بھارت میں نظریاتی کشمکش اور مسلمانوں کا مستقبل
تحریر: سید شعیب حسینی ندوی
ہندوستان کو انگریزوں سے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ میں آزادی ملی پھر نئے قانون کی کتاب تیار کرنے میں ڈھائی سال لگ گئے اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ میں دستور ہند کے نفاذ کا اعلان ہوا۔
بھارت کا قانون انفرادی و اجتماعی اور مذہبی و نسلی آزادی کا ضامن ہے اور جمہوریت کے حقیقی تصور کا عکاس ہے، لیکن اس آزادی اور قانون سازی کے خلاف جو آئیڈیالوجی کام کرتی رہی ہے وہ آر ایس ایس کا ڈسکورس ہے، ۱۹۲۵ میں بنی یہ تنظیم تحریک آزادی میں ہندو مسلم اتحاد کے موقف کے خلاف بہت صراحت اور شدت کے ساتھ کھڑی تھی، ان کا نقطہ نظر یہ تھا کی انگریز ہمارے لیے رحمت بن کر آئے ہیں اور مسلم حکمرانی سے نجات دلانے والے ہیں، ان کے ساتھ اسی لیے تعاون کا رویہ اپنایا گیا، ۱۹۲۰ کے ستیہ گرہ سے لے کر ۱۹۴۲ کے بھارت چھوڑو آندولن تک ‘ہندو مہا سبھا’ اور پھر اس کا نیا روپ ‘راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ’ گاندھی کے خلاف ہی محاذ کھول کر بیٹھے رہے اور انگریزوں سے وفاداری نبھاتے رہے، بالآخر اسی تنظیم سے وابستہ شخص ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کا ۱۹۶۸ میں خون کردیا۔
انگریز ‘بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسی پر چل کر ہندو مسلم نفرت کو خوب فروغ دے رہے تھے اور اس میں ان کے کندھے سے کندھا ملا کر یہی ہندتوا آئیڈیالوجی کھڑی تھی، یہ آئیڈیالوجی سب سے زیادہ کھل کر ‘کے بی ہیگوار’ کے بعد دوسرے سر سنگھ چالک ‘ایم ایس گولولکر’ کے دور میں آئی، ان کا طویل مدتی صدارتی دور ۳۳ سال پر محیط ہے، ان کی مشہور زمانہ کتاب بنچ آف تھاٹس (Bunch of Thoughts) ہے جس میں ان کے نظریات اور تنظیم کا ڈسکورس بہت کھل کر آشکارا ہوتا ہے، ہندو راشٹ کا ان کا بیانیہ اس میں درج کیا گیا ہے اور موجودہ آزاد بھارت کو نا قابل تسلیم مانا گیا ہے اسی لیے ترنگے کے خلاف بھی باتیں ہیں، ان کی دوسری مشہور کتاب (We or our nationhood defined) ہے، ان دونوں کتابوں میں اقلیتوں کو سارے ہندوؤں کا دشمن گردانتے ہوئے دوئم درجہ کا شہری بنانے کی بات کی گئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ جب تک قوم کا مشترک دشمن نہ بنایا جائے اس کو متحد کرنا مشکل ہوتا ہے، چاہے وہ حقیقی دشمن ہو یا خود ساختہ، بقول گولولکر راشٹواد کے تین دشمن ہیں: مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ، وہ آگے بڑھ کر ہٹلر کا نمونہ اختیار کرتے ہوئے اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
آزاد بھارت کی تاریخ میں سب سے سنگین موقعہ وہ تھا جب ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور آر ایس ایس کی تحریک نے دور عروج کی جانب قدم بڑھایا یہی وہ سنگ میل ہے جہاں سے اس تنظیم نے نئی کروٹ لی ہے اور اپنا اثر ونفوذ بڑھانے میں کامیابی حاصل کی، رام مندر کا مسئلہ آر ایس ایس کی ریڑھ کی ہڈی تھا اس کی پوری تحریک اسی کے سہارے ٹکی ہوئی تھی، اشتعال انگیزی پیدا کرنا، نفرت کا بازار لگانا، ہندتو سوچ کا پرچار کرنا، ہندو مذہب کو خیالی اندوشوں سے گھیر کر پیش کرنا، مذہبی رسم و رواج میں قوم کو مشغول رکھنا، عدلیہ اور انتظامیہ میں اپنے فکر کے علمبرداروں کو پہنچانا، دنگے بھڑکا کر اور فسادات چھیڑ کر مذہبی خلیج کو خوب بڑھا دینا، یہ اور اس جیسے کتنے ہی محاذ ہیں جن پر دہائیوں کی انتھک محنت اس تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں نے لگائی ہے۔
