سودی معیشت کے نقصانات اور اسلامی حل
از:-؛ ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
اسلام نے انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ یہ رہنمائی صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ معاشی نظام، اخلاقیات، انصاف، اور اخلاقی اصولوں پر بھی محیط ہے۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ سود (ربا) ایک مہلک برائی ہے جو معاشرتی، اخلاقی، اور معاشی فلاح کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ سودی نظام کے ذریعے دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے، اور باقی معاشرتی طبقات غربت اور عدم مساوات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سود کو ختم کر کے معاشی عدل اور انصاف کو فروغ دیا جاتا ہے، جو اسلامی بینکاری کے اصولوں کی بنیاد ہے۔ اسلام نے افراد کو خود انحصاری، دیانتداری، اور محنت کی ترغیب دی ہے تاکہ معاشرے میں اقتصادی انصاف قائم رہے اور لوگوں کے درمیان روابط مضبوط ہوں۔
سود کی شریعت میں تعریف کسی بھی قرض کے بدلے اضافی رقم لینے یا دینے سے ہوتی ہے، جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ سود میں قرض خواہ کو نفع پہنچتا ہے، جبکہ مقروض پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، جس سے معاشی استحصال اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے: "اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے”(البقرہ: 275) سود انسانی معاشرتی نظام میں عدم مساوات کو جنم دیتا ہے، کیونکہ یہ دولت کے ارتکاز کو چند افراد یا اداروں تک محدود کر دیتا ہے، جس سے غریب اور کمزور طبقات پس کر رہ جاتے ہیں۔ اس سے غربت، بے روزگاری، اور معاشرتی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ سود انسانی کردار پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے کیونکہ اس میں محنت اور کوشش کی کوئی جگہ نہیں رہتی، بلکہ فائدہ بغیر کسی محنت کے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ نظام اخلاقی گراوٹ اور حرام ذرائع سے دولت جمع کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ لہٰذا، سودی نظام سے بچنا مسلمانوں کی اقتصادی ترقی، سماجی انصاف، اور روحانی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلامی بینکاری اور دیگر متبادل مالیاتی نظام اس چیلنج کا ایک مؤثر حل پیش کرتے ہیں تاکہ معاشرتی انصاف اور برابری کو فروغ دیا جا سکے۔
سود ایک ایسی لعنت ہے جس نے ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان بھی اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ مال حرام ہے یا حلال۔ آج کے اس پرفتن دور میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سود کے نقصانات سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کے عملی اقدامات پر غور کریں۔ ہمیں چاہیے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسے اقدامات کریں جو ہمیں اس حرام سے بچا سکیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی مالی معاملات میں حلال اور پاکیزگی کو ترجیح دینی چاہیے، اسلامی مالیاتی نظام کو سمجھنا اور اپنانا چاہیے، اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا تاکہ لوگ سود کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ ہوں۔ اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کے نقصانات سے خبردار کریں اور معاشرے میں حلال کمائی کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کریں۔
سود کی قباحت
قرآن مجید میں سود کو نہ صرف حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کے خلاف شدید وعیدیں بھی دی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اگر تم سود سے باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔”
(البقرہ: 279) یہ آیت سود کی سنگینی کو واضح کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ سود کا معاملہ اللہ کے دین کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ سود پر عمل کرنے والے درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی بھی گناہ اور سنگین جرم نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ کا اعلان گویا دینِ اسلام سے انحراف اور اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔ سود کا یہ جرم ایمان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور اس سے تعلق کو توڑنے کا باعث بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سود کے ستر (70) گناہ ہیں، جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔” اس حدیث کو امام حاکم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور اسے امام بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا۔ امام ذہبی نے اس کی تصدیق کی، اور علامہ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔
