فرضی قصے کہانیوں میں قوم کا وقت برباد نہ کریں واعظین کو چاہئے کہ مستند حوالوں سے بات کریں

فرضی قصے کہانیوں میں قوم کا وقت برباد نہ کریں!

از:- عبدالغفار صدیقی

اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنے دین کا علم سیکھنے کا موقع عطا فرمایا اور انھوں نے ملک کے مستند دینی تعلیمی اداروں سے سند فراغت حاصل کی وہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں۔ اس لیے کہ ان کے علاوہ باقی افراد انھیں سے دین سیکھتے ہیں،یا ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں،لاکھوں میں کوئی ایک ہوتا ہے جو ذاتی مطالعہ کی بنا پر سرچشمہ ہدایت سے کسب فیض کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امت ان لوگوں سے جو فارغ التحصیل ہوتے ہیں،یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ انھیں دین کی صحیح بات بتائیں گے اور خود بھی جو عمل کریں گے وہ مستندہوگا اوراسی بناپر قابل تقلید ہوگا۔امت کی یہ توقع بے جا بھی نہیں ہے۔امت ملک کے دینی تعلیمی اداروں پر ایک کثیر رقم خرچ کرتی ہے۔اپنے خرچ پر تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ان اداروں میں دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی،نوے فیصد طلباء پر قوم کا سرمایہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ہمارے واعظین اور مستند علماء جو اپنے نام کے ساتھ قاسمی اور ندوی لگاتے ہوں،وہ بے سند،باتیں اپنے وعظ میں سنائیں یاان سے ایسے عمل کا صدور ہو جو شرک کی حدود میں شمار کیے جانے کے قابل ہو تو سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔مگر افسوس ہے کہ کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل تقاریر میں آپ کام کے دو چار جملے ہی پائیں گے،ورنہ ادھر ادھر کے قصے کہانیاں سنا کر قوم کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔جنوری کے مہینے میں دو واقعات ایسے ہوئے جنھوں نے مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
گزشتہ بیس جنوری کو ہمارے شہر میں ایک مسجد اور مدرسہ کا افتتاح تھا۔یہ پروگرام ایک قاسمی مفتی صاحب کی جانب سے تھا۔اس افتتاحی پروگرام میں بڑے بڑے جید علماء تشریف لائے تھے،کوئی عارف باللہ تھا توکوئی مناظر اسلام تھا۔مقررین الحمد للہ افتاء کے نور سے منور تھے اور ان کی ہر بات سند کا درجہ رکھتی تھی۔پروگرام میں بہت سی باتیں ہوئیں۔جن میں زیادہ تر مفید ہی تھیں۔ان ہی میں ایک حضرت نے ایک واقعہ سنایا جو محل نظر ہے۔یہ حضرت بھی قاسمی اورمفتی تھے نیزایک نامور ادارے کے شیخ الحدیث تھے۔اللہ کی حمد وثنا اور منتظمین اجلاس کو مبارکباد دینے کے بعدموصوف یوں لب کشا ہوئے:۔

”جو واقعہ میں سنا رہا ہوں،اس کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔بلکہ ایک بزرگ نے ایسا بیان کیا ہے۔بھائیو میں پہلے ہی بتا رہا ہوں کہ یہ واقعہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔کبھی کوئی اعتراض کرے۔سیدناحضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑنے جب کعبہ تعمیر کیا تو وہاں بہت سا ملبہ اکٹھا ہوگیا۔اس میں مٹی بھی تھی،اینٹیں بھی تھیں وغیرہ وغیرہ۔اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ اس ملبہ کا کیا جائے؟ کہاں ڈالا جائے؟کیسے اٹھایا جائے؟ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان سے حضرت جبریل ؑ کو بھیجا۔حضرت جبرئیل تشریف لائے اور انھوں نے وہ ملبہ اپنے پنکھوں پر رکھا اور آسمان پر لے گئے وہاں سے زمین پر گرادیا،پس اس ملبہ کا ذرہ جہاں جہاں گرا وہاں،وہاں مسجدیں بن گئیں۔ہوسکتا ہے اس شہر میں بھی جہاں یہ مسجد بنائی گئی ہے اس ملبہ کا کوئی ذرہ گرا ہو۔“