۲۰۱۴ میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس تحریک نے اپنے دیرنہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا، ہندو اتحاد بنام مسلم کی لائن پر انہوں نے ہر وہ راستہ اختیار کیا جس سے دوئم درجہ کا شہری مسلمانوں کو بنایا جا سکے۔
بات مسلم مخالف کچھ فیصلوں کی نہیں جو دس گیارہ سالوں میں دائیں بازو حکومت نے صادر کیے ہیں بلکہ بہت نچلی سطح تک مسلم دشمن اور اسلام بیزاری کی سوچ پھیلا دی ہے، مسلم سربرآوردہ و اعیان ملت سے لے کر عام مسلمانوں تک احساس کمتری اور محرومی ایسا پیدا کر دیا ہے کہ وہ ایک معمولی ہندو سے بھی ڈرا رہتا کہ وہ اس کا سب کچھ بگاڑ سکتا ہے، جبکہ نچلی ذات کے ہندو میں بھی مسلمان کے مقابلہ ایسا احساس برتری آ گیا ہے کہ بستی کا ایک بے حیثیت نوجوان بھی بڑے سے بڑے مسلمان کو آنکھیں دکھاتا ہے اور ڈرانے کی قوت رکھتا ہے، کوئی حادثہ یا سانحہ واقع ہو تو پہلا ملزم کسی مسلمان کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے، ماب لنچنگ کے واقعات روز کا معمول بن جاتے ہیں لیکن بنیادی دھارا کا ذرائع ابلاغ اسی حاشیہ میں بھی جگہ نہیں دیتا جبکہ دوسری طرف دہلی فسادات میں آواز اتھانے پر پانچ سال سے مسلم نوجوانوں کو جیل میں سڑا دیا جاتا ہے اور فسادات بھڑکانے والے جیل کا منھ بھی نہیں دیکھتے۔
واقعہ یہ ہے ان دس بارہ سالوں میں مسلمانوں کو دوسرے نمبر کا شہری عملا بنا دیا گیا ہے گرچہ قانونی طور پر ایسا نہ بھی ہوا ہو، معاشی میدان میں مسلمانوں کے لیے دائرہ تنگ کیا گیا اور ان کے کاروبار کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
بی جے پی پہلی بار جیت کر جب پارلیمنٹ میں آئی تھی تو وزیر اعظم کے پہلے بیان میں یہ اظہار کیا گیا تھا کہ بھارت کو ۲۰۱۴ میں حقیقی آزادی ملی ہے، پھر حال میں آر ایس ایس کے موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے کہا کہ ۱۹۴۷ میں سیاسی آزادی تو بھارت کو ملی تھی لیکن صحیح معنوں میں ملک رام مندر کے قیام کے وقت جنوری ۲۰۲۲ میں آزاد ہوا ہے، ملک کی وزارت ثقافت نے ۲۰۲۱ میں ۱۹ فروری کو گولولکر کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان پر ٹویٹ کیا اور نوجوانوں کے لیے ان کی تعلیمات کو مشعل راہ گردانا، اس کے علاوہ ساورکر کا نام تو سیاسی گلیاروں میں خوب گونجتا ہی رہا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ ۲۰۱۴ کے بعد سے یہ ملک آر ایس ایس کا بیانیہ ہی لے کر چل رہا اور تعلیمی اداروں اور انتظامی اداروں میں ہر جگہ اسی کے نمائندے پالیسی ساز بن گئے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ برادران وطن کی اکثریت اس انتہا