بہار کے کالجوں میں اردو کی زبوں حالی: اسباب، چیلنجز اور اصلاحی تجاویز
✍️: ڈاکٹر عقیل احمد
شعبہ اردو، سی۔ایم۔ بی۔ کالج ، گھوگھرڈیہا ، مدھوبنی۔
اردو بہار کی تہذیب اور ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے، جو نہ صرف ایک زبان بلکہ فکر و فن کا خزانہ اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ محبت و اخوت کی یہ زبان، ادب و شعریات کی مالا ہے، لیکن آج بہار کے کالجوں میں اردو تعلیم کی صورتحال نہایت افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ اس کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ یہ کئی عوامل کا مجموعہ ہے، جن میں تعلیمی نظام کی کمزوری، گارجین کی بے توجہی، طلبہ کی عدم دلچسپی اور اساتذہ کی محدود ذمہ داری شامل ہیں۔ ان تمام عوامل نے اردو کے فروغ میں شدید رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔
اردو کی زبوں حالی کی وجوہات:
- 1. ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا ناقص معیار۔
- 2. طلبہ اور گارجین کی غیرسنجیدگی۔
- 3. کالجوں میں کلاسز کا غیر فعال نظام۔
- 4. امتحانات اور کاپی چیکنگ کے عمل کی غیر شفافیت۔
- 5. دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کی مشکلات۔
- 6. اردو کو محض ایک زبان سمجھ کر نظر انداز کرنا۔
اردو کی بنیادی تعلیم کا فقدان:
اردو تدریس کا حال ابتدائی اور ثانوی سطح پر انتہائی مایوس کن ہے، جس کے اثرات کالج کے طلبہ پر واضح ہیں۔ بی اے اردو آنرز میں اکثر ایسے طلبہ داخلہ لیتے ہیں جو زبان کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا ہیں۔ وہ نہ تو متن کی درست قرأت کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں لکھنے کی صلاحیت حاصل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اردو کو محض ایک گھریلو زبان سمجھ کر اس کی تعلیمی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ گارجین اس کی افادیت سے بے خبر ہیں، اساتذہ کا تدریسی رویہ مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے، اور تعلیمی نظام بھی غیر فعال ہے۔
کالجوں میں طلبہ کی اردو زبان سے لاعلمی اساتذہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ میرے مشاہدے میں کئی ایسے طلبہ آتے ہیں جنہیں نہ پڑھنا آتا ہے اور نہ لکھنا۔ ایسے میں انہیں ادب یا اردو کے فنون سے روشناس کرانا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ تاہم، یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان طلبہ میں اردو زبان سے دلچسپی پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ اردو نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک تہذیب، ادب اور شعریات کی دنیا ہے۔
کالج کے نظام تعلیم کا فقدان:
کالجوں کا بنیادی مقصد طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے علمی قابلیت، تخلیقی سوچ، اور عملی مہارتوں سے آراستہ کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں کالج کے نظام تعلیم کی حالت انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔ کالجوں میں کلاسز کے انعقاد اور باقاعدہ تدریسی عمل کا رواج تقریباً ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے یہ ادارے محض داخلہ اور امتحان کے مراکز بن کر رہ گئے ہیں۔ طلبہ کلاسز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور اس رویے کو گارجین کی جانب سے بھی تقویت ملتی ہے، جو اپنے بچوں کو کلاسز کی پابندی سے آزاد رکھنے کی سفارش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال تعلیمی نظام کی بے توجہی اور طلبہ و گارجین کی غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