سود ایک ایسا نظام ہے جو معاشرتی انصاف کو تباہ کرتا ہے اور معاشرے میں عدم برابری کو بڑھا دیتا ہے۔ سود کا بنیادی نقصان یہ ہے کہ یہ غریب اور کمزور طبقات کا استحصال کرتا ہے۔ قرض پر سود کی ادائیگی کے نتیجے میں مقروض شخص مزید قرض کی دلدل میں دھنس جاتا ہے، اور اس کی مالی حالت روز بروز خراب ہوتی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں غریب اور مجبور افراد مزید قرض میں جکڑتے چلے جاتے ہیں اور غربت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سود کی وجہ سے معاشی ناہمواری اور طبقاتی تفریق پیدا ہوتی ہے، کیونکہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے اور معاشرتی انصاف پس پشت چلا جاتا ہے۔
سود کی ایک اور بڑی قباحت یہ ہے کہ اس کے ذریعے دولت کا ارتکاز چند افراد کے ہاتھوں میں ہو جاتا ہے۔ سودی نظام میں جو لوگ سرمایہ رکھتے ہیں، ان کے لیے نفع حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے، جبکہ غریب اور بے وسیلہ لوگ مہنگے قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور مزید کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشی ناہمواری اور طبقاتی تفریق پیدا ہوتی ہے۔ قرآن میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے: "یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ” (البقرہ: 276) سود کے ذریعے حاصل کی گئی دولت کبھی بھی بارآور نہیں ہوتی، بلکہ اس میں کمی واقع ہوتی ہے، جبکہ صدقات اور خیرات سے حاصل ہونے والی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔
سود پر مبنی لین دین اخلاقی اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ سود کی بنیاد پر کی گئی معاہدات انسان کو خود غرض، لالچی اور بے حسی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جب فرد کو بغیر کسی محنت کے فائدہ ملتا ہے، تو اس میں قربانی اور صبر کی کمی واقع ہو جاتی ہے، جو اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ قرآن کریم میں سود کو کھانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے: "جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن اس طرح اٹھیں گے جیسے شیطان کے ہاتھ لگنے سے دیوانے اُٹھتے ہیں۔” (البقرہ: 275) سود انسانی کردار کو خراب کرتا ہے اور اس میں اخلاقی گراوٹ کو جنم دیتا ہے، جو مسلمانوں کے لیے گناہ اور فلاح کی راہ سے دوری کا باعث ہے۔
سود پر مبنی نظام معیشت میں عدم استحکام اور بحران پیدا کرتا ہے۔ دنیا کے موجودہ معاشی نظام میں سودی معیشت کی وجہ سے افراطِ زر، مالی عدم استحکام، اور اقتصادی بحران عام ہو چکے ہیں۔ سود کی بنیاد پر کام کرنے والے قرضے سرمایہ کاری میں بدل کر نہ صرف پیداواری صلاحیتوں کو کمزور کرتے ہیں بلکہ معاشی بحرانوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔ سود کی وجہ سے تجارت اور سرمایہ کاری میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے، جو معیشت کو کمزور کر دیتا ہے اور طویل المیعاد معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اسلامی بینکاری نظام کی بنیادیں اس لیے سود سے پاک ہیں تاکہ معاشرتی استحکام، اقتصادی انصاف اور اخلاقی ارتقاء قائم رہ سکے، اور ہر فرد کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔
سود سے بچاؤ کے عملی اقدامات
سود سے بچنے کے لیے سب سے پہلے ایمان کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ مسلمان کو یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کر کے ہی حقیقی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایمان کا مضبوط ہونا سود سے بچنے کے لیے اولین قدم ہے کیونکہ انسان کے دل میں یہ شعور ہونا چاہیے کہ سود کے ذریعے کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر سود کی ممانعت کی گئی ہے، اور ایمان لانے والے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان احکامات پر عمل کرے، خواہ معاشی فوائد کے حصول کی خاطر کوئی بھی قیمت کیوں نہ دینی پڑے۔ ایمان کی مضبوطی انسان کو یہ باور کراتی ہے کہ اللہ کی رضا کی پیروی سے ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ممکن ہے، نہ کہ دنیاوی مال و دولت کی خاطر ناجائز ذرائع اختیار کرنے سے۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سود کی لعنت سے دور رہیں اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں۔
ایسے کاروبار یا ملازمت سے اجتناب کریں جہاں سودی لین دین شامل ہو۔ حلال ذرائع سے روزی کمانا اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔ روزگار کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ حلال ذرائع سے جُڑا ہوا ہو اور اس میں کوئی سودی لین دین شامل نہ ہو۔ حرام آمدنی یا سودی ذرائع سے کما کر رزق حلال کھانے سے نہ صرف برکت ختم ہو جاتی ہے بلکہ انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح بھی متاثر ہوتی ہے۔ قرآن و سنت میں ہمیں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ رزق کا طریقہ حلال ہو اور اس میں کوئی حرام یا ناجائز ذرائع شامل نہ ہوں۔ اسی لیے اسلامی تعلیمات میں تاکید کی گئی ہے کہ مسلمان اپنے کاروبار میں حلال ذرائع کو اپنائے تاکہ وہ اللہ کی رضا اور اس کی برکتوں کو پا سکے۔