قارئین! آپ اس واقعہ کو بار بار پڑھیں۔سب سے پہلا اشکال تو یہ ہے کہ جب آپ خود ہی فرمارہے ہیں کہ یہ واقعہ نہ قرآن میں ہے اور حدیث میں بلکہ کسی بزرگ نے بیان کیا ہے اور اس بزرگ کے کوائف بھی آپ کو معلوم نہیں تو آپ اسے کیوں سنارہے ہیں؟ اس واقعہ سے دین و شریعت کا کونسا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟بے سند واقعہ کیا کسی قضیہ میں دلیل بن سکتا ہے؟کیا بابری مسجد اور دیگر مساجد جہاں حکومت وقت بھگوان تلاش کررہی ہے کے بارے میں ہم عدالت میں اس واقعہ کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ یہاں حضرت جبرئیل ؑ نے آسمان سے کعبہ کا ملبہ گرایا تھا اس لیے یہ مسجد ہی ہے؟آخر آپ نے تقریباًدس سال تعلیم پر صرف کیے،اپنے یا قوم کے کم و بیش پانچ لاکھ روپے خرچ کردیے،اس وقت بھی آپ ماہانہ مشاہرہ لے کر حدیث پڑھا رہے ہیں،تو آپ کو ایسے واقعات سنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی جس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔پھر جس واقعہ کا تعلق نبی اکرم ﷺ سے چار ہزار سال قبل کے زمانے سے ہو،اس کا ذکر قرآن کے علاوہ کون سی مستند کتا ب میں آگیا؟آپ انجیل،بائبل یا توریت کا حوالہ دیتے تو کم از کم وہ آسمانی کتابیں تو ہوتیں۔آپ تو صاف صاف کسی بزرگ کا نام لے رہے ہیں۔کیا اسی کے لیے آپ نے تعلیم حاصل کی تھی؟کیا اسی طرح کے فرضی واقعات سنا کر قوم کی اصلاح فرمائیں گے؟کیا یہی سنانے کے لیے آپ نے سفر کیا تھا،ظاہر ہے سفر خرچ تو آپ کسی نہ کسی لیں گے ہی۔اور وہ سفر خرچ بھی قوم کی جیب سے ہی گیا ہوگا۔کیا ذخیرہ احادیث میں نصیحت کرنے کے لائق کوئی حدیث نہیں،کیا پوری سیرت نبوی ﷺ اور حیات اصحاب رسول میں کوئی سبق آموز واقعہ نہیں رہ گیا تھا جو آپ بے سر پیر کی باتیں کرنے چلے آئے۔

اب ایک دوسرا حادثہ ملاحظہ کیجیے۔اس لیے کہ یہ صورت حال میرے لیے کسی حادثہ سے کم نہیں ہے۔ہمارے ایک دوست تشریف لائے۔وہ ماشاء اللہ ندوی عالم ہیں اور ایک دینی جماعت کے بھی وابستہ ہیں۔حافظ قرآن بھی ہیں۔درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اور امامت و خطابت بھی فرماتے ہیں۔ بہت شریف انسان ہیں۔مستند عالم دین ہیں۔ایک ماہ پہلے ایک کتے نے ان کی قدم بوسی کی ناکام سعی کی تھی۔مگروہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوا تھا۔پھر بھی مذکورہ دوست نے ڈاکٹر سے رجوع کیا اور تین انجیکشن لگوالیے۔اسی کے ساتھ ڈاکٹر نے کچھ دن گوشت،مچھلی،انڈا اور تیز مصالحہ دار اشیاء کھانے سے منع کردیا۔موصوف نے معالج کے مشورے پر عمل کیا اور زبان و دہن کو لذتوں سے محروم رکھا۔جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے معلوم کیا کہ کیا آپ انڈے کا آملیٹ کھالیں گے؟ انھوں نے کہا:۔”ہاں،کھالوں گا۔ کوئی بات نہیں۔بنوالیجیے۔“ حضرت کی اجازت کے بعد مطلوبہ بریڈ آملیٹ ان کے سامنے پیش کیا گیا۔میں چند منٹ بعد ان کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ موصوف بریڈ پر قلم سے کچھ لکھ رہے ہیں۔میں نے پوچھا:۔جناب کیا لکھ رہے ہیں؟“ کہنے لگے کہ میں کتے کے کاٹنے کی آیت لکھ رہا ہوں۔یعنی وہ آیت جس کو ضرر رساں کھانے پر لکھ لینے سے اس کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔میرا اشتیاق بڑھا اور میں نے پوچھا:۔”کون سی آیت لکھ رہے ہیں۔“ موصوف نے بتایا:۔”و مکروا و مکراللہ و اللہ خیر الماکرین۔“ (انھوں نے ایک چال چلی اور اللہ نے بھی چال چلی اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔آل عمران)میں نے عرض کیا:۔”حضرت اس میں کتے کا لفظ بھی نہیں ہے اورنہ شفایا مرض کا ذکر ہے۔“ بولے کہ میں نے طب روحانی نام کی کتاب میں پڑھا تھا۔میری زبان سے نکلا لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