کالج کے نظام تعلیم میں اس زوال کی ایک بڑی وجہ کالج انتظامیہ کی غیر فعالیت اور اساتذہ کی بے رغبتی ہے۔ اکثر کالجوں میں اساتذہ اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور وقت پر کلاسز منعقد نہیں کی جاتیں۔ ایسے ماحول میں طلبہ کی تعلیم کے لیے کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ کلاسز میں شرکت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ، طلبہ کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ بغیر کسی نگرانی یا دباؤ کے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، گارجین کا رویہ بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ والدین اور گارجین کی اکثریت تعلیم کو محض ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے بچے کالج میں کلاسز میں حاضر ہو رہے ہیں یا نہیں۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کلاسز کی پابندی سے آزاد رکھا جائے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے وقت گزار سکیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے طلبہ میں کلاسز کے لیے دلچسپی ختم ہو چکی ہے، اور وہ تعلیم کو بامقصد سرگرمی کے بجائے محض ایک رسمی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ صورتحال طلبہ کی تعلیمی قابلیت، ان کے اخلاقی معیار، اور ان کے مستقبل پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جب طلبہ کالج میں کلاسز سے محروم رہتے ہیں تو ان کی علمی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے، اور وہ عملی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز کا مؤثر طریقے سے سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ مزید برآں، تعلیمی نظام کی اس بے حسی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبہ کی خود اعتمادی اور قابلیت متاثر ہوتی ہے، اور وہ تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
کالج کے نظام تعلیم میں اس فقدان کو ختم کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کالج انتظامیہ کو کلاسز کے انعقاد کو یقینی بنانے اور طلبہ کی حاضری کو لازم قرار دینے کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے چاہئیں۔ اساتذہ کو اپنے تدریسی فرائض کو سنجیدگی سے انجام دینے پر مجبور کیا جائے، اور طلبہ کو کلاسز میں شرکت کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ والدین اور گارجین کو بھی یہ شعور دیا جائے کہ کلاسز میں شرکت ان کے بچوں کی علمی اور عملی زندگی کے لیے کتنی اہم ہے۔
اگر کالج کے نظام تعلیم میں ان بنیادی اصلاحات کو نافذ کیا جائے تو طلبہ میں علم حاصل کرنے کی سنجیدگی پیدا کی جا سکتی ہے، اور کالج دوبارہ سے علم، تربیت، اور شخصیت سازی کے مراکز بن سکتے ہیں، جو ایک کامیاب اور باوقار معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہیں۔
دور دراز کے طلبہ کی مشکلات
اکثر طلبہ کالج سے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں، لہذا ان کے لیے روزانہ کالج آنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ طویل فاصلے طے کرنا نہ صرف وقت طلب ہوتا ہے بلکہ مالی بوجھ اور جسمانی تھکن کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر معیاری سہولیات یا مکمل عدم دستیابی بھی طلبہ کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے طلبہ کالج آنے کی زحمت نہیں کرتے اور تعلیمی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔
کلاسز میں شامل نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبہ تعلیمی عمل سے کٹ جاتے ہیں اور ان کا علم محدود رہ جاتا ہے۔ وہ نہ تو اساتذہ سے براہ راست رہنمائی حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر تعلیمی مباحثوں میں حصہ لے پاتے ہیں، جو شخصیت سازی اور سیکھنے کے عمل کا ایک لازمی جزو ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف ان کے تعلیمی معیار پر پڑتا ہے بلکہ ان کی تعلیمی دلچسپی بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ نتیجتاً، کالج کا مجموعی تعلیمی معیار گرتا جاتا ہے اور اساتذہ کے لیے طلبہ کو مؤثر انداز میں پڑھانا بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
اساتذہ کی ذمہ داری
