رسول اللہ ﷺ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا
از:- ابوفہد ندوی
رسول اللہ ﷺ نے جومعاشرہ تشکیل دیا تھا وہ یقینا قرآنی معاشرہ تھا۔اوراس معاشرے نے جو افراد پیدا کیے تھے وہ انبیاء کے بعد انسانی تاریخ میں سب سے بہتر انسان ثابت ہوئے۔ قرآن ان کے لیے سب سے پہلی اور ترجیحی چیزتھی جسے اس معاشرے کا ہر فرد اپنے گھر،مسجد اوربازار، مجلس وتخلیہ اورکھیت کھلیان میں ہرجگہ اپنے سامنے رکھتا تھا۔ اس معاشرے کے بیشتر افراد کے سینوں میں مکمل قرآن یا اس کا اکثر حصہ محفوظ تھا اوران کی زبانوں پرقرآن جاری وساری تھا، بالکل اسی طرح جس طرح قرآن سے پہلے کے زمانے میں اشعار وقصائد ان کے ورد زباں رہتے تھے اور وہ قرآن کو اسی طرح سمجھتے تھے جس طرح وہ اپنے اشعار وقصائد کو سمجھتے تھے، قرآن چونکہ ان کی موجودگی میں نازل ہواتھا اس لیے انہیں قرآن کی ہرسورت اور ہر آیت کے نزول کا پس منظربھی معلوم تھا، نہ صرف پس منظر معلوم تھا بلکہ اس وقت کے اہل کفر وشرک کے سرغنہ افراد کس آیت کے جواب میں کیا تبصرہ کیا کرتے تھے اور پھر اللہ کی طرف سے اس کا کیا جواب دیا جاتا تھا وہ سب بھی ان کی نالج میں تھا، انہیں پتہ تھا کہ یہود ونصاریٰ نے رسول واصحاب رسول سے کب اور کیا کیا سوالات کیے تھے اور قرآن نے ان سوالات کے کیا جواب دئے تھے۔
ان میں بہت سے افراد گرچہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے مگر وہ بولی کی سطح پر اپنی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے، اس معاشرے میں یہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی شعر وقصائد کہنے پر قدرت رکھنے کے باوجود عربی زبان لکھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ، کیونکہ لکھنا پڑھنا بذات خود الگ فن اور اسکلز ہیں۔ ان کی طلاقت لسانی کا حال یہ تھا کہ وہ غیر عربی داں کو عجمی کہا کرتے تھے، یعنی وہ جنہیں اظہار ما فی الضمیر پر قدرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ لغت کے بھی ماہر تھے اور ان کے دیہات کے لوگ بھی یہاں تک کہ ان کے غلام اور کنیزیں بھی عربی زبان وادب میں کامل دستگاہ رکھتی تھیں، بلکہ ان میں سے بعض تو حیران کن حد تک بھی، اس معاشرے کے لوگوں کا ادبی ذوق اعلیٰ ترین ذوق تھا، اسی لیے ایسا ہوا کہ قرآن کی اعلیٰ درجے کی ادبیت وجاذبیت کے سامنے اور مروجہ نثر وشعر کے اسالیب وسخن کے برخلاف قرآن کے بالکل ہی الگ اور مختلف نوعیت کے اسلوب بیان کے سامنے ان کے دل پہلے پہل مسحورہوئےاور پھرسربسجود ہوگئے۔
خود قرآن میں اس معاشرے کے افراد کی تعریف کی گئی ہے، سورۂ الفتح میں ارشاد ہے: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ،وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ، تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ، سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ (٢٩) ” محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھیوں کی صفت یہ ہے کہ وہ آپس میں رحم دل ہیں اورکفارکے خلاف سخت ہیں۔(یعنی کفار کے خلاف میدان جنگ میں بہادروں کی طرح ڈٹ جانے والے ہیں) تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ اللہ کی خوشنودی اور فضل کی خاطر اپنا زیادہ تر وقت رکوع اور سجدوں کی حالت میں گزارتے ہیں۔ سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی عبادت گزاری کی یہ کیفیت ان کے چہروں پربصورت نورنمایا نظر آتی ہے، ان کی یہ مثال تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی مثال اس طرح بیان ہوئی ہےکہ جیسے ایک کھیتی ہو ، جو پہلے پہل زمین سے اپنی باریک اور نازک کونپل نکالتی ہے، پھراسے طاقت دیتی ہے اورپھر دبیز ہوکر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ کاشتکار کو خوشنما لگنے لگتی ہے۔ (اسی طرح اصحابِ محمد بھی کمزوری کے بعد طاقتور ہوئے) تاکہ (ان کے ساتھ برسر جنگ رہنے والے) کفاران سے جلیں اور خوف کھائیں”
صحابہ کرام کی یہ بڑی جامع تعریف ہے،اس سے زیادہ جامع تعریف شاید ہی ممکن ہوسکے، اس میں صحابہ کرام کی عبادت وریاضت کا حال بھی آگیا،ان کی ہمت وبہادری کا بیان بھی آگیا اور یہ بھی کہ ان کا باہمی تعلق کیسا تھا،اور پھریہ کہ صحابہ کرام دشمنوں کے لیے نرم چارہ نہیں تھے،اس میں اس بات کا بھی اعلان آگیا کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور یہ ایسا گروہ عظیم تھا جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو عالم کفر کے تمام ادیان پر غالب کرکے دکھادیا۔
اللہ نے صحابہ کرام کی تعریف بطورتمثیل بیان فرمائی کہ جس طرح کھیتی ہوتی ہے،جو ابتداء میں کمزور ہوتی ہے مگرچند ہفتوں اور چند ماہ کے اندر اس کے ہر پودے میں قوت پیدا ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ صاحب کھیت کو اس پر رشک آنے لگتا ہے اور دشمن جلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام کی جماعت کا حال تھا کہ وہ ابتدا میں کمزور تھے اور پھر رفتہ رفتہ اتنے طاقتور ہوئے کہ قیصر وکسرے کے تاج ان کے قدموں میں رولنے لگے۔