یہ دونوں واقعات کسی ان پڑھ انسان کے نہیں ہیں،نہ ان کا تعلق اس مسلک سے ہے جس کے بارے میں قاسمی اور موحدین حضرات کا کہنا ہے کہ وہ شرک کے قریب ہیں۔بلکہ ان دونوں واقعات کے ہیرو ان اداروں سے فارغ ہیں جو عالمی شہرت یافتہ ہیں۔کیا بریڈ پر آیت لکھنے کا کوئی حکم قرآن میں ہے،یا کسی حدیث میں دیا گیا ہے یا اللہ کے رسول کا عمل ہے۔پھر طب روحانی کس نبی پر اتارا گیا صحیفہ ہے۔اعلیٰ حضرت کے ماننے والے قرآنی آیات پڑھ کر کھانے پر پھونک ماردیں تو آپ انھیں بدعتی اور مشرک قرار دیں اور آپ کا یہ عمل کس زمرے میں شمار کیاجائے گا؟کیا یہ آپ کے کمزور ایمان کی علامت نہیں ہے۔اب جب کہ آپ نے انجیکش لگوا کر مسنون تدبیر اختیار کرلی ہے تو پھر دل میں موت کا خوف کیوں ہے اور کیوں غیر اسلامی طرز عمل اختیار کررہے ہیں؟اگر کوئی چیز بیماری میں نقصان دیتی ہے یا دے سکتی ہے اسے تناول ہی کیوں فرمارہے ہیں؟کیا یہاں حالت اضطرار تھی کہ پیٹ بھرنے کے لیے زہر ہی میسر تھا؟دراصل یہ آپ کے دل کا خوف ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے علماء کو یہ عمل زیب نہیں دیتا۔

یہ دو نمونے ہیں۔ جن کا میں چشم دید گواہ ہوں۔آپ ان ہی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بیشتر علماء دین مبین امت کو کس طرف ہنکائے لے جارہے ہیں۔توہمات،تعویذ اور مافوق الفطری دنیا کی طرف۔ہمارے دینی رہنمادعوت و ارشاد کی دنیا میں عمل سے تو خالی تھے ہی اب بیان کی دنیا میں بھی فرضی واقعات سنائے جارہے ہیں۔ایک پوری جماعت من گھڑنت قصوں اور ضعیف احادیث پر مبنی کتاب کی خواندگی میں مصروف ہے۔امت کے علماء کے پاس حقیقت بیانی کا کوئی مواد نہیں رہ گیا ہے۔انھیں ڈر ہے کہ کہیں حقیقت بیانی کے بعد ان کی پول نہ کھل جائے اور لوگ ان سے سوال نہ کرنے لگیں۔اسی ڈر کے باعث لوگوں کو قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ لوگ ابھی سورہے ہیں اور علماء سے سوال کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہیں۔مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو چیزوں کی حقیقت جان لیتے ہیں۔ابھی وہ خاموش ہیں۔ایک دن ضرور آئے گا جب قوم کے اندر بیداری آئے گی اور وہ ہر بات کی سند مانگے گی۔خدا کے لیے قوم کو معاف کردیجیے۔خدا را اپنے رویے میں تبدیلی لائیے۔وعظ و نصیحت کیجیے مگر دو باتوں کا خیال رکھیے۔پہلی یہ کہ جو بات بتائیے وہ قرآن اور صحیح احادیث کے حوالوں سے بتائیے،اور دوسری یہ کہ بات وہی بتائیے جس پر آپ خود عمل کرتے ہوں۔ورنہ اللہ کے قانون کے مطابق دوہرے عذاب کے مستحق قرار پائیں گے ایک اپنی گمراہی کا اور دوسرا لوگوں کو گمراہ کرنے کا۔قوم سے بھی التماس ہے کہ آنکھیں بند کرکے وعظ نہ سنیں۔ہر بات پر غور کریں اور دلیل مانگیں۔ورنہ عقل استعمال نہ کرنے اور غور و فکر نہ کرنے کے مجرم قرار پائیں گے۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام پر غورو فکر کی دعوت دیتا ہے،اپنی آیات پر اندھا بہرا ہوکر گرنے سے منع کرتا ہے تو کسی اور کا شمار کس خانہ میں ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