روایتی بینکنگ نظام سود پر مبنی ہے، لیکن اسلامی بینکنگ نظام مضاربہ، مشارکہ، اور دیگر غیر سودی طریقوں پر مبنی ہے۔ سودی نظام سے بچنے کا مؤثر طریقہ اسلامی بینکاری کو اپنانا ہے۔ اسلامی بینکاری کے نظام میں ایسی مالیاتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں جو سودی نہیں ہوتی ہیں۔ مضاربہ (Mudarabah) اور مشارکہ (Musharakah) جیسی اسکیمیں اسلامی بینکاری میں استعمال ہوتی ہیں، جن میں سرمایہ کاری اور منافع کا تقسیم انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ ان اسکیموں میں سود کی بجائے شراکت داری اور شفافیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اسلامی بینک میں سرمایہ کاری کرتے وقت منافع اور نقصان میں شراکت کی جاتی ہے، جو کہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ اس طریقے سے مسلمان سود سے بچ سکتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کر سکتے ہیں۔
اگر کسی کو قرض دینے کی ضرورت ہو تو سود کے بغیر مدد کریں۔ قرآن و حدیث میں قرض حسن (بغیر سود کے قرض) کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرض حسنہ کا تصور اسلام میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس پر بڑی نیکی کی بات کی گئی ہے۔ قرض حسنہ میں قرض خواہ کو کسی اضافی رقم یا سود کے بغیر مدد فراہم کی جاتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "جو شخص اللہ کی راہ میں قرض دیتا ہے تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔” (البقرہ: 245) اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرض دیتے وقت سود سے اجتناب کریں اور دوسروں کی مدد اسلامی تعلیمات کے مطابق قرض حسنہ کے ذریعے کریں تاکہ ان کے مال میں برکت ہو اور دین و دنیا میں ترقی ہو۔
اپنی مالی ضروریات کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کریں تاکہ قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ ضرورت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی عادت اپنائیں۔ مالی منصوبہ بندی سود سے بچاؤ کی ایک مؤثر حکمت عملی ہے۔ اگر کسی کو ضرورت پڑے تو اس کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کرنا چاہیے تاکہ ایسی صورت حال نہ آئے جہاں ضرورت سے زیادہ قرض لینا پڑے۔ مالی معاملات میں ضرورت کے مطابق زندگی گزارنے کی عادت اپنانا بہت اہم ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے وسائل کی مناسب انداز میں منصوبہ بندی کرے تو اسے نہ تو اضافی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی سودی قرض کے جال میں پھنسنے کا خطرہ ہوگا۔ اسلامی تعلیمات میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم رکھے تاکہ کسی بھی وقت مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اگر کوئی سودی قرضے میں پھنس گیا ہو تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اس قرضے کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے حالات میں اسلامی مالیاتی اداروں سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے افراد کے لیے اس سے نجات پانا نہایت ضروری ہے۔ اسلامی شریعت میں اس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ سودی قرضوں کو فوری طور پر چکانے کی کوشش کی جائے اور اس پر ہر ممکن جتن کیا جائے۔ ایسے افراد جو سودی قرضوں کے گہرے جال میں پھنس چکے ہوں، انہیں چاہیے کہ وہ اس پر توبہ کریں اور اس قرض کی جلد از جلد ادائیگی کی کوشش کریں۔ اگرچہ یہ عمل مشکل ہو سکتا ہے، لیکن اللہ کی مدد سے اور اسلامی مالیاتی اداروں کی مدد سے یہ ممکن ہے کہ سودی قرضوں کو جلد ختم کیا جا سکے۔
اسلامی معاشیات کے بارے میں علم حاصل کریں تاکہ سود سے بچنے کے عملی طریقے سمجھ سکیں اور دوسروں کو بھی تعلیم دے سکیں۔ علم حاصل کرنا اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم فریضہ ہے۔ اسلامی معاشیات اور بینکاری کے حوالے سے آگاہی نہ صرف فرد کی ذات کے لیے مفید ہے بلکہ دیگر مسلمانوں کو بھی اس کے فوائد سے روشناس کرانے میں مددگار ہے۔ سود سے بچاؤ کے لیے یہ ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی مالیاتی نظام اور بینکاری کے اصولوں کو سمجھیں تاکہ وہ سود سے محفوظ رہ سکیں اور شریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ علم کے ذریعے نہ صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کریں بلکہ معاشرے میں سود کے خطرات سے آگاہی پھیلائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مسئلے سے بچ سکیں اور شریعت کی پیروی کریں۔