اساتذہ کی ذمہ داری ان حالات میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انہیں صرف طلبہ کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینا نہیں ہوتا، بلکہ نصاب میں شامل ادب کے فنون کو بھی مؤثر طریقے سے پڑھانا ہوتا ہے تاکہ طلبہ زبان کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ساتھ اس کی ادبی حیثیت کو بھی سمجھ سکیں۔ یہ عمل محض کتابی علم تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں ادب کی مختلف جہتوں سے روشناس کرانے کا عمل بھی شامل ہوتا ہے۔ اساتذہ کا کردار ایک رہنما کا ہوتا ہے جو طلبہ کو نہ صرف کتابوں تک محدود رکھتا ہے بلکہ ان کی فکری و تخلیقی سطح کو بھی بلند کرتا ہے، تاکہ وہ اردو کے فنون میں مہارت حاصل کر سکیں۔
تاہم، جب کلاسز ہی باقاعدہ نہیں ہوتیں یا طلبہ میں سنجیدگی کی کمی ہو، تو اساتذہ کی تمام محنت بے نتیجہ رہ جاتی ہے۔ طلبہ کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدہ رویہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ استاد کی کوششوں کو مکمل طور پر سمجھے اور عمل میں لائیں۔ اس صورتحال میں اساتذہ کی محنت بے کار محسوس ہوتی ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں اردو تعلیم کا مقصد محض نصابی مواد تک محدود رہ جاتا ہے، اور اس کی اصل روح، جو ادب اور ثقافت کا حصہ ہے، طلبہ تک نہیں پہنچ پاتی پاتی۔
تعلیمی نظام کا مقصد واضح کرنا:
تعلیمی نظام کا سب سے بنیادی اور اہم مقصد طلبہ کی علمی، فکری، اور اخلاقی نشوونما کے ذریعے انہیں ایک کامیاب اور باکردار انسان بنانا ہے۔ بدقسمتی سے، موجودہ دور میں طلبہ اور والدین کی ایک بڑی تعداد تعلیم کو محض ایک ڈگری کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہے، جس سے تعلیمی نظام کی روح اور اس کے حقیقی مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے طلبہ کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا مقصد محض روزگار کا حصول یا سماجی حیثیت کو بہتر بنانا نہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت سازی، معاشرتی کردار، اور مستقبل کی کامیابی کے لیے ایک لازمی عنصر ہے۔
سب سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ طلبہ کو تعلیم کی اہمیت اور اس کے وسیع پہلوؤں سے روشناس کرایا جائے۔ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جو نہ صرف علم حاصل کرنے بلکہ ان کی تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے میں مددگار ہے۔ اس کے ذریعے وہ دنیا کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور اپنے مسائل کا مؤثر حل نکال سکتے ہیں۔ تعلیم صرف کتابی علم تک محدود نہیں، بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کو بہتر اور باصلاحیت بناتی ہے۔
مزید برآں، طلبہ کو یہ شعور دینا بھی ضروری ہے کہ تعلیم ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ان میں اخلاقیات، ذمہ داری، اور سماجی شعور پیدا کرتی ہے، جو ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے لازمی ہیں۔ تعلیم صرف ایک فرد کی ذہنی صلاحیتوں کو ہی نہیں بلکہ اس کے کردار، رویے، اور سماجی تعامل کو بھی بہتر بناتی ہے۔ طلبہ کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم انہیں ایک باعزت اور خودمختار زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔
اساتذہ اور والدین کا کردار بھی اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔ انہیں طلبہ کو اس بات کا شعور دینا ہوگا کہ ڈگری محض ایک رسمی کاغذ ہے جو بغیر علم اور قابلیت کے کوئی حقیقی فائدہ نہیں دے سکتی۔ اساتذہ کو اپنے طرز تدریس کے ذریعے طلبہ کو علم کی حقیقی قدر و اہمیت کا احساس دلانا چاہیے، جبکہ والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کو صرف نوکری کے حصول تک محدود کرنے کے بجائے ان کی شخصیت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
تعلیمی نظام کے اس مقصد کو واضح کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ طلبہ اپنی تعلیم کو بامقصد سمجھیں اور اسے سنجیدگی سے لیں۔ جب طلبہ تعلیم کو اپنی شخصیت اور مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ سمجھیں گے تو وہ زیادہ محنت کریں گے اور علم کے حصول کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔ اس طرح وہ نہ صرف ایک کامیاب انسان بن سکیں گے بلکہ معاشرے کی ترقی میں بھی مؤثر کردار ادا کریں گے۔
