آه ! پروفیسر ولی اختر مرحوم
ڈاکٹر جسیم الدین
کتنی جلدی تجھے ترے ساتھیوں نے بھلادیا، تین ہی سال گذرے ہیں، آپ کے بڑے بھائی شیخ علی اختر مکی کے علاوہ کسی نے بھی کوئی تعزیتی کلمات نہیں پیش کیے ، یہی زندگی اور دوستی کی حقیقت ہے، جب تک سانسیں چل رہی ہیں، مزاج پرسی کا سلسلہ رہتا ہے، زندگی کی ڈور ٹوٹتے ہی اپنے بھی بھلا دیتے ہیں۔
آج جو پروفیسران اپنے شعبوں کی کرسی صدارت پر براجمان ہیں، کل انھیں بھی منوں مٹی کے نیچے دفن ہونا ہے، شاید وہ اس وقت اپنے عہدے اور منصب کی چکاچوند میں بد مست ہیں، لیکن سچائی یہی ہے کہ انھیں بھی یہ دن دیکھنا ہے، استاذ محترم پروفیسر ولی اختر کو وفات پائے صرف تین سال گزرے ہیں، لیکن ان کی حیات میں ان کے آگے پیچھے کرنے والوں نے بھی ایسی خاموشی سادھ لی کہ الامان والحفیظ۔
کل ہی کی تاریخ 9 جون 2020 کو الشفا ہاسپیٹل میں عصر ومغرب کے دوران آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
آپ کی رحلت کے بعد تعزیتی کلمات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ گزشتہ سال آپ کی یاد میں دہلی یونیورسٹی میں ایک این جی او کے اشتراک سے پروفیسر مجیب الرحمن کی قیادت میں ایک سمینار بھی ہوا، جس میں درجنوں اساتذہ واسکالرز نے پروفیسر ولی اختر مرحوم کے گوشہ ہائے زندگی پر مقالے پڑھے، مقالات کا مجموعہ بھی شائع ہونے کی بات گشت کررہی تھی، لیکن ہنوز منصہ شہود پر آنے سے قاصر رہا، جب کہ اسے کم ازکم تیسری برسی پر منظر عام پر آجانا چاہیے تھا، جو پروفیسر مرحوم کے لیے شاندار خراج عقیدت ہوتا۔ لیکن بسا آرزو کہ خاک شد
خیر! پروفیسر ولی اختر مرحوم بذات خود اتنے پاکباز تھے کہ انھیں کسی دوسرے کے ایصال ثواب کی چنداں حاجت نہیں، کیوں کہ وہ خود ہر وقت ہر لحظہ اللہ کو حاضر وناظر سمجھ کوئی قدم اٹھاتے، میں نے جب بھی انھیں حساب وکتاب کا معاملہ کرتے ہوئے دیکھا تو ہمیشہ ایک سبق دیا، پانچ روپے کیا ایک روپے کا بھی حساب مانگتے اور ان کے ذمے ہوتا تو واپس کرتے یا ان کا ہوتا تو وصول کر لیتے۔ کئی بار زیروکس والے نے چینج نہ ہونے کی وجہ سے پانچ روپے یا دو روپے باقی رکھا تو اس کو بھی نوٹ کرلیتے اور ان کا بقایا بھجوادیتے یا ان کے ذمے باقی رہتا تو منگواتے۔ اللہ ان کے حسن معاملات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
وہ میری علمی زندگی (پی ایچ ڈی اور پی ڈی ایف) کے نگراں بھی رہے، اس معنی کر اوروں کے مقابلے مجھے زیادہ ملنے جلنے کا موقع ملتا تھا یہ اور بات ہے کہ ان کی سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے کم ہی ملنا چاہتا تھا، لیکن جب بھی ان کے آستانے پر جبیں سائی کی کچھ نہ کچھ ناقابل فراموش سبق سیکھا، وہ مجھے ہمیشہ کہتے کہ جسیم جس طرح پیسہ کمانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا رہتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ اس کو کسی جگہ ملازمت پانے کے لیے سفارش کی ضرورت پڑے گی، دہلی کی میری بھاگ دوڑ والی زندگی اس معنی کر رہی کہ میں نے جے آر ایف اور پوسٹ ڈاکٹوریٹ جیسی خطیر رقم والی فیلوشپ یا پھر گیسٹ فیکلٹی والی تنخواہ پاتے ہوئے بھی پارٹ ٹائم اخبار کی ملازمت یا سمینار میں شرکت یا پھر رسائل وجرائد کے لیے با معاوضہ مضامین لکھنے میں خود کو مصروف رکھتا، میرے اس عمل سے وہ کسی درجے میں خوش بھی تھے کہ یہ اپنی لائف خود ہی سیٹ کر لے گا، اللہ نے ان کی یہ تمنا پوری کردی، لیکن رنج اسی بات کا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں کہ وہ مجھے دیکھ پاتے کہ میں کہاں سے کہاں پہنچا، اور یہاں پہنچانے کا سبب کون بنا۔
میں ہزار بار اپنے رب کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے جو کچھ بھی دیا وہ خالص اپنے رحم وکرم سے دیا، حالاں کہ اسی کے بعض شقی القلب بندے مجھے حیران وپریشان کرنا اور دیکھنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے اس برے دن سے مجھے بچالیا، یہ شاید میرے مخلص وکرم فرما استاذ کی بار بار کہی ہوئی باتوں کا ہی ثمرہ تھا، ورنہ استاذ کے لباس میں چھپے اس شرانگیز و مخبوط الحواس نے تو جو تہیہ کیا تھا مجھے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔
اللہ نے اس کے شر سے مجھے بچا لیا اس کے لیے پھر سجدہ شکر بجا لاؤں گا۔
میں آج جہاں بھی ہوں، خوش ہوں اور اپنے استاذ محترم کی بات کو گرہ باندھے ہوا ہوں کہ اپنے مفوضہ کام کے ساتھ انصاف کرنا۔۔۔الحمد للہ میں اس پر گامزن ہوں اور ان شاء اللہ تادم زیست گامزن رہوں گا۔