش کش کا مغز متین خیال کرتا ہوں۔ اس زمرے کی تحریریں سیرت رسول کی روشنی میں اقوام عالم کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے، امن عالم کے ہدف کو حاصل کرنے، غیر مسلموں کے ساتھ ارتباط و تعامل، بین ادیان گفت و شنید کی راہ ہموار کرنے اور جنگ و حرب کی اخلاقیات کو عملی بنیادوں پر استوار کرنے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ نبی کریم کی سیرت کے بعض پہلوؤں کو مکی زندگی کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کو مستحسن خیال کیا جانا چاہیے کہ یہ تحریریں اک نوع کی کیس اسٹڈی ہیں۔
نبی کریم کی صاف و شفاف سیرت کے غیر معمولی مثبت اثرات کے متوازی بدخواہ اور بدی پسندوں کا ایک طبقہ ہے، جو کبھی حرمت قرآن کے درپہ ہوتا ہے تو کبھی سیرت رسول پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ ان مذمومات کے تدارک کے لیے اس شمارے کے چھٹے باب کو توجہ سے پڑھنا چاہیے ۔ یہ دفاع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے لیے درکار وسائل اور طریقہ کار سے بحث کرتا ہے جبکہ آٹھواں باب تعلیمات نبوی کی روشنی میں خواتین کے متنوع مسائل سے کلام کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا سب سے روشن اور درخشندہ پہلو نبی مکرم کا اخلاقی نظام ہے۔ یہ ظاہر ہے اس شمارہ کا اہم ترین باب ہے۔ سیرت النبی کا کوئی آفاقی تصور نبی کی اخلاقیات کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا اس باب میں نبی کی امانت داری، ایفائے عہد ، خاطی، مخاصمین، بدو، جہلا، سن رسیدہ بزرگ, مہمان اور میزبان، پڑوسی، فقرا و مساکین، اغنیا، اور جانوروں کے ساتھ نبی مکرم کے حسن سلوک پر مبنی تفصیلی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ وما ارسلناک آلا رحمۃ للعالمین کی تفسیر و توضیح پر باقدہ مضمون کی شمولیت نے اس باب کی کیفیت و کمیت کو دوچند کردیا ہے۔ یہ باب بھی اس شمارہ کا زیور ہے، جو اسلام کے مطلوبہ اخلاقی نظام کو عملی بنیادوں پر سامنے لاتا ہے۔ مغرب میں فلسفہ اخلاقیات کا دائرہ بطور خاص کانٹ کا فلسفہ اخلاق اسلام کے عملی نظام اخلاق کی تاب لانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ وہاں سب کچھ نظری ہے جبکہ یہاں سب کچھ عملی۔
مولانا فضل اللہ سلفی کی "رسول کی امیت، معنی و مطلب قبل از نبوت و بعد نبوت” بھی اہم اور اپنے پہلو کی تفہیم میں قابل توجہ مضمون ہے۔
عالم انسانیت پر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں احسان کے بدلے مسلمانوں کا لازمی حق ہے کہ وہ نبی پر درود و سلام بھیجیں۔ الھم صلی علیہ وسلم۔
اس شمارہ میں شامل تمام تحریریں اہم ہیں۔ اس بنیادی سبب یہ ہے کہ محررین کا طبقہ بالعموم اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوئی بھی تحریر ممکنہ حوالوں کی چھان پھٹک کے بغیر شمارے کا حصہ نہیں بننے پائی ہے۔ یہی شامل شمارہ مضامین اور مقالات کا اصل جوہر ہے۔
میں سیرت نگاری کی شمع روشن کرنے والے بڑے شفیق و مہربان بھائی مولانا ذکی احمد مدنی اور ان کی لایق ٹیم کو اس کار خیر کے لیے دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ مرحلہ شوق طے نہ ہو اور وہ اسی ذوق و شوق کے ساتھ سیرت النبی کا گن گانے کرتے رہیں۔ مجھے ان پر رشک آتا ہے۔

تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