امتحانات اور شفافیت کا فقدان
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ستون ہے، اور اس کا معیار امتحانات کے شفاف اور مؤثر انعقاد سے جُڑا ہوتا ہے۔ اگر امتحانی نظام غیر سنجیدگی اور رسمی کارروائی کی نذر ہو جائے تو تعلیم کا مقصد اور اہمیت دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ نظام تعلیم میں امتحانات کی شفافیت اور معیار پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ عمل طلبہ میں علم و شعور کی حقیقی جستجو پیدا کرنے کے بجائے محض ایک رسمی سی سرگرمی بن کر رہ گیا ہے۔ نتیجتاً، تعلیمی نظام اپنے اصل مقاصد سے ہٹ کر صرف ڈگری کے حصول تک محدود ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں امتحانی نظام کی بہتری کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
-
1. امتحانی نظام میں سختی اور شفافیت:
امتحانات کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتے ہیں، کیونکہ یہ طلبہ کی صلاحیتوں، علمی قابلیت، اور تخلیقی سوچ کو پرکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ اس لیے امتحانات کے انعقاد میں سختی اور شفافیت انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ نظام اپنے اصل مقاصد کو حاصل کر سکے۔
سب سے پہلے، امتحانات کے انعقاد کے دوران نقل کے تمام امکانات کو ختم کرنے کے لیے سخت نگرانی کا انتظام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے امتحانی مراکز میں سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال، امتحانی عملے کی تربیت، اور معیاری قواعد و ضوابط کا نفاذ ضروری ہے۔ طلبہ کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ امتحانات میں نقل یا کسی غیر قانونی ذریعے سے کامیابی ممکن نہیں، بلکہ انہیں اپنی محنت اور قابلیت پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس عمل سے طلبہ میں نہ صرف امتحان کی تیاری کا رجحان پیدا ہوگا بلکہ وہ اپنے علم کو سنجیدگی سے لینے لگیں گے۔
مزید برآں، امتحانات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سوالنامے کی تیاری سے لے کر جوابی کاپیوں کی جانچ تک کے ہر مرحلے میں دیانت داری اور غیر جانبداری کو ترجیح دی جائے۔ سوالنامے اس طرح تیار کیے جائیں کہ وہ طلبہ کی حقیقی علمی قابلیت اور تجزیاتی سوچ کو جانچ سکیں، نہ کہ صرف رٹے ہوئے جوابات پر انحصار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، کاپیوں کی جانچ کے دوران سخت معیار اپنایا جائے تاکہ ہر طالب علم کی محنت کا صحیح صلہ مل سکے۔
امتحانات میں سختی اور شفافیت کے یہ اقدامات نہ صرف طلبہ کو اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں گے بلکہ انہیں محنت اور دیانت داری کے ساتھ اپنی قابلیت کو نکھارنے کی ترغیب بھی دیں گے۔ اس طرح کا شفاف امتحانی نظام ایک ایسی نسل تیار کرے گا جو علمی قابلیت، اخلاقی اقدار، اور عملی زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہو۔
-
2. جانچ کا معیاری عمل:
کسی بھی امتحانی نظام کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جوابی کاپیوں کی جانچ کس حد تک معیاری اور دیانت داری سے کی جاتی ہے۔ طلبہ کی محنت اور ان کی علمی قابلیت کو درست انداز میں پرکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جانچ کے عمل کو شفاف اور معیاری بنایا جائے۔ اس کے لیے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے۔
سب سے پہلے، کاپیوں کی جانچ کرنے والے افراد کی دیانت داری اور قابلیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ ایسے افراد کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو نہ صرف اپنے مضمون کے ماہر ہوں بلکہ غیر جانبدار، ایماندار، اور طلبہ کے علمی معیار کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جانچ کرنے والوں کے لیے تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے تاکہ انہیں جدید تعلیمی تقاضوں کے مطابق جانچ کے اصول اور طریقہ کار سے روشناس کرایا جا سکے۔