سود کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدامات
مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی معاشی نظام کو فروغ دیں، خاص طور پر غیر سودی مالیاتی ادارے قائم کریں جو معاشرے کے لیے ایک متبادل پیش کر سکیں۔ سودی معیشت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ زیادہ تر افراد کو مالی طور پر نقصان پہنچاتی ہے اور معاشی ناانصافی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام، جیسے مضاربہ اور مشارکہ، سودی نظام کے برعکس تعاون اور شراکت داری پر مبنی ہیں، جن میں منافع اور نقصان میں شراکت شامل ہوتی ہے۔ اس نظام کو فروغ دے کر نہ صرف لوگوں کو سودی قرضوں کے بوجھ سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ معاشی استحکام اور انصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ترجیح دیں جو سود کے بغیر سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں کی ترقی اور ترویج سے معاشرتی سطح پر بھی یہ شعور اجاگر ہوگا کہ سودی نظام سے گریز کرنا اسلامی اخلاقیات کی بنیاد ہے۔
حکومتوں سے مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے اسلامی معیشت کو نافذ کریں، جیسے زکوٰۃ کا نظام، قرض حسنہ، اور غیر سودی قرضے۔ حکومت اسلامی قوانین کے مطابق معیشت کو منظم کر سکتی ہے تاکہ سودی نظام کو ختم کیا جا سکے۔ زکوٰۃ، جو اسلامی معیشت میں دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک لازمی جزو ہے، نہ صرف غربت کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ سودی قرضوں کی جگہ مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جو مسلمانوں کو قرض حسنہ کی فراہمی کو فروغ دیں تاکہ وہ اپنی مالی ضروریات کو پورا کریں بغیر سود کے بوجھ کے۔ حکومت کی طرف سے اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے مؤثر پالیسی سازی سے معاشرتی برکت اور اقتصادی استحکام لایا جا سکتا ہے۔
علماء، اسکالرز اور دینی تنظیموں کو عوام میں سود کی قباحت اور اس کے نقصانات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو سود کی ممانعت اور اس کے برے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ علماء اور دینی رہنما عوام کو بار بار اس بات کی تعلیم دیں کہ سود پر مبنی معیشت انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ لوگوں میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ سود سے بچنے کی کوشش کریں اور اس کی قباحت کو سمجھ سکیں۔ اسکالرز کو چاہیے کہ وہ سود کے بارے میں تحقیقی کام کریں اور عوام کو اس کے روحانی اور معاشی نقصانات سے آگاہ کریں تاکہ سودی معیشت کے خلاف ایک اجتماعی شعور پیدا ہو سکے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سود ایک ایسی لعنت ہے جو انفرادی، معاشرتی، اور عالمی سطح پر بے شمار نقصانات کا سبب بنتی ہے۔ اس کا نہ صرف مالی استحصال ہوتا ہے بلکہ یہ اخلاقی، معاشرتی، اور اقتصادی بحران بھی پیدا کرتی ہے۔ سودی نظام میں دولت چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے، جس سے معاشرتی ناہمواری اور غربت بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ، سود کی لعنت کی وجہ سے اخلاقی انحطاط اور خودغرضی پیدا ہوتی ہے جو اسلامی اخلاقیات کے منافی ہے۔ سودی نظام معیشت میں عدم استحکام، افراطِ زر، اور اقتصادی بحران کا باعث بنتا ہے، جو دنیا بھر میں مسائل پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا، مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے سود سے بچنے کی کوشش کریں اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی معیشت کو منظم کریں تاکہ نہ صرف اپنی دنیا بلکہ آخرت کی بھی کامیابی حاصل ہو سکے۔
اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم نہ صرف سود سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک عادلانہ، پائیدار، اور خوشحال معیشت کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ قرآن و سنت میں سود کے خلاف سختی سے خبردار کیا گیا ہے اور اس کی جگہ صدقہ، قرض حسنہ، اور دیگر اسلامی مالیاتی نظام کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ سود سے بچنا نہ صرف ہماری دینی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہماری دنیاوی اور اخروی فلاح کا ذریعہ بھی ہے۔ سود سے گریز اور اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دے کر ہم معاشی استحکام، معاشرتی انصاف، اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سود سے بچنے کے لیے عملی اقدامات کریں اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی مالی زندگی کو ترتیب دیں تاکہ دنیا میں بھی کامیابی اور آخرت میں بھی اللہ کی رضا حاصل کر سکیں۔