پسند سوچ کی حامل نہیں ہے اور اکثریت کی اقلیت ہی اس آئیڈیالوجی کو ماننے والی ہے، البتہ ایک اور تلخ حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح آشکارا ہے کہ اکثریت کی اکثریت جو اس آئیڈیالوجی سے اتفاق نہیں رکھتی ہے وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور مظلوم کے لیے آواز اٹھانے کی روادار نہیں ہے، یہ بڑی نا سپاسی ہوگی اگر اس جگہ میں برادران وطن کی ایک تعداد کی جو گرچہ قلیل ہے حق پرستی اور قربانی کا ذکر نہ کروں جو برابر مسلمانوں کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلے جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں سب سے بڑا اور اہم سوال یہی ہے کہ ہم کیا کریں اور تبدیلی کہاں سے لائیں؟
میں مانتا ہوں کہ فکر کی جنگ فکر سے ہی لڑی جاتی ہے، اس آئیڈیالوجیکل وار میں مقابلہ کرنا ہے تو نیا نریٹیو (بیانیہ) تشکیل دینا ہوگا، آر ایس ایس کے ڈسکورس کو معقول متبادل ڈسکورس سے زیر کرنا ہوگا، یہ بات سیاسی بلکہ الیکشن کی حد تک تو درست ہو سکتی ہے کہ کپڑا روٹی اور مکان کی بات کی جائے اور بی جے پی سے انتخابی مقابلہ میں ان ایشوز کو اٹھایا جائے، لیکن میں اس کو قبول کرنے کے لیے بالکل آمادہ نہیں ہوں کہ اس طرح کی باتوں سے واقعہ حال کو بدلا جا سکتا ہے یا پارٹی کی پشت پر کھڑی تنظیم کی سوچ کو پسپا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح خدمت خلق ایک انسانی فریضہ ہے جو ہر ایک کے ساتھ بروئے کار لانے کے ہم پابند ہیں، حالات ہمارے موافق ہوں یا مخالف ہمیں انسانیت کی خدمت کرنا اور بندگان خدا کو فائدہ پہنچانا ہی چاہیے بغیر مذہب و وطن کی تفریق کے، یہ ہمارے دین کا اہم ترین حکم ہے، اور یقینا اس سے دلوں میں جگہ بنتی ہے اور نفرت زدہ کو اس مرض سے نکالا جاتا ہے، لیکن ہرگز ہرگز یہ وہ راستہ نہیں جس سے فکر و نظریہ کو مات دی جا سکے۔
سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف سمجھ آتا ہے کہ طاغوتی نظام کا اصل مقابلہ قرآنی نظریہ اور نبوی بیانیہ سے کیا گیا ہے، مہر بند دلوں کو بھی بار بار دستک دی گئی ہے، نعرۂ حق کو مستانہ وار لگایا گیا، عقیدۂ توحید اور تصور آخرت کو دعوت اور ڈائیلاگ کا کلیدی موضوع بنا دیا گیا ہے اور واضح تصور حیات پیش کیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنا مستقل وطنی بیانیہ بنائیں جو مغلوبیت سے پاک کو اور انسانیت نواز ہو، پھر ذہن سازی کا کام کیا جائے اس کے لیے تمام مطلوبہ وسائل اختیار کیے جائیں، ساتھ ہی تمام ملکی ادارہ جات میں اپنی فکر کے نمائندے پہنچانے کا طویل مدتی سفر طے کیا جائے، اور غیر جانبدار برادران وطن کو بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنا بیانیہ تیار کریں جو اس فاشسٹ نظریہ کے مد قابل ٹھہر سکے، مستقبل میں مختلف بیانیے اور افکار و نظریات ایک نئی راہ ہموار کر سکیں گے جو باہمی اعتماد اور رواداری کی راہ ہوگی، لیکن شرط یہ ہے کہ نظریاتی پلیٹ فارم انتخابی سیاست سے الگ رہے، کیونکہ انتخابی سیاست میں شامل پارٹیاں نظریات کی نمائندگی تو کر سکتی ہیں لیکن نظریہ ساز نہیں بن سکتی ہیں۔