مزید برآں، جوابی کاپیوں کی جانچ کے دوران معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک منظم طریقہ کار اپنانا چاہیے۔ ہر طالب علم کے جوابات کو ان کی فکری صلاحیت، تجزیاتی سوچ، اور پیش کردہ دلائل کی بنیاد پر جانچا جانا چاہیے، نہ کہ محض رٹے رٹائے جوابات پر انحصار کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ طلبہ کو ان کی محنت کا حقیقی صلہ ملے، اور ان کی کارکردگی کو انصاف کے ساتھ پرکھا جائے۔
جانچ کے عمل میں معیاری خطوط کو برقرار رکھنے کے لیے نگرانی اور جانچ کے بعد کی تصدیق بھی ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اگر کوئی طالب علم اپنی جانچ پر اعتراض کرے تو اس کی شکایت کو فوری اور منصفانہ طریقے سے حل کیا جائے۔
ایک معیاری اور دیانت دارانہ جانچ کا عمل نہ صرف طلبہ کو محنت کرنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ تعلیمی نظام پر اعتماد بھی بحال کرتا ہے۔ اس طرح کے منظم اور معیاری طریقے سے طلبہ کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کی علمی قابلیت کو صحیح اور منصفانہ طریقے سے پرکھا جا رہا ہے، جو انہیں مزید بہتر کارکردگی کے لیے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک مضبوط اور بااعتماد تعلیمی نظام تشکیل پاتا ہے جو قوم کی ترقی اور طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بہار کے کالجوں میں اردو کا نصاب بڑے احسن طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے، یہ نصاب طلبہ کو نہ صرف اردو کی بنیادی مہارتیں سکھانے کے لیے تیار کیا گیا ہے بلکہ اس میں ادب کے مختلف فنون، شاعری، نثر اور دیگر ادبی صنفوں کی گہرائی سے تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ نصاب اردو زبان کے ارتقاء اور اس کی تہذیبی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے تاکہ طلبہ نہ صرف زبان کی مہارت حاصل کرسکیں بلکہ اردو ادب اور اس کے ثقافتی پہلوؤں کو بھی سمجھ سکیں۔
تاہم باوجود اس کے کہ نصاب کی تشکیل عمدہ طریقے سے کی گئی ہے، اس کا حقیقی فائدہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اساتذہ، طلبہ، گارجینز اور تعلیمی ادارے اس پر مکمل طور پر عمل کریں۔ اساتذہ کو اپنے تدریسی طریقوں میں جدت لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس نصاب کے ذریعے طلبہ میں اردو ادب اور زبان کے بارے میں محبت اور دلچسپی پیدا کر سکیں۔ طلبہ کو نصاب کی اہمیت کا شعور دلانا ہوگا تاکہ وہ اردو ادب و فنون میں اپنی دلچسپی بڑھا سکیں اور اس کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
اردو:روزگار کے نئے امکانات
اردو کو صرف ایک ثقافتی اور تعلیمی زبان کے طور پر نہیں بلکہ روزگار کے مواقع سے جوڑنا بھی ضروری ہے۔ موجودہ دور میں زبانوں کی اہمیت روزگار کے مواقع کے لحاظ سے بہت بڑھ چکی ہے۔ اردو زبان نہ صرف ہمارے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ اس کا تعلق مختلف شعبوں سے بھی ہے، جن میں میڈیا، صحافت، ترجمہ نگاری، اور ادب شامل ہیں۔ اگر ہم اردو کو روزگار کے مواقع سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کے فروغ کے لیے کئی نئے راستے کھل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اردو صحافت اور میڈیا میں اہم مقام رکھتی ہے اور اس شعبے میں کام کرنے کے لیے اردو کی گہری مہارت ضروری ہے۔ اردو زبان میں کام کرنے والی مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز چینلز کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے، اردو کے طلبہ کے لیے روزگار کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، مترجمین اور ترجمہ نگاروں کی کمیابی بھی اردو کی بنیاد پر ہو سکتی ہے، جہاں وہ مختلف مواد کو اردو میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، اردو ادب، شاعری اور نثر کے شعبے میں بھی نئی نسل کے لیے روزگار کے مواقع موجود ہیں۔ کتابوں کی اشاعت، ادبی محافل، اور ادبی میلے اردو کے ادب کو فروغ دینے کے لیے ایک بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اردو کو روزگار کے مواقع سے جوڑنے کے ذریعے اس زبان کو نہ صرف زندہ رکھا جا سکتا ہے بلکہ اسے ایک معاشی قدر بھی دی جا سکتی ہے، جو طلبہ کو اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مزید ترغیب دے سکتی ہے۔
روزگار کے نئے امکانات کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں بہار میں بڑے پیمانے پر اردو اساتذہ کی بحالی عمل میں آئی ہے، جو اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے۔ یہ نہ صرف اردو زبان کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم ہے بلکہ ان طلبہ کے لیے بھی امید کی کرن ہے جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اردو کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
مزید یہ کہ آئندہ دنوں میں اسکولوں میں مزید آسامیاں آنے کی توقع ہے، جس سے اردو طلبہ کے لیے مواقع میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان حالات میں طلبہ کو مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور محنت و دیانتداری سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جب وہ استاد کے منصب پر فائز ہوں تو اپنے طلبہ کی بہترین تربیت اور رہنمائی کے ذریعے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کریں۔
یہ وقت اردو طلبہ کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی تعلیمی دلچسپی اور محنت کے ذریعے نہ صرف اپنے مستقبل کو سنواریں بلکہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کریں۔
اس طرح، اگر اردو کو ایک زبان کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع اور معاشی قدر کے طور پر دیکھا جائے، تو یہ نہ صرف تعلیمی بلکہ معاشی ترقی کا بھی ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان بہار کی تہذیب، ثقافت، اور تاریخی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ زبان نہ صرف محبت، اخوت، اور ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ ادبی اور فکری تخلیقات کا ایک عظیم خزانہ بھی ہے۔ تاہم، بہار کے کالجوں میں اردو کی موجودہ حالت انتہائی افسوسناک ہے۔ ابتدائی تعلیم کا ناقص معیار، طلبہ کی عدم دلچسپی، اساتذہ کی غفلت، کالج کے غیر فعال نظام، اور گارجینز کی بے اعتنائی جیسے عوامل نے اردو کو تعلیمی نظام میں غیر مؤثر بنا دیا ہے۔
اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین—اساتذہ، طلبہ، گارجینز، اور تعلیمی ادارے—اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھیں اور اردو کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کریں۔ طلبہ کو زبان کی اہمیت کا شعور دلانا، گارجینز کو اردو کے ثقافتی ورثے سے روشناس کرانا، اور اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے نبھانے پر آمادہ کرنا اس بحران سے نکلنے کا واحد حل ہے۔
تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اردو زبان کو تعلیمی نصاب میں نمایاں مقام دیں، امتحانات اور تدریسی عمل میں شفافیت لائیں، اور طلبہ کو اردو کی جمالیات اور ادبی پہلوؤں سے جوڑنے کے لیے جدید اور دلچسپ طریقے اپنائیں۔ اردو نہ صرف ہماری ماضی کی شان ہے بلکہ یہ ہمارے مستقبل کی بنیاد بھی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اسے نئی نسل تک صحیح انداز میں منتقل کریں۔
اگر ہم اردو کی زبوں حالی کو ختم کرنے کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات اٹھائیں، تو یقیناً یہ زبان اپنی اصل عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہے۔ اردو کی ترقی نہ صرف زبان کا احیا ہے بلکہ ہماری تہذیب، ثقافت، اور سماجی ہم آہنگی کی بقا کا ضامن بھی ہے۔
نوٹ: اگرچہ یہ مضمون اردو کے حوالے سے لکھا گیا ہے، لیکن کالجوں میں تعلیم کی موجودہ صورتِ حال تقریباً تمام مضامین کے لیے یکساں ہے۔ نصاب تو مرتب ہے، مگر اساتذہ کی کمی، وسائل کی عدم فراہمی، اور تعلیمی ماحول کی خرابی جیسے مسائل تمام شعبوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام کے مجموعی مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، تاکہ اردو سمیت تمام مضامین کی تدریس بہتر اور معیاری ہو سکے۔